0

غزہ میں فلسطینیوں کاقتل عام، کیادنیا تیسری عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے

غزہ اس وقت عالمی خبروں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اسرائیل جو ہر وقت باروداور موت برسا رہا ہے اب تک کی خبروں کے مطابق ۸ ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں لاشوں کے ڈھیر لگ گئے ہیں اس میں معصوم بچے اور عورتیں زیادہ ہیں دنیا بے شرموں کی طرح خاموش ہے۔ ہر ملک کااپنا اپنا مفاد ہے۔ انسانیت کی کسی کو فکر نہیں ہے۔ یہ فلسطینی شاید کتے اور بلیوں سے بھی کم تر ہیں۔ پوری دنیا صرف مذمت کررہی ہے نہ اسرائیل کواس کی فکر ہے نہ امریکہ کو، انہوں نے بدلہ لینا ہے حماس کو صفحہ ہستی سے مٹانا دینا ہے۔ غزہ پر قبضہ کر لینا ہے۔ فلسطینیوں کا وجود ہی ختم کر دینا چاہتے ہیں۔اس مہذب دنیا میں انسانیت ختم ہو گئی ہے۔ مسلم ممالک خاموش ہیں سب کااپنا اپنا مفاد ہے۔ کتنے مسلمان ملکوں کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں۔ متحدہ امارات بحرین اومان یہ سب اسرائیل کے دوست ہیں۔ سعودی عرب میں قائم 54 سے زیادہ اسلامی ملکوں کا فوجی ہیڈ کوارٹر ہے وہاں پر ایک پاکستانی جنرل راحیل شریف فوجی سربراہ بن کر بیٹھا ہوا ہے۔ وہ خاموش ہے۔ اس کے منہ سے ایک لفظ بھی اسرائیل کے خلاف نہیں نکلا ہے۔ سعودی وزیر خارجہ حماس کو الزام دے رہا ہے کہ حماس کو 1400سے زیادہ اسرائیل کے لوگوں کو میزائلوں سے حملہ کر کے نہیں مارنا چاہئے تھا لیکن اس نے اس کی مذمت نہیں کی کہ اسرائیل نے غزہ میں کارپٹ بامبنگ کی ہے اور ہزاروں فلسطینی شہید ہو گئے۔ بلڈنگیں کھنڈر بن گئیں نہ گیس ہے نہ بجلی ہے نہ پانی ہے نہ دوائیں ہیں سب امریکہ سے ڈرتے ہیں دوسری بڑی طاقتیں روس اور چائنا اب تک صرف زبانی مذمت کر رہے ہیں کسی کی خواہش نہیں ہے کہ وہ امریکہ کو دھمکی دے کہ وہ اسرائیل کی مدد کرنے سے باز رہے۔ اب دنیا میں جنگل کا قانون آگیا ہے جس کے پاس طاقت ہے وہی جو چاہے وہ کر سکتا ہے۔ عالمی قانون ختم ہو گیا ہے۔ انسانیت ختم ہو گئی۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کواسرائیلی مندوب دھمکیاں دے رہا ہے کہ اس کو استعفیٰ دے دینا چاہیے وہ اس منصب کے قابل نہیں ہے کیوں اس نے اسرائیلی حملوں کی مذمت کی ہے۔
اب آئندہ کیاہو گا، حالات بہت تیزی سے بدل رہے ہیں۔ گھنٹوں میں جنگ کا نقشہ بدلتا رہتا ہے۔ ترکی نے بہت تیزی سے کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس نے اسرائیل کے اردگرد کے مسلمان ملکوں کو دعوت دی ہے کہ وہ اب اس جنگ میں شامل ہو جائیں ورنہ اگلی باری ان کی ہے وہ مسلمانوں کو دوسرے درجے کی قوم بنا کر رکھ دے گا اور آہستہ آہستہ سارے ملکوں پر قبضہ کر لے گا۔ اگر غور سے دیکھیں تو اسرائیل کے اردگرد کے ملک خاموش ہیں۔ مصر نے اپنی سرحد بند کی ہوئی ہے کہ غزہ کے سارے لوگ کہیں مصر میں نہ داخل ہو جائیں۔ اردن نے اب تک صرف زبانی اسرائیل کے خلاف بات کی ہے وہ تو بائیڈن کو اپنے ملک میں دعوت دے رہا تھا تاکہ وہ سعودی عرب اور دوسرے عرب ملکوں کے نمائندوں سے مل سکے لیکن عرب ملکوں کے سربراہوں اور محمود عباس نے ملنے سے انکار کر دیا وہ اردن نہیں آئے۔ ریڈ کراس اور دوسری عالمی تنظیمیں صرف زبانی بیان دے رہے ہیں۔ اب غزہ میں لوگ بھوک سے بھی مرنے لگے ہیں۔ غزہ میں ان تین ہفتوں میں اتنا خون بہا ہے کہ شاید دوسری عالمی جنگ کے بعد اتنا خون کبھی نہیں بہا ہوگا۔ غزہ میں اسرائیلی ٹینک اور فوجی داخل ہو گئے ہیں۔ اب غزہ کی گلیوں میں اور خندقوں میں دست بدست لڑائی ہورہی ہے۔ اسرائیلی اوپر سے بھی ہوائی حملے کررہے ہیں اور زمین پر ان کے ٹینک اندر داخل ہورہے ہیں۔ ہر طرف خون ہی خون ہے۔ ایران کا اس لڑائی میں بہت اہم رول ہے وہ حماس کو بھی سپورٹ کرتا ہے حسن نصراللہ کی حزب اللہ کی بھی مدد کرتا ہے اور حوثی باغیوں کو بھی اسلحہ سپلائی کرتا ہے حقیقت میں اسرائیل امریکہ اور برطانیہ کی مدد سے جنگ لڑرہا ہے۔ تینوں گروپ ایران کی مدد سے اسرائیل کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ ایران بہت بڑی فوجی طاقت نہیں ہے۔ امریکہ کے مقابلے میں روس اور چین بڑی طاقتیں ہیں فوجی لحاظ سے۔
اس جنگ کا نقشہ کیا ہو گا کسی کو نہیں معلوم جس طرح روس اور چین نے امریکہ کو وارننگ دی ہے وہ تیسری عالمی جنگ کی طرف حالات کو لے جارہے ہیں۔ روس یوکرائن جنگ میں امریکہ اور یورپ کی مداخلت کی سزا اب امریکہ کو دینا چاہتا ہے صرف یورپ کی مدد کی وجہ سے روس یوکرائن پر قبضہ نہیں کر سکا وہ جنگ ابھی بھی چل رہی ہے۔ اگر ترکی اور اسلامی ممالک اس جنگ میں شامل ہوتے ہیں تو روس اور چین بھی اس جنگ میں شامل ہونگے پھر دنیا دو حصوں میں بٹ جائے گی۔ ایک طرف اسرائیل امریکہ برطانیہ اور یورپی ممالک ہونگے تو دوسری طرف اسلامی ممالک ایران اور ترکی سمیت ہونگے جس کی پشت پر روس اور چائنہ ہونگے جنگ کتنے دن چلے گی اس کا اندازہ کسی کو بھی نہیں ہم سب دعا کر سکتے ہیں کہ یہ جنگ جلد ختم ہو اور مزید فلسطینی خون نہ بہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں