ہفتہ وار کالمز

پاکستان کا اصل دشمن کون؟

پاکستان کے بارے میں بہت سی منفی باتیں لکھ دی ہیں۔کچھ دوست کہتے ہیں کہ راقم کبھی مثبت باتیں کر ہی نہیں سکتا۔ یہ تاثر بالکل غلط ہے۔ راقم پاکستان کے بارے میں بہت سی مثبت باتیں بھی کہہ چکا ہے، جانتا بھی ہے اور لکھتا بھی ہے۔پاکستان میرا پیارا وطن ہے اور میں اس کے لیے ہمیشہ دعاگو ہوں۔ یہ اور بات ہے کہ اس میں ایک چھوٹی سی تعداد ان لوگوں کی ہے جو صرف اپنا فائدہ سوچتے ہیں، اور اس خود غرضی میں پاکستان کا نقصان کرتے ہیں۔خدا ان لوگوں کو ہدایت دے، اور انہیں پاکستان کو نقصان پہنچانے سے باز رکھے۔
اپنے وطن میں سب کچھ ہے پیارے۔ لیلیٰ روش بھی، شیریں نظارے۔ پاکستان کی سر زمین کو اللہ نے ہر طرح کی نعمتوں سے مالا مال کیا ہے۔ اگر ہمارے دشمن اسے جینے کا موقع دیتے تو یہ ملک سنگا پور اور یورپ کی ملکوں کی طرح ترقی یافتہ اور سر سبز ہوتا۔ عوام خوشحال ہوتے، اور سکھ اور شانتی کا راج ہوتا۔ابھی بھی، پاکستان اپنے سب سے بڑے دشمن کی آنکھوں کو چبھتا ہے۔اس کی ایٹمی طاقت سے وہ دشمن اتنا خوفزدہ ہے کہ وہ پاکستان کو کوئی نقصان پہنچانے سے دریغ نہیں کرتا۔ اگر میری یاد دھوکانہیں دے رہی تو مجھے یاد ہے اس دشمن کو پاکستان بننے پر بہت دکھ ہواتھا۔ اور وہ آج تک اس ملک کو برداشت نہیں کر سک رہا۔ اگر ان شواہد کو دیکھا جائے توہمیں کوئی شک نہیں ہونا چاہیئے، کہ پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے کی تہہ میں یہی دشمن کار فرما تھا۔ اس نے امریکہ کے ذریعے بھٹو اور پاکستانی جرنیلوں کو آلہ کار بنایا، اور پاکستان کے دو ٹکڑے کر دیئے۔ یہ اس کی دشمنی کی پہلی بڑی فتح تھی۔
جب اس دشمن کے مرضی کے خلاف پاکستان بن گیا، تو اس نے اس ملک کو قابو میں لانے کے لیے ہماری فوج کا انتخاب کیا۔اس کے بڑے فائدے تھے۔ پہلا یہ کہ صرف ایک بندے سے تمام معاملات پر بات کی جا سکتی تھی۔ جمہوری نظام میں بہت سے مراحل طے کرنے پڑتے۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ ملک میں بار بار مارشل لاء لگایا جاتا تھا۔جس کے سر براہ کو امریکہ چنتا تھا۔اگر جمہوری نظام چلا تو وہ بھی فوج کے نشان کردہ سیاستدانوں کی سربراہی میں۔جہاں تک عوام کا تعلق تھا وہ کسی گنتی میں نہیں تھے۔ دشمن ملک ہی حکمرانوں کو قدم قدم پر رہنمائی دیتا تھا۔مگر ا سکا طریق کار تھا امریکی وزارت داخلہ کو ذریعہ بنا کر۔اکثر پاکستان میں اسی دشمن کے نامزد سفیر متعین کیے جاتے ہیں۔
