مذہبی جنون

میں علامہ ازہری کے پاس بیٹھا تھا علامہ صاحب جمیعت علمائے پاکستان کے رہنما تھے مولانا نورانی کے دستِ راست، علامہ قومی اسمبلی کے رکن بھی تھے ، بہت دھیمے مزاج کے مالک، قومی اسمبلی میں تقریر کرتے تو کبھی آواز بلند نہیں کی، دھیما لہجہ اور گفتگو مولانا کوثر نیازی ان کے بڑے مداح تھے کوثر نیازی ان کی نرم خوئی اور شیریں کلامی کے مداح تھے انہوں نے علامہ کے لئے کچھ اشعار بھی کہے تھے میں اس وقت کراچی یونیورسٹی میں تھا، میرے ایک مہربان چاہتے تھے کہ میں ازہری صاحب کا سیکرٹری بن جاؤں، مگر مزاجوں کا فرق تھا مجھے سوال کرنے کی عادت ، علامہ نے نہ میری ترش روئی کا برا مانا نہ سوال کرنے سے روکا، آئین میں احمدیت کے حوالے سے ہمارے بہت سے سوال تھے ، ہندوستان کے ان صوفیوں کے بارے میں جنہوں نے شریعت کو متعدد بار پار کیا، تصوف کے بارے میں علامہ کبھی کبھی خاموش ہو جاتے، کہتے ہماری تربیت ایسی ہے کہ جو سکھایا پڑھایا گیا ہے اس کی نفی نہیں کرتے، کیا منہ دکھائیں گے اپنے اساتذہ کو کہتے تھے جو ہو رہا ہے وہ نہیں ہونا چاہیے، مسکرا کر کہتے اب ہم جمہوریت کے گرفتار ہیں، ہم کہتے حضور آج سے پہلے آپ کے بزرگوں نے کبھی اعتراض نہیں کیا اور علامہ نیاز فیح پوری تو احمدیت سے بہت متاثر تھے اور ہندوستان کے کسی عالم کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ علامہ نیاز فتح پوری کو جواب الجواب لکھے، مسکرا کر کہتے میرا اس سے کیا تعلق ایک بار ہم نے کہا حضور کفر کو بھی تو دین کہا گیا ہے، فرمانے لگے تم چاہتے ہو کہ میں خدا کو سیکولر کہہ دوں اس بات پر قہقہہ پڑا، از ہری صاحب نے کئی بار ہم سے کہا کہ وہ مذہب میں شدت کے قائل نہیں اس زمانے میں شجاعت علی قادری اور ان کے بھائی کا لہجہ بڑا کاٹ دار ہوا کرتا تھا، وہ اپنے مخالفین کو خنجر کی نوک پر رکھتے تھے شجاعت علی قادری بعد میں شرعی عدالت کے جج بھی بنا دئے گئے تھے ، ازہری صاحب کو ان سے اختلاف تھابعد میں علامہ از ہری کا شاہ احمد نورانی سے بھی اختلاف ہوا اور علامہ نے خامشی اختیار کرلی ، علامہ کی میانہ روی کی وجہ سے وہ تمام مکاتیب فکر میں قابلِ قبول تھے ، وہ مذہبی شدت پسندی سے بہت دور تھے ، علامہ از ہری ایک مثال تھے اور انتہا پسندی سے دور پاکستان میں آج کل جو شدت پسندی کی لہر آئی ہوئی ہے اس پر علامہ از ہری یاد آگئے ، اگر مذہبی حلقوں کو علامہ کی سربراہی اور قیادت میسر ہوتی تو سڑکوں پر خون نہ بہایا جاتا اور معاملات میانہ روی سے سلجھا لئے جاتے اور دین میں نقب لگانے والوں کو فساد کا موقع نہ ملتا، ہوا یہ کہ واٹس اپ گروپس پر دین کے حوالے سے کچھ مباحث تھے جس میں ناموس رسول کا بھی ایک سبجیکٹ تھا، گروپ میں شرکاء نے اس موضوع پر اظہار رائے کیا ان میں بڑی تعداد نوجوان بچوں کی تھی اس گروپ میں میسج EXCHANGE کئے گئے ایڈ من نے شرکاء سے کہا کہ وہ متنازعہ پیغامات کے اسکرین شاٹس بھیجیں ایڈمن نے ان اسکرین شاٹس کی بنیاد پر تھانے میں ایف آئی آر درج کرائی مقدمہ بنایا ان نوجوان بچوں کو عدالت لے گئے اور BLASPHEMY LAWS کے تحت سزائیں دلائیں، اس سارے کام کے پیچھے راؤ عبد الرحیم ایڈوکیٹ کا نام لیا جا رہا ہے اب صورت حال یہ ہے کہ BLASPHEMY کے نام پر ایک طرف بچوں کے والدین کو وکلاء میسر نہیں، دوسری