پاکستانیوں، کس کس آزادی کا شکر کرو گے؟

اہل ِپاکستان کو 14اگست یوم آزادی مبارک ہو۔ آج ملک کو معرض وجود میں آئے 78 سال ہو گئے ہیں۔ اور پاکستان کے مسائل میں کمی ہونے کے بجائے زیادتی ہی ہوئی ہے۔ اسی عمر کے دوسرے ممالک جیسے جنوبی کوریا، اسرائیل کہیں سے کہیں جا پہنچے ہیں، پاکستانی اپنے بچوں کو سکول جیسی بنیادی سہولت بھی نہیں دے سکے۔ اپنے بچوں کو متوازن تو کیا، کم از کم ضروری خوراک نہیں دے سکے۔ ملک میں لاکھوں بچے پستہ قد رہ گئے ہیں، فاقہ زدہ ہیں۔ حکمرانوں کو اپنی تصویریں کھینچوانے سے فرصت نہیں ملتی۔ نوجوان ملک چھوڑ کر بیرونی دنیا میں رزق کی تلاش میں جا رہے ہیں، جس کا ایک ثبوت باہر سے آنے والے زر مبادلہ میں بہتری سے بھی ملتا ہے۔یہ نو جوان ، جن میں سے اکثر کم تعلیم یافتہ اور بہت کم ہنر یافتہ ہیں، مشرق وسطیٰ اور کچھ یوروپی ممالک میں جسمانی مشقت کے کام کر کے ایک ایک پائی جوڑتے ہیں، خود تنگی ترشی سے گذارہ کرتے ہیں اور گھر والوں کو پیسہ بھیجتے ہیں۔ اگر ان نوجوانوں کو اچھی تعلیم ملی ہوتی یا کوئی ہنر ملا ہوتا تو وہ اپنی آمدنی بڑھا بھی سکتے تھے۔ جو پاکستان میں ہیں، وہ مہنگائی کے ہاتھوں تنگ ہیں۔ حکومتوں کے لالچ نے پاکستان میں سستی بجلی نہیں بننے دی۔پرائیویٹ پاور پلانٹس لگوا کر ایسے معاہدے کئے جن سے انکی جیبیںبھر رہی ہیں اور عوام بجلی کے بلوں سے تنگ آکر خود کشی کرنے پر مجبور ہیں۔اگر انہوں نے آئی پی پی کے بجائے آبی بجلی گھر بنوائے ہوتے تو باقی دنیا کی طرح پاکستانی بھی سستی بجلی سے فائدہ اٹھاتے۔ اب بجلی اتنی مہنگی ہو چکی ہے کہ لا تعداد بجلی سے چلنے والی مشینوں پر کام کرنے والے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ بڑے کارخانے بھی مہنگی بجلی کی وجہ سے جو مال بنا ئیں تو وہ باہر کی منڈیوں میں نہیں بیچ سکتے کیونکہ سستی بجلی والے ممالک کے کارخانے کم قیمت پر وہی سامان پیش کر رہے ہیں۔جن لوگوں نے یہ پرائیویٹ بجلی گھر بنائے اب بچہ بچہ جانتا ہے کہ جنہوں نے ملک سے غداری کی اور پھر بھی آج حکمران بنے بیٹھے ہیں۔ ان سے کوئی نہیں پوچھتا کہ تم نے ایسے سودے کیوں کئے؟
ان حکمرانوں نے ملک کے طاقتور ادارے سے گٹھ جوڑ کر کے عام انتخابات میں اکثریت کا حق چھین لیا، اور ہارے ہوئے سیاستدانوں کو جتوا دیا۔ایسا کرنے سے وہ طاقتور ادارہ جب چاہے ان کو تختہ ٔاقتدار سےجب چاہے انہیں گدی سے اتار سکتا ہے۔ اس لیے وہ اس کی ہر بات ماننے پر مجبور ہیں۔اور وہ بھی اس حالت سے بھر پور فائدے اٹھا رہا ہے۔ نواز شریف کو اقتدار میں لایا ہی اس شرط پر گیا تھا کہ وہ اس ادارے کا غلام بن کر رہے گا۔ اور اس کی ہر جائز اور نا جائز بات مانے گا ۔لہٰذا کہنے والے کہتے ہیں کہ موجودہ حالات کا فیصلہ لندن میں نواز شریف کے فلیٹ میں کیا گیا تھا۔ قارئین کی یاد دہانی کے لیے ، بتا سکتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت ختم کرنے میںنواز شریف، سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ،حسین حقانی، اور بہت سے پاکستانی سیاستدان شامل تھے۔ان لوگوں نے امریکہ کے دفتر خارجہ کے ساتھ ملکر عمران خان کو پارلیمانی عدم اعتماد کا ووٹ ڈلوا کر حکومت سے باہر نکالا۔ اب یہ کہانی پرانی ہو چکی ہے۔ لیکن اس کا بڑا کردار اور مظلوم عمران خان جیل کی سلاخوں میں مصیبتیں جھیل رہا ہے۔ اور طاقتور ادارہ ، اور جعلی حکومت، اس کی پارٹی اور اس کے قائدین کو تتر بتر کرنے میں مصروف ہے۔
ہم ان حالات کا ذمہ وار کسی کو بھی ٹہرائیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی قوم ایک خواب غفلت میں ہے۔ وہ اتنی گہری نیند ہے کہ جس سے اسے کوئی نہیں اٹھا سکتا،۔ اس نیند کی بڑی وجہ وہ صدیوں کا بادشاہت کا اقتدار جس میں عام آدمی کو اختیار نہیں دیا جاتا تھا۔ بادشاہت اولاد، در اولاد، وراثت میں چلتی تھی۔ جب بادشاہ گئے تو ملک نو آبادیات کے اقتدار میں چلا گیا۔لیکن طرز حکومت میں تھوڑا ہی فرق پڑا۔ جب یہ ملک آزاد ہوا تو اس کو چلانے والے نو آبادیاتی نظام کو چلاتے رہے ۔ اگرچہ نیا آئین بن گیا لیکن ملکی قوانین وہی انگریزوں کے بنائے ہوئے نافذ کیے گئے۔ زمینداروں اور جاگیر داروں نے مذہبی حلقوں کے ساتھ ملکر ایک طرف تو تعلیم کے بنیادی حق سے لوگوں کو دور رکھا اور دوسری طرف عوام کو خاندانی منصوبہ بندی جیسے بنیادی حق سے بھی محروم رکھا، جس کے نتیجہ میں آج ہم مہنگائی دیکھ رہے ہیں اور ملاوٹی، گھٹیا غذا کھانے پر مجبور ہیں۔ ہمارے نلکوں میں گندا پانی شامل ہو کر آ رہا ہے جس نے ہیپاٹائٹس، ڈائیریا، اور ٹائیفایڈ جیسے امراض کی وبا پھیلائی ہوئی ہے۔ ملک میں صفائی کا یہ عالم ہے کہ جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔جو مکھیوں کی فیکٹریاں بنے ہوئے ہیں۔جب بارش ہوتی تو مقامی حاکمین ایک سے ایک بڑا وعدہ کرتے ہیں اور بارش کا پانی خشک ہونے تک وہ وعدے فراموش ہو چکے ہوتے ہیں۔چونکہ ملک میں بارش کے پانی کے نکاس یاتو ہے ہی نہیں، یا اس میں کوڑہ کرکٹ بھر جانے سے بند رہتے ہیں۔ نہ تو اس میں کوڑہ ڈالنے سے عوام کو سختی سے روکا جاتا ہے اور نہ ہی اس کو نکالا جاتا ہے۔یہ کسی حد تک مقامی حکومتی اداروں کا کام ہے لیکن مقامی حکومتیں بننی تو مدت سے ختم ہو چکی ہیں۔جس کے پیچھے لالچی سیاستدانوں اور اہلکاروں کی ہوس ہے، جو کبھی ختم نہیں ہو تی۔
صاحبوں۔ اس ملک کو آج جس حالت میں دیکھ رہے ہیں، اسے رشوت نے پہنچایا ہے۔عمران خان نے اس کے خلاف اپنی آواز اٹھائی اور اپنی پارٹی کا منشور ہی کرپشن کے خلاف قدم اٹھانا تھا۔لیکن لگتا ہے اس جنگ میں بالآخر کرپشن جیت گئی ہے۔ یہ عالیشان پلازے، شاپنگ مال، نئی نئی گاڑیاں، اونچے بنگلے، شان و شوکت، یہ سب اسی کرپشن کا شاخسانہ ہے جسے کچھ لوگ برا بھلا کہتے ہیں ۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستانیوں نے رشوت کو ایک ایسی حقیقت سمجھ لیا ہے کہ جیسے سول سروس اس سے سوا کوئی کام کر ہی نہیں سکتی۔ اس نظام کو برحق سمجھ لیا گیا ہے۔ اس کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھائی جاتی۔ جس نے اٹھائی اسے جیل میں ڈال دیا گیا۔ اب آپ ملک کی ترقی کو روشنیوں، چمکتے قمقوں او ر دوکانوں اور ریسٹورانٹوں پر لگے رنگین دلکش سائن بورڈوں سے لگائیں تو واقعی ملک بہت ترقی کر گیا ہے۔ غریبوں کو مارو گولی۔ کم از کم امیر تو مزے میں ہیں۔ہر وقت غریبوں کی کہانی لیکر بیٹھ جانا بھی لوگوں کو پسند نہیں۔ اگر غریب ہیں تو وہ اپنی کاہلی، نا سمجھی اور بدقسمتی سے غریب ہیں۔ اب حکومت اپنے پیسے گنے یا ان بیکار غریبوں کی سیوا میں لگی رہے؟
اب ذرا طاقت کے سر چشمہ ، یعنی بندوق والوں کی طرف نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ بندوق کے کیا کیا فائدے ہیں۔اور کیوں نہ ہوں؟ آ خر ہمیں بھارت سے، دہشت گردوں سے اور انتہا پسند بلوچوں سے کون بچائے گا؟ سر جی۔ یہ آپکی فوج ہی تو ہے جس کے جوان سر دھڑ کی بازی لگا کر ہمیں ا ن ظالموں سے بچاتے ہیں۔ مسئلہ سادہ سا ہے کہ فوج کو اپنا خرچہ بھی نکالنا ہوتا ہے، اور بڑھتی ہوئی مہنگائی اور دفاعی مشینوں کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے اپنے بجٹ کو بڑھانا پڑتا ہے۔ پاکستانی نکمے سیاستدان ، کرپشن کی وجہ سے مالیہ نہیں بڑھا سکتے، کیونکہ انکم ٹیکس محکمے کے افسران اپنا حصہ کم نہیں کر سکتے ۔ تو اگر فوج کا بجٹ پورا کریں تو تعلیم، صحت ، اور سماجی امور کے لیے رقم نہیں بچتی۔ اب وہ اٹکل پچو ہر چیز پر ٹیکس لگاتے ہیں، لیکن خسارہ پھر بھی کم ہوتا نظر نہیں آتا۔ اب اگر فوج کا بجٹ کم کریں تو بھارت سے جنگ کا کیا کریں؟ دہشت گرد تو ہر وقت تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ اور بلوچستان میں شرارت پسند اپنا محاذ الگ بنا کر بیٹھے ہیں۔لہٰذایک معمہ ہے جو حل ہونے کا نام نہیں لیتا۔ ادھر وہ نا ہنجار آئی ایم ایف ہے جو ہر وہ تجویز دیتا جس سے عوام کا تیل نکالا جا سکے۔شاید اس خیال سے کہ کبھی تو عوا م جاگے گی اور اس کرپٹ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گیْ۔پنجابی کی ایک مثال ہے، اوہ دن ڈوبا۔جدوں گھوڑی چڑھیا کبا۔ یعنی وہ دن نہیںآیا کہ جب کبڑا گھوڑی پر چڑھ جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان کے عوام کسی بھی مسئلہ پر عوامی احتجاج کے لیے کم ہی اٹھتے ہیں۔ اور آج جب سب سے زیادہ ضرورت ہے، تب بھی نہیں۔