پاکستان میں آنے والے حکمران، خواہ سیاسی خواہ فوجی، سب امریکہ کے اشاروں پر ناچتے تھے اور ناچتے ہیں۔ اس کی کچھ ٹھوس وجوہات بھی ہیں جیسے کہ پاکستان کو بہلا پھسلا کر ترغیب دی جاتی ہے کہ بجائے اپنے اخراجات کم کرنے کے، قرضہ پر قرضہ لیتے رہیں۔ ان قرضوں کے حصول میں امریکہ بہادر کی مدد شامل ہوتی ہے۔ جیسے آئی ایم ایف اور عالمی بینک امریکہ کی مرضی کے بغیر کوئی قرضہ یا گرانٹ نہیں دیتا۔ اس لیے کہ یہ بین الاقوامی ادارے امریکہ اور اس کے حامیوں کے اشاروں پر ہی تو چلتے ہیں۔اگر آئی ایم ایف کوئی شرائط رکھتا ہے تو وہ بھی اسی دشمن ملک کی بتائی ہوتی ہیں۔ان شرائط کامطلب ہوتا ہے کہ پاکستان کے عوام پستے رہیں، اور سیاستدان اور فوجی ادارے خوش رہیں۔آئی ایم ایف رسماً کہہ دیتا ہے کہ اپنے اخراجات کم کرو، اور زیادہ ٹیکس جمع کرو۔ لیکن کبھی بھی جو اخراجات کا سب سے بڑا منبع ہے، اس کے بارے میں کوئی شرط نہیں رکھتا۔ اور ان کی کٹھ پتلی حکومت غریب عوام کا تیل نکالنے میں ذرا جھجھک محسوس نہیں کرتی۔
اب ذرا غور کیجیے، کہ پاکستان کے بنیادی مسائل میں کیوں آج تک کوئی خاطر خواہ ترقی نہیں ہوئی؟ اس کی وجہ بھی وہی ہمارا ازلی دشمن۔ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے تھی کہ ملک کا ہر بچہ سکول جاتا اور ہائی سکول یا مڈل سکول تک کی تعلیم ہر بچہ حاصل کرتا۔ لیکن ہمارے حکمرانوں کو بتایا گیا کہ سکولوں پر پیسہ ضائع نہ کرو۔ اگر ان عوام کو تعلیم مل گئی تو ان کو قابو میں رکھنا مشکل ہو جائے گا ، تم ان پر حکمرانی نہیں کر سکو گے۔جب تک مزدور اور کسان اَن پڑھ ہیں ، وہ اپنے حقوق سے بے خبر ہیں۔ ان کا استحصال آسان ہے۔یہی وجہ ہے کہ 76 سال میں پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جن میں تعلیم سب سے کم ہے۔آج بھی دو کروڑ بچے جنہیں سکول میں ہونا چاہیئے تھا، انہوں نے سکول کی شکل نہیں دیکھی۔ایک بڑی تعداد ان بچوں کی ہے جو تیسری جماعت سے آگے نہیں پڑھے۔ پاکستان میں تقریباً نصف آبادی، یا سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 45 فیصد عوام ناخواندہ ہیں۔ راقم نے خواندگی کے کچھ رضا کار اداروں کے ساتھ کام کیا تو اس شعبہ کی خستہ حالی کا پتہ چلا۔ ایوب خان نے پانچ لاکھ کی خطیر رقم اس مد میں ڈالی تھی۔اور امریکی امداد پر اپنے دیہات سدھار پروگرام میںشامل کیا جو خاصا کامیاب ہوتا نظر آیا۔اور اسی وجہ سے اسے بند کروا دیا گیا۔عوام کو تعلیم کا شائبہ تک نہیں ہونا چاہیے۔ اگر لوگ تعلیم بالغاں حاصل کرتے تو اس میں شہریت کی تعلیم بھی شامل کی جاتی جو حکمران طبقے کے لیے زہر قاتل تھی۔اور عوام کو وڈیروں نے باور کروا دیا تھا کہ تم نے پڑھ کر کیا کرنا ہے؟ اپنے حقوق سے بے خبر عوام سب بااثر گروہوں کو قبول تھے۔ سب سے زیادہ وہ جاگیر داروں کو، زمینداروں، اور صنعت کاروں کو۔ مذہبی رہنما تو ویسے ہی عسکریت کے غلام رہے ہیں ۔ او رتعلیم کو سمجھتے ہیں ، مذہب سے دور لے جاتی ہے۔
پاکستان میں اگر تعلیم آئی تو وہ شہری آبادی میں۔ دیہاتو ںمیں، بھی تعلیم آئی جہاں سے نوجوان بیرون ملک روزگار کمانے گئے اور اپنی آمدنی دیہات میں اپنی فیملی کے لیے، خاص طور پر بچوں کی بہتر تعلیم کے لیے بھیجتے رہے۔یہ بچے گاؤں میں انگریزی سکولوں میں پڑھتے ہیں۔اور بڑے ہو کر باہر چلے جاتے ہیں، اور ملک بھی خوش کہ زر مبادلہ میں اضافہ ہو تا ہے۔پاکستان نوجوانوں کو ذرائع روزگار نہیں دے سکتا یا نہیں دینا چاہتا۔ بلکہ اس کی خواہش ہے کہ یہ نو جوان خود باہر جائیں اور زر مبادلہ بھیجیں۔آم کے آم، گھٹلیوں کے دام۔ پاکستان کی حکومت کی تعلیم سے بے رخی ایسے ظاہر ہوتی ہے کہ تعلیم کے لیے سالانہ بجٹ2 فیصد سے بھی کم ہوتا ہے۔ اس بجٹ سے بمشکل اساتذہ کی تنخواہیں پوری ہوتی ہیں لیکن تعلیم میں کوالٹی کے لیے ایک دھیلہ نہیں ملتا۔تعلیم کا محکمہ بھی بس اساتذہ کی بھرتی اور تبادلوں سے سروکار رکھتا ہے، اس میں بہتری سے نہیں۔ تعلیم بھی وہ جو بچوں کو کوئی ایسا ہنر نہیں ملتا جس کی مارکیٹ میں مانگ ہو۔ اس کے نتیجے میں، لاکھوں نو جوان ہائی سکول اور کالج کی تعلیم کے بعد بھی بے کار پھرتے ہیں۔تعلیم اور تجارت کا آپس میں کوئی تعلق نہیں بنایا گیا۔
پاکستان کے دشمنوں نے حفظ عامہ پر بھی کوئی توجہ نہیں دی۔ ملک میں بجائے حفظ عامہ پر خرچ کرنے کے زیادہ زور ہسپتال بنانے پر لگایا۔یہ کہنا کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے بیکار ہے کیو نکہ حکومت علاج پر خرچ کرنا زیادہ موزوں سمجھتی ہے۔لوگوں کو صحت کی تعلیم دینا ان کی کتاب میں نہیں ہے۔دنیا کے دوسرے ملکوں میں تعلیم صحت ساتھ ساتھ دی جاتی ہے، لیکن امریکی امداد میں اس کام کے لیے پیسہ نہیں ملتا۔اور پاکستانی حکومت کو تو عوام سے سوائے ووٹوں کے اور کسی موقع پر کام نہیں پڑتا۔یا اگر فوٹو بنوانے کا موقع ملے تو وہ نہیں جانے دیتے۔
پاکستان میں اور بہت سے مسائل ہیں جن پر حکومت خرچ نہیں کرنا چاہتی۔ اس لیے کہ اتنا مالیہ ہی نہیں اکٹھا ہوتا۔
ہمارا دشمن ہمارے اصلی دشمن یعنی کرپشن کے خلاف نہیں ہے۔ بلکہ چاہتا ہے کہ ہماری قوم اسی لعنت میں گرفتار رہے۔ اس لیے کہ کسی بھی طریقہ سے اگر پاکستان کو نقصان پہنچ سکتا ہو تو اچھا ہے۔وہ دشمن ہی کیاہو گاجو ہمارا بھلا چاہے؟اس دشمن کو اور بھی ہماری برائیاں پسند ہیں۔ بڑھتے ہوئے جرائم،غربت، اور بد حالی سب اس کو عزیز ہیں۔جتنا زیادہ ،اتنا خوش۔
پاکستا ن میں 45فیصد کے لگ بھگ لوگ غربت کی لکیر کے نیچے قرار دیئے گئے ہیں۔یہ تناسب گذشتہ برس سے زیادہ ہے۔ یہ لوگ کچے مکانوں میں رہتے تھے، جو اب بہت سے دیہاتوں میں سیلاب میں بہہ گئے ہیں۔ اب ان غریبوں کے پاس نہ گھر ہے نہ زمین جس پر وہ کچھ کاشتکاری کر سکیں اور نہ ہی مویشی۔ ان کو اگر حکومتی امداد نہ ملی تو ان کا بچنا محال ہو گا۔یہ گھڑی دشمن کے گھر میں بے انتہا مسرت کا مژدہ لیکر آئی ہے۔ حکومت بھی خوش ہے کہ اسے سیلاب زدگان کی مدد کے لیے باہر سے امداد آئے گی، جو ان کی جیبوں میں ہی جائے گی۔اسے کہتے ہیں، کسی کا گھر جلے اور کوئی آگ تاپے۔
