0

اس صدی کا ہولوکاسٹ!

سیاسی بحث
پھنسی ہے قوم گردابِ بلا میں
اب اس بحران میں پھیلائو کب تک
دبائو، دھمکیاں، تکرار کیسی
سیاسی بحث میں گھیرائو کب تک!

گزشتہ کئی ماہ سے اسرائیل نے غزہ اور اطراف کو جہنم کا نمونہ بنا رکھا ہے۔ اب تک تقریباً تیس ہزار افراد شہید ہو چکے ہیں جن میں کئی ہزار بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ اسرائیل نے غزہ میں عام جگہوں کے علاوہ مساجد، درس گاہیں، شفاخانے، یہاں تک کہ پناہ گزینوں کے مراکز کو بھی کھنڈر بنا دیا ہے۔ وہ اس ظالمانہ طرز عمل کو چھوڑنے کے لئے نہ اقوام متحدہ کی بات سن رہا ہے نہ عالمی عدالت کے فیصلوں پر عمل کرنے کو تیار ہے۔ تقریباً 500سال قبل جب ملکہ ازابیلا اور اس کے اتحادیوں نے سپین میں مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے تھے اس وقت بھی دنیا خاموش رہی تھی۔ اس کی ایک وجہ مذہبی تعصب تھا اور دوسری وجہ عالمی ذرائع ابلاغ کا محدود ہونا تھا۔ سپین میں بھی مسلمانوں کو چن چن کر قتل کیا گیا تھا۔ ان کے مکان اور دکانیں نذر آتش کی گئی تھیں اور ہزار ہا مسلمانوں کو نذر آتش کر دیا گیا تھا۔ یہ عمل دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کے ہٹلر نے جرمنی میں دہرایا تھا اور سیکڑوں یہودیوں کو گیس چیمبر کے حوالے کر کے ان کو موت کے گھاٹ اتار دیاتھا۔ اس عمل کو تاریخ ’’ہولوکاسٹ‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔ موجودہ دور میں اس ہولوکاسٹ کا ذکر کرنا بھی غیر مناسب سمجھا جاتا ہے۔ اسرائیل کے فی الحال ظالمانہ فعل پر دنیا کے بیشتر ممالک چیخ رہے ہیں۔ دنیا بھر میں اسرائیل کے ظالمانہ اور غیر انسانی رویے کے خلاف جلسے جلسوس جاری ہیں لیکن ظالم اور طاقت کے نشے میں چور اسرائیل کسی کی بات سننے کو تیار نہیں ہے۔ اب برازیل کے صدر نے غزہ میں اسرائیل کی طاقت کو ہولو کاسٹ قرار دیا ہے تو اسرائیل اس مماثلت پر بہت چراغ پا ہے اس کا کہنا ہے کہ برازیل کے صدر نے ہماری ریڈ لائن کراس کی ہے۔ اسرائیل نے برازیل کے سفیر کو بلا کر سخت الفاظ میں احتجاج کیا ہے اور قرائن کہہ رہے ہیں کہ اب اسرائیل اور برازیل کے درمیان تعلقات مزید خراب ہونگے۔ اس پورے پس منظر میں بہت دکھ اور تعجب کی بات یہ ہے کہ کسی مسلم ملک نے اسرائیل کے ظلم و ستم پر کھل کر اسرائیل کی مذمت نہیں کی ہے بس اس احتجاج پر بس کہا ہے کہ اسرائیل غزہ میں جنگ بند کرے جن مسلم ممالک نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کررکھے ہیں انہوں نے بھی اسرائیل کے ظالمانہ رویے کے خلاف تعلقات منقطع کرنے کی بات نہیں کی ہے۔ ہر اسلامی ملک ایک دو کے علاوہ دبی زبان میں اسرائیل کو مطعون تو کررہا ہے لیکن سختی سے اسے نتائج کی دھمکی کوئی نہیں دے رہا۔ یہودی قوم کا پوری دنیا میں کوئی وطن نہیں تھا اور یہ مختلف ممالک میں پناہ لئے ہوئے تھے۔ ہم برطانیہ کی بات کرتے ہیں یہاں یہودیوں کو صدیوں نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا۔ یہودی برطانیہ میں ہر طرح سے اپنی شناخت چھپانے کی کوشش کرتے تھے۔ یہودیوں سے نفرت کی یہ فضا ایسی تھی کہ شیکسپیئر کو بھی اپنے ڈرامے میں شائیلاک نامی یہودی کو ایک ظالم اور شقی کے روپ میں پیش کرنا پڑا۔ جنگ عظیم دوم کے بعد سیاست اور حالات نے پلٹا کھایا اور یہودیوں نے امریکہ اور برطانیہ کو مجبور کر دیا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں ان کے لئے زمین کا کوئی خطہ حاصل کرے۔ اس وقت بیشتر اسلامی ممالک آزاد نہیں تھے بلکہ یورپی ممالک کی کالونیاں بنے ہوئے تھے۔ لہٰذا ایک منصوبے کے تحت مسلمانوں اور عربوں کے قلب میں فلسطین اور اس کے اطراف میں یہودیوں کی مملکت اسرائیل قائم کی گئی اور اسے یورپ نے خاص طور پر امریکہ اور برطانیہ نے اس قدر طاقتور بنا دیا کہ اسلامی ملک اسرائیل سے اپنی زمین واگزار کرانے کے لئے اگر کبھی جنگ پر آمادہ بھی ہوئے تو نہ صرف انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا بلکہ اپنی مزید زمین بھی اسرائیل کے حوالے کرنی پڑی اس وقت بھی عرب ممالک کے درمیان اسرائیل بتیس دانتوں کے درمیان زبان بنا ہوا ہے لیکن کوئی اسلامی اور عرب ملک اسرائیل کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ غزہ کے حالیہ معاملے میں بھی نہ صرف امریکہ نے اسرائیل کو بے دریغ جنگی سامان دیا بلکہ اس کی اعانت کے لئے ساتواں امریکہ بیڑہ بھی حرکت میں آگیا۔ اسرائیل اپنی مملکت کی سرحدیں بڑھانے کے لئے عربوں کی زمین پر نئی نئی بستیاں بسارہا ہے لیکن سب ممالک اس زیادتی پر چپ سادھے ہوئے ہیں۔ اگر اسرائیل سچ بات کہنے کو اپنی ریڈ لائن کی خلاف ورزی سمجھتا ہے تو اب تک اس نے جن مسلم مملکتوں پر حملے کئے ہیں اور عربوں کی زمین پر جس طرح مغرب کی اعانت سے قبضہ کیا اسے کیا کہیے۔ تاریخ کا فیصلہ یہ ہے کہ جو ملک طاقتور ہے۔ اس کا عمل، اسکا فیصلہ صحیح ہے۔ کمزور کی بات کوئی نہیں سنتا۔ سیاست نے ہر اسلامی ملک کو خاموش رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر اب بھی تمام عرب اسلامی ممالک ایک ہو جائیں تو پورا مغرب اسرائیل کو کسی بھی ظالمانہ اقدام سے باز رہنے پر مجبور کر سکتاہے۔ کاش مشرق وسطیٰ کی تمام مملکتیں اب اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کریں ورنہ خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ آج اس کی کل ان کی باری ہے کا معاملہ نہ ہو جائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں