بین الاقوامی

وزیر خارجہ مارکو روبیو اور اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی مشترکہ پریس کانفرنس

وزیر خارجہ روبیو: وزیر اعظم صاحب آپ کا شکریہ۔ میں سب سے پہلے امریکہ کے صدر، صدر ٹرمپ کی جانب سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں آپ کی دوستی اور اُس دوستی پر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو اسرائیل نے امریکہ کے ساتھ نبھائی ہے۔ جنگ کے اسباب اور امن کے قیام کے علاوہ بھی بہت سے ایسے مسائل ہیں جن پر ہم آپس میں کر مل کر کام کرتے ہیں۔ اِن میں ٹیکنالوجی اور معاشیات کے شعبوں میں کی جانے والی ترقی بھی شامل ہے اور ہمارا یہ تعاون مسلسل مضبوط اور پائیدار اور تسلسل سے چلا آ رہا ہے۔ اِن تعلقات یعنی معاشی تعلقات اور ثقافتی تعلقات پر مناسب توجہ نہیں دی جاتی۔ یہ ایک اتفاق ہے کہ آج شام ہم غالبا کرہ ارض کے آثارقدیمہ کے ایک اہم ترین مقام کا افتتاح کرنے اور اِسے دنیا کے لیے کھولنے جا رہے ہیں۔ یہ مقام نہ صرف امریکہ میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے نزدیک بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے بلکہ داود کے اِس شہر میں زائرین کا ایک راستہ بھی ہے۔ لہذا آج یہاں میری موجودگی اور اِس تقریب میں شرکت، میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔صدر غزہ میں درپیش مسائل کے حوالے سے واضح سوچ رکھتے ہیں۔ وہ سوچ یہ ہے کہ تمام یرغمالیوں کو، زندہ یا مردہ حالت میں، فوری طور پر اُن کے گھروں تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ نہ صرف اسرائیل بلکہ پوری دنیا کے امن اور سلامتی کے لیے خطرہ بننے والی حماس، اب ایک مسلح عنصر کے طور پر قائم نہیں رہ سکتی۔ غزہ کے لوگ ایک ایسے بہتر مستقبل کے مستحق ہیں، جو تب تک شروع نہیں ہو سکتا جب تک کہ حماس کا خاتمہ نہیں ہو جاتا اور تمام یرغمالیوں کو، زندہ یا مردہ دونوں حالتوں میں اُن کے گھروں تک پہنچا نہیں دیا جاتا۔ صدر نے اس مقصد کے حصول کا پختہ عزم کر رکھا ہے۔ ہم اِسی موضوع پر آج بات کرنا چاہتے ہیں، ہم اِس پر بات کر چکے ہیں اور ہم اِس پر بات کرنا جاری رکھیں گے۔ اِن مقاصد کے حصول کا یہی ایک راستہ ہے۔ ہمارے بدستور یہی مقاصد ہیں اور یہ مقاصد اپنی جگہ برقرار رہیں گے۔اِس کے علاوہ ہم نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا ہے اور آپس میں مل کر کام کیا ہے۔ چند ہفتے قبل ہم نے ایران کے مسئلے پر اور ایران کی نہ صرف ایسے جوہری ہتھیار رکھنے بلکہ مختصر سے نصف فاصلے تک مار کرنے والے ایسے میزائل رکھنے کی خواہش پر بھی مل کر کام کیا ہے جو اِس نصف کرہ ارض میں ہماری موجودگی کے لیے خطرہ بننے کے علاوہ اِس خطے اور یقینی طور پر یہودی ریاست کی حفاظت اور سلامتی کے حوالے سے بھی خطرہ بنیں گے۔ بلکہ میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اِن سے خلیج کی سلطنتوں بلکہ یورپ کو بھی خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ درحقیقت وہ جو میزائل بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اُن میں سے بعض میزائلوں کی مار یورپ تک ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button