پاکستانی عوام امن پسند ہیں۔ قانون سے ٹکر نہیں لینا چاہتے، یہ تو اچھی بات ہے۔ اپنے حقوق کے لیے لڑنا انہوں نے سیکھا ہی نہیں۔ اول تو اکثر کو یہ بھی نہیں معلوم کہ انکے حقوق ہیں کیا؟ اور نہ ان کو ایسے قائدین ملے جو انہیں حقوق کے بارے میں بتاتے۔عوام گلی محلے میں کبھی کبھارغصہ میں، جب ان کے بچے کو کوئی ٹرک یا ٹرالر کچل کے چلا جائے، تو سڑکوں پر احتجاج کرتے ہیں، اور پولیس انکو دلاسہ دیکر گھر بھجوا دیتی ہے۔ معاملہ رفع دفع ہو جاتا ہے۔ ماں باپ عدالتوں اور کچہریوں کے چکر لگا لگا کر نڈھال ہو جاتے ہیں اور پھر اپنی قسمت کو کوس کر تقدیر پر راضی ہو کر دنیا داری میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ ان کے بچے کا قاتل کچھ دے دلا کر غائب ہو جاتا ہے۔
یاد آیا کہ پاکستان میں اللہ نے قانون کی دیوی کو آنکھیں دے دی ہیں۔ انصاف اندھا نہیں رہا۔ اب وہ یہ دیکھ کر انصاف کا پلڑا جھکاتا ہے کہ اشارہ کس طرف کا دیا جا رہا ہے ۔ اب ہماری عدالتیں اعلیٰ ترین مقام پر بھی انصاف دینے میں بندہ بندہ دیکھ کر انصاف سے نوازتی ہیں۔ ہے نہ یہ کتنی مزے کی بات۔اب آپ کسی پر بھی من گھڑت مقدمے بنوا دیں اور ملزم کو ، اس کی بے گناہی کے واضح ثبوت ہونے کے باوجود ، سزا دلوا سکتے ہیں۔ صرف آپ کے پاس صحیح طاقت کے ذرائع ہونے چاہیئں ۔کرپشن پہلے بھی تھی، جس کا حساب وکلاء برادری رکھتی تھی۔ اب تو محض طاقت کے بل بوتے پر فیصلے کروا لیے جاتے ہیں۔
کسی نے خوب کہا تھا کہ ہمارے وطن میں سب کچھ ہے پیارے۔
آج کے دن ملک میں یوم آزادی کی خوشیاں منائی جا رہی ہوں گی۔پاکستان کے عوام کو قانون اور آئین سے آزادی، پولیس کو معصوموں، ضعیفوں، عورتوںاور بچوں پر تشدد کرنے کی آزادی، سڑکوں پر ٹریفک کے قوانین سے مکمل آزادی، عوام کو جس جانورکا چاہیں گوشت کھلانے کی آزادی، ملاوٹی خوراک کھلانے کی آزادی، دوکانداروں کو من مانے داموں پر اشیاء بیچنے کی آزادی، بچوں کو سکولوں میں، خاص طور پر سرکاری سکولوں میں، خصوصاً سندھ کی حد تک، نقلیں مارکر امتحان پاس کرنے کی آزادی، ماں باپ کو ننھے بچوںکو بھوکا مارنے کی آزادی، اور کیا کیا گنوائوں۔اتنی زیادہ آزادیاںکسی دن ضرور رنگ لائینگی ۔ہم واقعی صحیح معنوں میں آزاد ہو چکے ہیں۔ جسے کہتے ہیں مادر پدر آزاد۔جتنی خوشی منائیں اتنی کم ہے۔