کشیدگیاں و تلخیاں

دور ِ جدید کے بہتے بہائو میں جمہوری روایات کی بھری کشتی بقول شخصے امریکہ اور بھارت کے ساحل پر لنگر انداز ہوتی ہے دوسرے کسی ملک کو یہ تقدیس حاصل نہیں مگر حالات زندگی کی تیز تر موجوں نے اس بات کی نشاندہی کے لئے مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کا معاملہ سامنے لا کر دونوں ملکوں کی وردی پر لگے تمغات ِ جمہوریت کو اتار پھینکا ہے گویا جمہوریت کے روپ میں شخصی آمریت کی بد ترین مثالیں دیکھنی ہوں توبھارتی فلموں میں سرکھپائی کرنے کی بجائے ہندوستان کے مودی کی حالیہ پہلگام کے خودساختہ خونی ڈرامے کی نمائش بھی دیکھیں جس میں دلائل کی بجائے دروغ گوئی پر مبنی سکرپٹ میں سوائے بہتان تراشی کے کچھ نہیں جو زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی ممکنہ جنگ کے اثرات پھیلا کر مودی اپنی گجرات والی حرکات دوبارہ کرنے کے درپے ہے اگر یہود فلسطین میں مسلمانوں کی نسل کشی کرتے ہوئے جنگی جرائم کے مرتکب ہونے میں شرم محسوس نہیں کر رہے اور نہ ہی ٹرمپ حکومت اپنی آمرانہ پالیسیوں کے تحت نیتن یاہو کو پتھروں سے لڑنے والے مسلمانوں کے لئے جدید اسلحے فراہم کرنے میں مصروف ِ عمل ہے اور اقوام ِ متحدہ ان سارے مناظر کو تماشائی بن کر دیکھ رہی ہے جیسے اُمت ِ مسلمہ اپنے مسلمان بھائیوں کا قتل ِ عام دیکھنے کے باوجود خاموش و تماشائی ہے بھارت مذہبی تعصب کی اُسی انتہا پرہے جس پر اسرائیل کے یہود گامزن ہیں فلسطین و کشمیر کی کشیدگیاں و تلخیاں دیکھتے سنتے میری نسل کے لوگ آج بھی سیخ پا ہیں کہ اگر کشمیر کو حاصل کرنے کی ٹھان لی تھی تو پھر جنگ بندی کر کے فوجیں کیوں واپس بلائیں آج بھی وہی شور ملک کے طول و عرض میں پھیلا دیکھ رہے ہیں کہ جنگ کے شوقین اسے گلی محلے کی لڑائی سمجھ کر جنگ ہونے کی خوشیاں منا رہے ہیں قوم کی اس بے شعو سوچ کی انتہا پسندی پر حیرت ہوتی ہے کہ معاشرے میں موجود پڑھے لکھے نظر آنے والے بات چیت کو بے مصرف ،سیاسی یا نظریاتی اختلاف کو موروثی دشمنی ،دشنام طرازی یا گالی کو حل سمجھنا،چیخنے کو بہادری جھوٹ کو ذہانت ،سوال کو غداری اور شائستگی کو مکاری سمجھتے ہیں دانش مند اس سوچ کے حامل گروہ کو قوم نہیں ہجوم کہتے ہیں بقول تھامس بوبس کہ ہجوم کی اپنی کوئی سوچ نہیں ہوتی انھیں پوجنے کے لئے ایک بت چائیے ہوتا ہے یا ُپھر اک چرواہا جو نت نئی گالیوں کے ساتھ ان کو ہانکتا رہے اس ہجوم کے پاس اپنا صرف شور ہوتا ہے گویا شور مچانے و چیخ و پکار کرنے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی عقلی دلیل نہیں جس کے تحت ہم اپنا اور اپنی نسلوں کے بہتر مستقبل کے لئے کوئی جامع اسلامی مکتبۂ فکر کے معاشی نظام کو پروان چڑھا سکیں یہ ذمہ داری عوام کی ،سیاسی قائدین کی اور خصوصی طور پر مذہبی رہنماوں کی ہے کہ وہ ملک میں سودی نظام کے فروغ کو روکنے میں اپنا عملی کردار ادا کریں جیسے نہریں نکالنے کے مسئلے پر پیپلز پارٹی اکھٹی ہو کر نکلی اور صوبے سندھ کی بہتری میں پانی کا مسئلہ پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم کردیا کتنا بہتر ہو کہ ہم سب اپنی پاک سرزمین سے سود کی پھیلی فصلوں کو جلا ڈالیں اور اپنی ریاست کے اس گلشن کو ،اللہ تعالی کی اس عطا اور قائد اعظم کی جہدوجہد سے حاصل کئے ہوئے اس گلشن کی مہک کو اسلامی طرز میں ڈھال دیں تا کہ وطن ِ عزیز حقیقی معنوں میں اسلام کا مضبوط قلعہ بنکر سامنے آئے دشمن کی کوشش ہے کہ ہم جو اس وقت تھوڑی سی اُڑان کرنے کے قابل ہوئے ہیں بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی نے پاکستان کی معاشی پالیسیوں ٹرپل سی سے مائینس بی اور کرنسی کے مستحکم رہنے کی نوید دی ہے تو مذہبی تعصب سے بھرے دشمن ممالک جن میں بھارت سر فہرست ہے نے عالمی برادری کے سامنے اپنی بلوچستان و خیبر پختون خواہ میں کی گئی دہشت گردیوں پر پردہ ڈالتے ہوئے پہلگام کی دہشت گردی پاکستان کے نام کر کے ترقی و حمایت کی راہیں محدود کرنے کی ناکام کو شش کی ہے جس کا ثبوت فراہم کرنے سے مودی سرکار ابھی تک پس و پیش سے کام لے رہی ہے اور جنگ کرنے کی دھمکیاں اُس قوم کو دے رہی ہے جو دشمن کی ہوائوں سے بھی لڑنے کا عزم لئے ہوئے ہے لیکن جنگ کسی بھی مسئلے کا کبھی حل نہیں رہی سوائے کفر اور اسلام کی سربلندی کی جنگ کے ۔دو ایٹمی طاقتوں کا مڈبھیر خطے میں بہتری کی بجائے تباہی کی نوید تو بن سکتا ہے مگر یہ ممکنہ جنگ جس نے ہونا نہیں ہے یہ محض پاکستان کی اُبھرتی معاشی صورت حال کو رکاوٹوں سے دوچار کرنے کے لئے ہے کشیدگیاں و تلخیاں لئے بھارت گلی گلی میں اپنی خفت مٹانے گھوم رہا ہے تا کہ مودی کے سر پہ سجا ہند وتوا کا تاج گر نہ جائے پاک فوج نے ریاست ِ پاک کے لئے خصوصی کور کمانڈر کی کانفرنس میں بھارت اور اُس کے سہولت کاروںکو اپنے محبابہ جذبات سے آگاہ کر دیا ہے اندازہ ہے کہ یہ تلخیاں و کشیدگیاں تو قائم رہیں گی مگر جنگ اپنے آثار لئے نمودار نہیں ہو گی۔