ہفتہ وار کالمز

دریدہ دہن حکومتی گماشتے!

کون ہے جس نے وہ کہاوت نہ سن رکھی ہو کہ گنجے کو اگر ناخن مل جائیں تو وہ سر کھجا کجھاکے مرجاتا ہے۔
اور اللہ غریقِ رحمت کرے مرحوم محسن بھوپالی کو کہ وہ ایسے لازوال چار مصرعے کہہ گئے جوآج ستر برس بعد بھی پاکستان کے سیاسی اور ریاستی نظام کی بھرپور عکاسی کر رہے ہیں۔ یاد ہے نا انہوں نے کیا کہا تھا؟
جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
اس حادثہء وقت کو کیا نام دیا جائے
مئے خانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے
کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے!
ہمیں بچپن سے سنی کہاوت اور محسن بھوپالی مرحوم دونوں یاد آگئے اس دریدہ دہن خواجہ آصف کی ہرزہ سرائی سن کر اور کیوں نہ آتے کہ ایک تو اس نواز لیگی گماشتے کی شخصیت ہی اتنی کریہہ ہے کہ جب دیکھو تو لاحول ولاقوت پڑھنے کو دل چاہتا ہے اور پھر یہ گماشتہ، یہ چھٹ بھیا، جب اپنا منہ کھولتا ہے تو سوائے خرافات کے اور کچھ سننے کو نہیں ملتا۔ آواز بھی ایسی کہ کان سماعت پہ ماتم کریں، لہجہ اتنا کرخت کہ اس پر انسان کے بجائے جانور کا شبہ ہونے لگے اور پھر، الہ ما شاء اللہ جب بولنا شروع کریں تو ہر لفظ سے جہالت اور تعلیم کے انتہائی فقدان پر ماتم کرنا پڑتا ہے۔ لیکن دو دن پہلے تو یہ گماشتہ، جس کے خون میں خواجگی اور مصاحبی رچی ہوئی ہے اسلئےکہ موصوف کے والد بزرگوار، خواجہ صفدر جنرل ضیا الحق کی جوتیاں سیدھی کرتے کرتے ان کی ایجاد کردہ مجلسِ شوری کے سربراہ ہوگئے تھے، تمام حدیں پار کرگیا پاکستان کے قومی مفادات سے بے رخی، بے اعتناعی اور کھلی ہوئی دشمنی کی!
خواجہ آصف، پاکستان کی بدنصیبی سے فی زمانہ جو کٹھ پتلی حکومت قوم کے سینے پر رات و دن مونگ دَل رہی ہے، اس میں وزیر دفاع ہیں۔ اس سے پہلے دفترخارجہ پر بھی ان کا نحس سایہ پڑچکا ہے جیسا سایہ ان دِنوں ایک اور جاہل، نیم خواندہ منشی اسحاق ڈار کا پڑ رہا ہے۔ تو اس وزیرِ دفاع کی حیثیت میں وہ برطانیہ کی اسکائی نیوز جو اپنی ساکھ کے اعتبار سے دنیا بھر میں معتبراور مؤقر ہے، کو انٹرویو دے رہے تھے ۔ انٹرویو کے دوران خاتون صحافی نے ان سے سوال کیا کہ پاکستان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ دہشت گردوں اور تخریب کاروں کی سرپرستی کرتا ہے آپ، وزیرِ دفاع، اس ضمن میں کیا کہنا چاہیں گے؟ اس خاتون صحافی کا الزام پہلگام میں ہوئی گذشتہ ہفتے کی دہشت گردی کے سانحہ کے پس منظر میں تھی کیونکہ مودی سرکار، جو پاکستان پر الزام تراشی کیلئے اپنا ثانی نہیں رکھتی، اس نے سانحہ میں چلی ہوئی گولیوں کا بارود بھی خشک نہیں ہوا تھا کہ اس دہشت گرد کارروائی کا پاکستان کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے جتنا ملبہ تھا وہ ہم پر الٹ دیا۔ مودی تو کھلا دشمنِ پاکستان ہے اور اس کی بھارتی جنتا پارٹی کی تمام تر سیاست کا دار ومدارمسلم اور پاکستان دشمنی پر ہے۔ لیکن خواجہ آصف جیسے دریدہ دہن وہ گماشتے ہیں جنہیں بغلی گھونسا کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ یہ آستین کے سانپ مودی جیسےکھلے دشمن سے زیادہ خطرناک اور پاکستان دشمن ہیں۔ بد زبان اور بد کلام خواجہ آصف نے اس خاتون اینکر کے سوال کے جواب میں یہ نہیں کہا کہ پاکستان کو الزام دینا تو مودی کا پرانا رویہ اور وطیرہ ہے، نہیں، اس دریدہ دہن نے جواب میں کہا کہ امریکہ کیلئے دہشت گردی کا کام تو ہم گذشتہ تیس برس سے کرتے آرہے ہیں یہ کوئی آج کی یا انوکھی بات نہیں ہے!
