ان کو کون بلاتا ہے ؟

میرے تمام قارئین کو گذشتہ عیدِ قرباں بہت مبارک ہو۔ امید ہے کہ آپ کی یہ عید اچھی گزری ہوگی ! یہ عید حج کی عبادت سے منسلک ہے اور حج وہاں، اس مقدس سرزمین پر ہوتا ہے جہاں گذشتہ ایک صدی سے اس قبیلے کی حکومت ہے جس نے جزیرہ نمائے عرب کا نام ہی اپنے نام پر رکھ لیا ہے! اور ہم پر جو جرنیلی ٹولہ اور ان کے غلام ، کاسہ لیس ، جعلساز سیاستدانوں کی فسطائیت مسلط ہے وہ شیوخِ عرب کے در کے غلام ہیں، بھکاری ہیں جو ہر شیخِ عرب کے حکم کی تعمیل اپنا فریضہ تصور کرتے ہیں، ایسا ویسا فریضہ نہیں بلکہ ہر فرمان کو دینی فرمان کا مرتبہ دیتے ہیں اور پھر آقاؤں کے سامنے کشکول بڑھا دیتے ہیں کہ جو بھی ذکات ، صدقہ اور خیرات ہو وہ ان کے کاسہء گدائی میں ڈال دی جائے۔
اور شیوخ سے جو بھی ملتا ہے وہ براہِ راست ان کے امریکی یا یورپی بنکوں میں ان کے ذاتی اکاؤنٹ میں چلے جاتے ہیں اور یہ قوم کے سامنے صرف اپنے متمول آقاؤں کی فیاضی کے قصیدے پڑھتے ہیں!
آقاؤں کی کورنش بجالانے کا ایک اور طریقہ جو ہمارے غاصبوں نے، وہ چاہے وردی میں ہوں یا عام شہریوں کے لباس میں، ایجاد کیا ہے وہ یہ کہ یہ طالع آزما، یہ ملت فروش، حج کے موسم میں یا سال کے کسی بھی مہینے میں یہ کہہ کر کہ عمرہ ادا کرنے جارہے ہیں ، سعودی عرب کا رخ کرتے ہیں اور مذہب کی پنی میں لپٹی ہوئی یہ افیم ایک عرصہء دراز سے قوم کو دی جاتی رہی ہے اور قوم بھی ایسی سادہ لوح ہے کہ بلاچون چرا اس افیم کو کھالیتی ہے !
لیکن کچھ ذہن ہیں جو بیدار ہیں اور یہ افیم کی گولی کھانے سے انکار کرنے کی جراءت ان میں ہے۔
ہمارے ایک ایسے ہی دوست اس سال حج کا فریضہ ادا کرنے کیلئے گئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے وہاں حج سے فارغ ہوکے ہمیں ایک پیغام بھیجا، اور پیغام کیا بلکہ ایک سوال ہم سے کیا کہ یہ جو ہماری نام نہاد اشرافیہ کے معززین ہر سال سعودی حکومت کے مہمان بن کر حج یا عمرہ ادا کرنے کیلئے آتے ہیں تو ہم جیسے جاگتے ہوئے لوگوں کے ذہن میں، خاص طور پہ حج کے مناسک کے حوالے سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ رمی کرتے ہوئے، یعنی شیطان کو کنکریاں مارنے کا کام ہم اسی طور پہ کریں جو عام دستور ہے کہ تین پتھر کے شیطانوں پر کنکر مارے جاتے ہیں یا اس کے بجائے ہم ان شیطان کے چیلوں پرکنکر ماریں، بلکہ سنگباری کریں جنہوں نے چوبیس پچیس کڑوڑ پاکستانی عوام کو اپنی ہوسِ اقتدار اور مال و دولت کی بھینٹ چڑھایا ہوا ہے اور پوری قوم کو ان شیوخِ عرب کی نظروں میں فقیر بنایا ہوا ہے !
ہم نے اپنے دوست کو جواب میں یہ پیغام بھجوایا کہ دوست، اصل تو یہ پاکستانی گداگر اشرافیہ اس کی مستحق ہے کہ روایتی شیطان کے بجائے اس پر کنکریاں برسائی جائیں، اسے سنگسار کیا جائے اسلئے کہ ان کے کرتوت ایسے ہیں کہ شیطان نے کم از کم پاکستان کی حد تک اپنی ابلیسیت کے جملہ حقوق ان کے نام منتقل کردیئے ہیں۔ اللہ اللہ خیر صلا !
