ایران میں اسرائیلی جاسوس!

اسوقت ایران اسرائیل جنگ کو شروع ہوئے چار روز ہوئے تھے۔ اسرائیلی طیارے پے در پے حملے کرکے ایران کی درجنوں سرکاری عمارتوںاور اہم جوہری تنصیبات کو تباہ کر چکے تھے۔ ایرانی فوج کے سینئر ترین کمانڈرز اور چوٹی کے سائنسدان بھی ہلاک ہو چکے تھے۔ ان سانحات کا جائزہ لینے کے لیے سولہ جون کو ایران کی سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کا اجلاس طلب کیا گیا۔یہ میٹنگ تہران کے مغرب میں واقع پہاڑوں میں سو فٹ زیر زمین ایک بنکر میں ہونی تھی۔ اسمیں صدر مسعود پزشکیان کے علاوہ چنداعلیٰ سرکاری افسر اور ملٹری کمانڈر مدعو تھے۔ اسے اس حد تک صیغہ راز میں رکھا گیا تھا کہ اسکے مقام اور وقت کا پتہ شرکا کے علاوہ کسی کو بھی نہ تھا۔ اس جگہ سمارٹ فون اور کسی الیکٹرانک ڈیوائس کے لیجانے پر پابندی تھی۔ ان تمام حفاظتی اقدامات کے باوجود اس اجلاس کے شروع ہوتے ہی اسرائیلی فضائیہ نے اس بنکر پر چھ بم گرائے۔ خوش قسمتی سے اس حملے میں بنکر میں موجود کوئی شخص بھی ہلاک نہ ہوا۔ یہ تمام افراد بمشکل تمام مٹی اور پتھروںکے اس ڈھیر سے خود راستہ بنا کر باہر آئے۔
اکتیس اگست کے نیو یارک ٹائمز کے پہلے صفحے پر شائع ہونیوالی اس خبر میں لکھا ہے کہ اس حملے نے ایران کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو پہلے سے بھی زیادہ تشویش میں مبتلا کر دیا۔انکے پیش نظر سب سے اہم سوال یہ تھا کہ اسرائیل کو اس میٹنگ کی اطلاع کیسے ملی۔ تمام شرکا کے پاس اگر سمارٹ فون بھی نہ تھے تو پھر انکا تعاقب کیسے کیا گیا۔ اخبار کے مطابق اس روز ایرانی انٹیلیجنس کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ تمام اعلیٰ افسران کے ڈرائیوروں اور سیکیورٹی گارڈز کے پاس موبائل فون ہوتے ہیں۔ یہ افراد سوشل میڈیا پر بھی آزادانہ طور پر تبادلہ خیال کرتے رہتے ہیں۔یہ ڈرائیور میٹنگ کے مقام کے باہر بھی اپنے موبائل فون کا استعمال جاری رکھتے ہیں۔ان معلومات کے ہوتے ہوئے اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کو بڑی آسانی سے ایرانی قیادت کی سرگرمیوں اور انکے ملنے جلنے کے مقامات کا پتہ ملتا رہتا ہے۔ ایرانی سائنسدانوں‘ ملٹری اور سیاسی قیادت کے ڈرائیور طویل عرصے سے بے احتیاطی اور غیر ذمہ داری کیساتھ سوشل میڈیا کا استعمال کر رہے تھے۔ نیو یارک ٹائمز کے تہران اور یروشلم میں موجود رپوٹروں نے اس تحقیقاتی رپورٹ کی تیاری کے لیے دونوں ممالک کے اعلیٰ افسران اور سینئر تجزیہ کاروں سے معلومات حاصل کیں۔
پاسداران انقلاب کے دو نمائندوں نے امریکی اخبار کے رپورٹر کو بتایا کہ اعلیٰ قیادت کے باڈی گارڈز اور ڈرائیوروں کے فون ہیک کرنے کے علاوہ موساد نے جدید ترین ٹیکنالوجی استعمال کرکے ایرانی سائنسدانوں اور ملٹری کمانڈرز کا کھوج لگایا۔ ان ذرائع کے علاوہ موساد نے تہران اور دیگر شہروں میں سینکڑوں افراد پر مشتمل جاسوسوں کا ایک نیٹ ورک بھی بنایا ہوا تھا جو اسے اہم شخصیتوں کی نقل و حرکت کی اطلاع دیتا رہتا تھا۔ ایران کے سابقہ نائب صدر مصطفیٰ ہاشمی طبا نے میڈیا کو بتایا کہ Infiltration has reached the highest echelons of our decision making. یعنی یہ در اندازی ایران کے فیصلہ سازحلقے کی اعلیٰ ترین سطح تک پہنچی ہوئی ہے۔ اگست کے مہینے میںایران نے ایک جوہری سائنسدان روضبا وادی کو اسرائیل کے لیے جاسوسی کرنے اور ایک سائنسدان کی ہلاکت میں مدد دینے پر سزائے موت دی۔ پاسداران انقلاب کے ایک ممبر نے نیو یارک ٹائمز کی رپورٹر فرناز فصیحی کو بتایا کہ اسوقت ایران کے درجنوں انٹیلیجنس‘ ملٹری اور سرکاری افسراسرائیل کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں زیر حراست ہیں۔
اسرائیل نے ایران کی اعلیٰ قیادت کے بارے میں حساس معلومات جمع کرنے کا کام اسوقت شروع کیا جب موساد نے 2018 میں تہران میں موجود اپنے جاسوسوں کے نیٹ ورک کی مدد سے ایران کی ایک Nuclear Archiveسے محفوظ شدہ دستا ویزات حا صل کیں۔ ان کاغذات میں ایران کے چار سو سے زیادہ نیوکلئیر سائنسدانوں کے بارے میں اہم معلومات موجود تھیں۔ اسرائیل نے گذشتہ سال ہی چوٹی کے تیرہ ایرانی سائنسدانوں کی فہرست تیار کر لی تھی اور انکی ہلاکت کے مشن کو Operation Red Wedding کا نام دیا تھا۔ا ن سب کو جون کے پہلے ہفتے میں ہلاک کر دیا گیا۔ پاسداران انقلاب کے نئے سربراہ بریگیڈئیر جنرل احمد واحدی نے ویڈیو انٹرویو میںایک ایرانی صحافی کو بتایا کہ اسرائیل نے زیادہ تر معلومات سٹیلائٹ‘ الیکٹرونک ڈیٹا اور جدیدہیکنگ سسٹمز کے استعمال سے حاصل کی ہیں۔ ایران کے ایک سیاسی تجزیہ نگار حمزہ صفوی نے کہا ہے کہ ٹیکنالوجی کے استعمال میں اسرائیل کی برتری ایران کی بقا کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔دیکھا جائے تو ایران بیک وقت ایک بڑی علاقائی طاقت اور ایک عالمی طاقت سے نبرد آزما ہے۔ ان دونوں کے شکنجے سے بچ جانا ہی ایک بڑی کامیابی ہے۔ امریکی اخبار کئی مرتبہ لکھ چکے ہیں کہ ایران میں طاقت کے زور پر حکومت کی تبدیلی کے نتیجے میں پہلے سے زیادہ انتہا پسند اور مغرب مخالف گروہ بر سر اقتدار آ سکتا ہے یا پھر مشرق وسطیٰ میں ایسا سیاسی بحران بھی آسکتا ہے جو عراق اور شام سے کہیں زیادہ خطرناک ہو گا۔