سیلاب کے ساتھ ساتھ بے اندازہ بارشوں نے کسی کو بھی نہیں بخشا۔ شہر اور قصبے بارش کے پانی سے سیلاب کا منظردکھانے لگے۔نظام زندگی خاصا درہم برہم ہو کر رہ گیا۔ جب یہ پانی ہٹے گا تو معلوم ہو گا کہ سڑکیں کس قدر ٹوٹ پھوٹ چکی ہیں۔ خدا نہ کرے، بارشوں کے بعد مچھروں کی بہتات ہو جاتی ہے جس سے ملیریا، ڈنگی بخار اور دوسری بیمایوں کے پھیلنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ادھر لوگ سوال پوچھتے ہیں کہ حکومت کو جب پتہ ہے کہ ہر سال دو سال کے بعد سیلاب آتے ہیں تو کیوں نہیں اس کا بند و بست کیا جاتا؟بندو بست تو ہو سکتا تھا لیکن جب حاکم کی نیت اور ترجیح ہو۔ اگر سیلابوں سے بیرونی امداد نہ ملتی تو شاید وہ کچھ کرتے؟
پاکستان کے لوگوں نے کرپٹ پارٹیوں سے تنگ آ کر ، تحریک انصاف کو انتخابات میں فتح مبین دلوائی۔یہ بات دشمنوں کو بالکل نہیں پسند آئی۔ ان کو پاکستان سے سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ ایک مقبول عام قائد آ جائے گا جو اسلامی دنیا کی قیادت بھی سنبھالے گا۔ اگر ایسا ہو گیا تو وہ اس دشمن ملک کے لیے بہت سخت خطرہ ہو گا کیونکہ پاکستا ن وہ اکلوتا اسلامی ملک ہے جس کے پاس ایٹم بم بھی ہیں اور ان کو ارسال کرنے کے ذرائع بھی۔ دشمن کو یہ ہر گز برداشت نہیں ہو رہا۔اس لیے انہوں نے سازش کی اور عمران خان کی حکومت کو گروا دیا۔ اس پر بس نہیں کیا ، انہوں جعلی حکومت بنوا کر ، تحریک کے خلاف ایک منظم پروگرام شروع کروا دیا۔ اس کے قائدین کو قید میں ڈال دیا۔ ان پر جھوٹے مقدمے بنوائے، اور پورے عدالتی نظام کو اپنے زیر اثر کر لیا۔لہذٰاکسی کو انصاف نہ مل سکے۔یہ سب کچھ دشمن اور اس کے امریکی شراکت کاروں کی ہدایت اورمشوروں سے کیا گیا۔ان حالات میں تحریک انصاف کوکہیں سے انصاف ملنے کی امید نہیں رہی۔ اس کا قائد جیل میں دو سال سے بند ہے اور کوئی امکان نہیںکہ اس کو آزاد کیا جائے۔
دشمن اور کیا چاہتے ہیں؟ سب سے اول تو وہ چاہتا ہے کہ پاکستان اپنے ایٹمی ہتھیاروں سے چھٹکارا حاصل کر لے اور آئندہ ان کو نہ بنانے کو معاہدہ کر لے۔ دوم وہ اس دشمن ملک کو سفارتی سطح پر تسلیم کر لے، جس کے نتیجہ میں کچھ اور اسلامی ملک بھی تسلیم کر لیں گے۔
یہ دشمن کون ہے؟ آپ جان تو گئے ہوں گے، لیکن آپ کا جواب غلط ہے۔ ہمارے اصل دشمن ہمارے اپنے ہی ہیں، جو جانتے بوجھتے ہوئے اس دشمن کا آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ جو اپنے ذاتی خودغرضانہ مقاصد کے لیے پاکستان کا سودا کر لیتے ہیں۔ باہروا لوں کو مورد الزام ٹھہرانا بالکل غلط ہے۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button