ہم نے اپنی چھتیس سالہ سفارتی زندگی کا ایک چوتھائی زمانہ ان شیوخِ عرب کے درمیان گذارا ہے اور بلا خوفِ تردید یہ کہ سکتے ہیں کہ ہم ان کی رگ رگ کو پہچانتے ہیں۔
شیوخِ عرب ہنرمند پاکستانیوں کی بہت عزت کرتے ہیں اور ان کی لیاقت کو سراہتے ہیں، اس کی قدر کرتے ہیں لیکن اس نام نہاد اشرافیہ نے پاکستان کے نام کو اتنا بے توقیر کردیا ہے کہ وہ اب ایک عام پاکستانی کو حقیر سمجھتے ہیں اور اسے ان ناموں سے پکارتے ہیں جن سے ہتک اور بے عزتی کی بو آتی ہے۔ مثال کے طور پہ سعودی عرب میں انہیں "مسکین” پکارا جاتا ہے، مسکین جو نادار اور مفلس ہوتا ہے۔ کویت میں، اسی طرح ایک عام پاکستانی کو "رفیق” کہہ کے مخاطب کیا جاتا ہے۔ رفیق ان کی لغت میں دوسرے یا تیسرے درجہ کا انسان ہوتا ہے !
ایسے ماحول میں جہاں اپنے وطنِ عزیز کے لوگوں کو کمتر انسان سمجھا جاتا ہو ایک سفارتکار کیلئے کام کرنا بہت کٹھن ہوتا ہے، عزتِ نفس پہ بہت بار گذرتا ہے، لیکن ہماری اشرافیہ اتنی بے حس اور بے ضمیر ہے کہ اس کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔ اسے کام صرف اپنے حلوے مانڈے سے ہے۔ ان کو شیوخ کی خیرات پاکستانی کی امداد کے حوالے سے ملتی رہے، ان کی تجوریاں بھرتی رہیں تو انہیں کوئی فکر نہیں ہے۔ یہ وہ ہیں جو ملک و قوم کے سب سے بڑے دشمن ہیں، ملت فروش ہیں یہ بے غیرت اور بے ضمیر لوگ جنہوں نے پوری قوم کو اپنی ہوس کی نذر کیا ہوا ہے اور اس کی عزت نفس کا بہت سستے داموں سودا کیا ہے !
اس نام نہاد اشرافیہ نے قوم کو ایک اور گولی دی ہوئی ہے کہ جو حج یا عمرہ کرنے کیلئے، چاہے وہ سرکار کے خرچہ پر ہی کیوں نہ ہو جیسا کہ اس چوروں کے گروہ، اس مافیا کا دستور ہے، سعودی عرب کا رخ کرتا ہے تو اسے یا تو اللہ کی طرف سے بلاوا ملتا ہے، یا ان کے بقول، سرکارِ دوعالم، ہمارے پیارے نبیﷺ انہیں آنے کی اجازت عطا فرماتے ہیں۔
اس مذہبی افیم کے کالے کاروبار میں ان کی بھرپور مدد وہ کٹھ ملا سر انجام دیتے ہیں جن کیلئے حکیم الامت نے کیا خوب کہا تھا کہ
ملا کو جو ہے ہند میں سجدہ کی اجازت
نادان سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد!
علامہ کے زمانہ میں شاید کٹھ ملا واقعی نادان رہا ہو لیکن پاکستان کا کٹھ ملا اور نام نہاد عالمِ دین نہ نادان ہے نہ سادہ لوح بلکہ وہ قوم کو مذہب کے نام پرجو افیم دے رہے ہیں اس گھناؤنے کاروبار میں وہ گلے گلے تک اس مافیا کے ساتھ شریکِ جرم ہیں جس نے پوری قوم کو اپنی ہوس کی تکمیل کیلئے گروی رکھا ہوا ہے۔
دینِ اسلام کی تعلیم کہیں یہ نہیں کہتی کہ، پاکستانی کٹھ ملا کے بقول، جو ایک بار حج یا عمرہ کر آیا تو وہ ایسے ہوگیا گویا اپنی ماں کے پیٹ سے اس نے جنم لیا ہو۔ ظاہر ہے کہ کٹھ ملا، ان خود پرست سیاسی شعبدہ گروں کے حلیف،یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سال بھر تم ہر طرح کو دو نمبری کام کرتے رہو، جھوت بولو، جعلسازی کرو، کاروبار میں ، لین دین میں بے ایمانی کرو، غذائی اشیاء میں جی بھر کے ملاوٹ کرو اور سال بھر بعد، ان تمام گناہوں اور بدکاریوں کی سلیٹ کو، تختی کو پاک صاف، دھلی دھلائی کرنے کیلئے اسی حرام کی کمائی سے عمرہ کرنے چلے جاؤ، بس سب حساب بیباق ہوگیا، تمہارے سب گناہ معاف ہوگئے، تم دودھ کے دھلے ہوئے، پاک و صاف ہوگئے وغیرہ وغیرہ !
