ہفتہ وار کالمز

جو آرمی چیف آف سٹاف اوپن لیٹر کا مطلب نہ سمجھ سکے، اُسے واقعی مستعفی ہو جانا چاہیے!

پاکستانی سیاست میں آج کل اُس خط کا بڑا چرچا ہو رہا ہے جو عمران خان نے افواجِ پاکستان کے نام لکھا ہے جس میں بنیادی طور پر چھ نکات اٹھائے گئے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ خط ایک طرح سے آرمی کے خلاف چارج شیٹ ہے جس میں قیام پاکستان سے لیکر آج تک عمومی اور پچھلے ڈھائی تین سال کا تحریک انصاف کے حوالے سے جرنیلوں اور کرنیلوں کی کارروائیوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ عمران خان نے اپنے اس خط میں جسے اوپن لیٹر کا نام دیا ہے سیاسی معاملات میں فوج کی مداخلت کو بیان کرتے ہوئے پاکستان کی آرمی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ملک کی سیاست میں فوجی مداخلت کو اب 76سالوں کے بعد بند کر دے اور واپس اپنی بیرکوں میں چلی جائے اور صرف و ہی کام کرے جس کی آئین ِپاکستان اجازت دیتا ہے اسے، ایک سابق وزیراعظم اور ملک کی سب بڑی اور مقبول پارٹی ہونے کے ناطے سے عمران خان کیلئے یہ ضروری تھا کہ وہ اس حوالے سے اپنی حجت تمام کرے تاکہ کل تاریخ پاکستان کا مورخ یہ نہ کہہ سکے کہ اُس وقت کی لیڈر شپ نے پاکستانی فوج اور اس کے سربراہ کو اس بات سے رسمی طورسے یا دستاویزی طور پر آگاہ نہیں کیا حالانکہ اس بات کی قطعاً ضرورت نہیں تھی کیونکہ پورا پاکستان اس کھلے خط کی طرح اس کھلے سچ سے بھی خوب اچھی طرح سے واقف ہے کہ پاکستان آرمی بار بار منتخب حکومتوں کا تختہ الٹ الٹ کر ملک کے اقتدار پر قبضہ کرتی رہی ہے مگر کسی کو اس بات کی ہمت نہیں پڑی کہ بلی کے گلے میں گھنٹی ڈالے۔ جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، جنرل ضیاء، جنرل مشرف اور اب جنرل عاصم، ان ناموں سے بڑے دستاویزی ثبوت اور کیا ہونگے۔ اِن تمام ڈکٹیٹر شپ کے سالوں کے دوران یہ جنرلز بجائے اس کے کہ اسلحہ بارود، ٹینکس اور جہازوں کی فیکٹریاں لگاتے انہوں نے کیل سے لیکر سیریل تک کوئی ایسا سویلین شعبۂ تجارت نہ چھوڑا جس کے ذریعے فوج نے اپنی بزنس ایمپائر نہ کھڑی کی ہو۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اب ان کا یہ کہنا ہے کہ نہ انہوں نے یہ لیٹر وصول کیا ہے اور نہ ہی انہیں اس کے مندرجات سے کوئی دلچسپی ہے یعنی ان جنرلوں کے آئی کیو لیول کے آخری درجے کی حد ہے کہ انہیں یہ بھی علم نہیں ہے کہ کھلے خطے کیلئے اسے کسی کو ریسیو کرانا ضروری نہیں ہے کیونکہ یہ ہر خاص و عام کیلئے ہوتا ہے اور یہ میڈیا کو جاری کیا جاتا ہے۔ اصل بات یہ ہے بنیادی تعلیم یعنی انٹر کے بعد ان لوگوں کو کاکول میں صرف فوجی تعلیم اور پریکٹیکل کرایا جاتا ہے بقیہ دنیا کی سائنسز کا ان جنرل حضرات کو ککھ بھی علم نہیں ہوتا اور ان سے اس بات کی توقع کی جا سکتی ہے، یہ ایسے ہی ہے کہ اگر آپ پولیٹیکل سائنس کی تعلیم حاصل کئے ہوئے ایک سیاستدان کو جنگی محاذ پر بھیج دیں کہ وہ تمام پلاننگ اور جنگی لائحہ عمل طے کرے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے 1948ء میں کوئٹہ میں ایک آرمی پاسنگ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کو واضح طور پر بیان کر دیا تھا کہ فوج کا مقصد اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کیساتھ ملک کا دفاع کرنا ہے اور سیاست سے فوج کا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے مگر پھر ہوا یہ کہ فوج نے قائداعظم ہی کو مروادیا۔ پھر جب فاطمہ جناح نے جنرل ایوب خان سے الیکشن میں یہ ہی قائداعظم کا خطاب دہرایا تو پھر فاطمہ جناح کو بھی مروادیا گیا، ایک بات قابل نوٹس ہے کہ عمران خان نے اپنے اس خط میں حافظ جنرل عاصم منیر شاہ کو مخاطب نہیں کیا ہے بلکہ پورے فوجی ادارے اور اس کے فوجیوں کو خطاب کیا ہے جب ایک عام پاکستانی رات کو اپنے گھر میں گہری نیند سو رہا ہوتا ہے تو فوج کاایک سپاہی سرحد پر جاگ کر حفاظت کررہا ہوتا ہے جبکہ جنرل نشے میں دھت ہوتا ہے، جنرل یحییٰ کی مثال سامنے ہے۔ حافظ صاحب کب تک ہماری پیاری فوج کی بدنامی کا باعث بنتے رہوگے، بس کردو، یہ ہی بات عمران خان نے خط میں کہی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button