تو اس خاتون اینکر ہی کیا جو بھی اس دریدہ دہن سرکاری بھانڈ کا یہ بہ بانگِ دہل اقرار سنتا تو وہ یہی کہتا کہ تم اپنے منہ سے اپنا جرم قبول کر رہے ہو اور دنیا کو بتا رہے ہو کہ امریکہ کی غلامی میں پاکستان تو دہشت گردی کا عالمی چمپئن بن چکا ہے۔ہمیں اس بھانڈ آصف کی خرافات سن کر یہ قول یاد آگیا کہ ناؤ کس نے ڈبوئی؟ خواجہ خضر نے ! ایسی ہی لٹیا عمران خان کے دورِ اقتدار میں ان کے وزیر مواصلات، چوہدری سرور نے ڈبوئی تھی جب انہوں نے بڑی شان سے پاکستان کی قومی اسمبلی کو اور دنیا کو بتایا تھا کہ پی آئی اے کے آدھے سے زیادہ پائلٹوں کے لائسنس جعلی تھےان کا یہ اقرار سنتے ہی یورپ میں پی آئی اے کی تمام پروازوں پر پابندی لگادی گئی تھی، برطانیہ سمیت۔ اب کہیں جاکر پی آئی اے کو یورپ میں کہیں کہیں پروازیں پھر سے شروع کرنے کی اجازت ملی ہے لیکن برطانیہ کی حکومت نے اب بھی یہ پابندی برقرار رکھی ہوئی ہے اور پی آئی اے کو پروازوں کو پھر سے شروع کرنے کی اجازت نہیں مل سکی ہے ! جہالت بھی ہےاور تربیت کی کمی بھی منہ سے بول رہی ہے۔ ان سیاسی شعبدہ بازوں میں اتنی تمیز بھی نہیں ہے کہ کونسی بات کب اور کہاں کرنی چاہئے اور کب اور کہاں اسے ادا کرنے کیلئے اپنا منہ کھولنا نہیں چاہئے!
تربیت ہوتی تو جانتے کہ بزرگوں نے کیا ہدایت کی ہے۔ ہمیں تو بچپن ہی میں سکھایا گیا تھا کہ بیٹا بات ادا کرنے سے پہلے، منہ کھولنے سے پہلے اپنی بات کو ذہن میں تولو اور پھر موقع اور محل دیکھتے ہوئے فیصلہ کرو کہ کیا بات کرنا یہاں، اس موقع اور ماحول میں درست ہوگا! لیکن دریدہ دہن خواجہ آصف، یا اس سے پہلے چوہدری سرور، اپنی خود نمائی کے جنون میں وہ بک گئے جو زبان سے ادا نہیں کرنا ہی عقلمندی کا تقاضہ تھا !
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
مرزا غالب تو کیفیتِ جنوں کی بات کر رہے تھے لیکن یہ بکواس ، یہ خرافات، تو ان کا کارنامہ ہے جو صاحبِ منصب و فضیلت ہیں، جن کے منہ سے نکلا ہوا کلمہ حکومت اور ملک کی پالیسیوں کا غماز ہوتا ہے۔ لیکن منصب اور اقتدار اگر انہیں مل جائے جو اس کے اہل اور سزاوار ہی نہ ہوں تو وہی ہوتا ہے جو چوہدری سرور جیسے چھٹ بھیے کا کارنامہ تھا یا جو کالک ،دہشت گردی کی، دریدہ دہن خواجہ آصف نے پاکستان کے منہ پر تھوپ دی ہے، لیپ دی ہے۔ یہ ایسی سیاہی ہے کہ جسے مٹانے میں برسوں درکار ہونگے۔ پاکستان پر ویسے ہی بھارت سرکار کی سربراہی میں اس کے مغربی دوستوں اور سہولت کاروں کی جانب سے یہ الزام بار بار عائد کیا جاتا رہا ہے کہ پاکستان دہشت گرد تنظیموں کی سرپرست کرتا ہے اب دنیا کو آپ کیسے یہ باور کروائینگے کہ ہمارا دہشت گردی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے جب آپ کا وزیر دفاع اپنے بدبودار منہ سے یہ اقرار کر رہا ہے کہ ہم تو اس دہشت گردی کے پرانے اور آزمودہ کھلاڑی ہیں اور اس میں ایسے طاق ہوچکے ہیں کہ کوئی ہماری گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا ! ملک پر مسلط موجودہ نظامِ حکومت و طاغوت میں خواجہ آصف جیسا دریدہ دہن تو صرف ایک گماشتہ ہے۔ اس جیسوں کی ڈوریاں جن فرعون صفت جرنیلوں کے ہاتھوں میں ہیں اس مافیا کا ڈون تو یزید عاصم منیر ہے جو پاکستان کی عسکری قیادت کی تاریخ میں سب سے زیادہ رسوائی کا حامل ہے۔ تو عاصم منیر کو بھی یہ وہم ہوگیا ہے کہ وہ بونا پارٹ ہونے کے ساتھ ساتھ دانشور بھی ہوگئے ہیں۔ اپنی دانشوری کے تیور دکھانے اور کس بل آزمانے کیلئے انہوں نے بیرونِ ملک پاکستانیوں کا ایک کنونشن اسلام آباد میں منعقد کروالیا۔ یزیدِ وقت ہے، اس کے پاس ملک کے تمام تر وسائل ہیں اور یہ زعم بھی ہے کہ وہ مطلق العنان حکمراں ہے اور جو چاہے کرسکتا ہے۔ حافظِ قرآن ہونے کا ان کا دعویٰ تو پرانا ہے لیکن اب انہیں دانشوری کا شوق بھی چرایا ہے جس کی تسکین کیلئے انہوں نے اپنی دانست میں ایک تیر سے دو شکار کرنے کی ٹھانی۔ جرنیلی ٹولہ کو یہ بڑی پریشانی لاحق رہتی ہے کہ بیرونِ ملک پاکستانیوں کی ایک بہت غالب اکثریت عمران خان کے ساتھ ہے اور اس حد تک ساتھ ہے کہ اس کے حق میں اس نے امریکہ اور کینیڈا دونوں ہی ممالک میں لابنگ کی ہے، انتھک کی ہے، شبانہ روز کی ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ امریکی کانگریس میں پاکستان میں جاری فسطائیت کی مذمت اور عمران کی رہائی کے حق میں قرارداد پیش ہوچکی ہے جو ایسی تلوار ہے جو جرنیلی ٹولہ کے سرِ پُر غرور پر کسی بھی وقت گرسکتی ہے۔ سو عاصم منیر نے ان بیرونِ ملک پاکستانیوں کے ایک ٹولے کو اپنی سرپرستی میں جمع کرلیا جو عقل سے اندھے اور بصیرت سے محروم ہیں اور اب بھی جرنیلی ٹولے اور اس کے سیاسی گماشتوں کے حق میں ہے۔ ان بے بصیرت پاکستانیوں کے کنونشن سے یزیدِ وقت نے خطاب کیا اور بڑے طنطنہ سے کیا جس میں انہوں نے یہ دعوی کیا ، بلوچستان میں جاری ابتری اور عوامی رنجش کے حوالہ سے، کہ یہ چند سو لوگ جو احتجاج کر رہے ہیں ان کی حیثیت کیا ہے۔ فوج انہیں کیڑے مکوڑوں کی طرح سے مسل سکتی ہے جب چاہے ! یہ اکڑ، یہ گھمنڈ اس چوہے جنرل نیازی کو بھی تھا۔ اس نے بھی تو بڑے غرور سے یہ نعرہ لگایا تھا کہ وہ بنگالیوں کی نسل بدل دے گا۔ نسل تو وہ نہیں بدل سکا لیکن جن کی نسل بدلنے کا ارمان لئے وہ واصلِ جہنم ہوگیا اس قوم نے اپنی جرأت سے پاکستان کا نقشہ ضرور بدل دیا! تو عاصم منیر بھی پاکستان کے نظامِ ریاست کے رسوائے زمانہ ہلاکو و چنگیزوں کی طرح تاریخ کے ان کرداروں کے زمرہ میں قصہء پارینہ ہوجائے گا، معدوم ہو جائے گا جیسے ایوب، یحییٰ، نیازی اور پرویز مشرف جیسے ملک و قوم کے دشمن ہوگئے ہیں۔ لیکن بلوچستان کے حریت پسند عوام جو اپنے حقوق کیلئے سراپا احتجاج ہیں وہ اللہ کی نصرت و تائید سے ایسے ہی اپنے قومی حقوق حاصل کرلینگے جیسے مشرقی پاکستان کے بنگالیوں نے کئے تھے۔ رنگیلے سلطان یحییٰ خان اور یزید عاصم منیر میں بڑی مماثلت ہے۔
یحییٰ کے سر پر بنگالیوں کی تقدیر بگاڑنے کا جنون سوار تھا اورعاصم منیر پر بلوچیوں کو نیست و نابود کرنے کا بھوت مسلط ہے۔ یحییٰ کے حلق میں شیخ مجیب الرحمان ہڈی تھا تو عاصم منیر کے حلق میں کانٹا عمران خان ہے۔ اس یزید کو تو حافظ، قرآن ہونے کا بھی دعویٰ ہے تو قرآن کا یہ فرمان بھی اسے یاد ہونا چاہئے کہ ہر ظالم کا انجام رسوائی اور ذلت ہی ہوتا ہے جو ایک دن، بہت جلد، اس یزید کا بھی مآل ہوگا! خواجہ آصف کی دریدہ دہنی پر یہ چار مصرعے آپ کی نذر ہیں جس کے ساتھ مجھے اجازت بھی چاہئے:
خواجہ آصف سا اک دریدہ دہن
مسندِ اقتدار پر فائز
گندے منہ سے قرار دیتا ہے
کام اس کے سدا سے ناجائز!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button