یہ صرف جہالت کا درس ہی نہیں ہے بلکہ قوم کے ساتھ مذہب کے مقدس نام پر بہت بڑا فریب اور دھوکہ ہے !
اللہ تو اپنی کتاب میں صاف کہہ چکا ہے کہ رائی کے دانے کے برابر بھی نیکی کی جزا ہے اور اسی رائی کے برابر دانے کی بدی یا برائی کی سزا ہے لیکن دو رکعت کا ملا یہ فتوی دے رہا ہے کہ اس سے غرض نہیں کہ تم نے سال بھر کیا کیا بدکاری کی ہے، بے ایمانی کی ہے، ہر طرح کا کالا دھندا کیا ہے، حرام سے پیسہ کمایا ہے بس اب اسی حرام کے پیسے سے حج یا عمرہ کرآؤ سب حساب بیباق ہوگیا۔
اس زہریلی تعلیم کو عام ذہنوں کیلئے قابلِ قبول بنانے کیلئے یہ مزید اہتمام کیا جاتا ہے، جیسے پان کی گلوری کو زیادہ مزے کا بنانے کیلئے اس میں قوام ڈالا جاتا ہے ، کہ عام فیوی دیا جاتا ہے کہ جو بھی زائر ہے اس کا بلاوا عرش سے آتا ہے !
اسی پس منظر میں تو حکیم الامت نے کہا تھا کہ
قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا جانیں بیچارے دو رکعت کے یہ امام!
یہ وہ تعلیم ہے جس نے ہزاروں برس سے ہندو سماج کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ وہاں بھی برہمن کی اجارہ داری ہے جو کہتی ہے کہ جو گنگا میں اشنان کرلے وہ پوتر اور پاک صاف ہوجاتا ہے!
تو ہمارے اسلامی جمہوریہء پاکستان میں بھی وردی پوش جرنیلوں اور ان کے باجگزار سیاسی گماشتوں نے بھی دینِ اسلام کو اپنی موروثی جاگیر بنایا ہوا ہے اور بے حس اور نیم تعلیم یافتہ عوام کو یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ اگر رسوائےزمانہ چور شہباز شریف اور اس کے اتنے ہی بدنام سیاسی حواری اور حلیف اگر سعودی حکومت کے مہمان بن کے عمرہ کر رہے ہیں اور ان کا سرپرستِ اعلیٰ، نام نہاد حافظ، قرآن ‘فیلڈ مارشل عاصم منیر بھی ان کا شریکِ سفر ہے تو یہ ان چوروں پر اللہ کا کرم ہے اور ان کا بلاوا اللہ کے گھر سے آیا ہے !
ایسے میں ہمارے بیدار مغز دوست کے سوال کا آپ خود ہی جواب تلاش کیجئے، اپنے ذہن کی استعداد کے مطابق۔ ہمیں خوشی ہوگی اگر آپ کا مشورہ بھی یہ ہو کہ کنکر مارنے کے اصل حقدار اور سزاوار تو وہ شیاطین ہیں جنہوں نے پوری قوم کو اپنی ہوس کا غلام بنایا ہوا ہے۔
ہمارے یہ چار مصرعے اگرآپ کی کچھ رہنمائی کرسکیں تو ہمارے لئے یہ بڑا انعام ہوگا :
ہمارے عازمین حج کی جائز تھی پریشانی
کہ کنکر ماریں شیطاں کو یا اس کے پیارے چیلوں کو
وہ چیلے ان کے اپنے دیس کے بدنام شہدے تھے
ڈبوکر آئے تھے جو قوم کے اپنے سفینوں کو !