طرف حجز واٹس اپ پر چلنے والے BLASPHEMY BUSINESS GROUP سے خوف زدہ ہیں وہ ان کے خلاف فیصلے نہیں دے سکتے، اگر فیصلے اس گروپ کے خلاف آئے تو ججز کو جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا خطرہ ہے، پہلے بھی شدت پسندوں نے ایک لڑکے کا استعمال کیا اور اس نے کورٹ روم کے اندر ہی ایک احمدی کو گولی مار دی اور شدت پسندوں نے اسے غازی کہا، ایک حج عبد العزیز کا نام لیا جا رہا ہے جو کبھی شدت پسند گروپ میں شامل تھا اور پکا RADICAL تھا اس حج کے تعلقات اس گروپ سے بتائے جاتے ہیں، اسی دوران ایک شخص عبد اللہ کو قتل کر دیا گیا کہا جاتا ہے کہ تمام ثبوت ہونے کے باوجود عبد اللہ کے قاتلوں کو پکڑا نہیں جا رہا، اس وقت سوشل میڈیا پر انتہا پسندوں نے LEGAL COMMISSION OF BLASPHEMY کے نام سے ایک لیگل گروپ بنا لیا ہے جس کی سر براہی راؤ رحیم ایڈوکیٹ کے پاس ہے، اس سلسلے میں احمد نورانی نے بہت اہم معلومات اکٹھی کی ہیں اور سوشل میڈیا پر پوسٹ کی ہیں اور ظالموں کو بے نقاب کیا ہے، کچھ افراد نے کم عمر بچوں کی مدد کے لئے VOICE OF THE VICTIMS OF BLASPHEMY کے نام سے ایک ویب سائیٹ بنا رکھی ہے جو لوگوں کو ہونے والی DEVELOPEMENTS سے آگاہی دیتی ہےHUMAN RIGHTS COUNCIL OF PAKISTAN بھی مدد کر رہی ہے اس سلسلے میں پی ٹی آئی کی سابق سینیٹر شریں مزاری کی صاحبزادی ایمان حاضر مزاری کی خدمات کو سلام ،ایمان مزاری ایک اچھی وکیل ہیں اور وہ متاثرین کی قانونی مدد کر رہی ہیں حکومت نے اس آگ کو بجھانے کے لئے کہا کہ اس معاملے پر کمیشن بنا دیتے ہیں اس کمیشن کی شدید مخالفت کی جا رہی ہے مولانا طاہر اشرفی خاصی جانی پہچانی شخصیت ہیں ان کو مختلف حوالوں جانا جاتا ہے وہ عمران کے بھی منظور نظر تھے اور پھر پی ڈی ایم کی حکومت نے بھی ان کی خدمات حاصل کر لیں، کبھی طاہر اشرفی کا موقف بہت واضح تھا جب سلمان تاثیر کو قتل کیا گیا تھا، انہوں نے بلا تردد اس قتل کی مذمت کی تھی، مگر اب وہ اس کمیشن کی مخالفت کر رہے ہیں اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ طاہر اشرفی کا بھائی معاویہ ایک کیس میں مطلوب ہے لہٰذا بھائی کو بچانے کے لئے موقف تبدیل کرنا حلال ہے اور یہ بیماری نام نہاد علماء کو ہمیشہ لاحق رہی ہے کمیشن بنا دیا جائے تو دودھ کا دودھ پانی پانی ہو سکتا ہے، اس لئے طاہر اشرفی کمیشن کی مخالفت کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر کمیشن بنا تو ہم پاکستان کو آگ لگا دینگے اس سے ایسا ہی احمقانہ بیان سعد رضوی بھی دے چکے ہیں جب فرانس میں خاکے بنائے گئے تب سعد رضوی نے کہا کہ فرانس کا صدر معافی مانگے ورنہ ہم پاکستان کو آگ لگا دینگے، ہم اس پر کیا تبصرہ کریں سوائے اس کے اہل جبہ و دستار آگ لگانے کے سوا اور کر بھی کیا سکتے ہیں، طاہر اشرفی کا کردار بھی بہت متنازع ہے عالم ہونے کا دعویٰ کرنے والے اس شخص کے بارے میں یہ کہانی مشہور ہے کہ ایک سفارت خانے میں مے نوشی کے بعد جب خود کو سنبھالا نہ گیا تو اغوا کا ڈرامہ رچایا گیا واللہ عالم بالصواب، حقیقت کچھ بھی ہو قیام پاکستان سے اب تک کسی عالم نے کردار کا مظاہرہ کیا نہیں BLASPHEMY LAWS مولویوں کے ہاتھ میں ایک LETHAL WEAPON ہے جس کا ہمیشہ غلط استعمال ہوا اور بے گناہوں پر گستاخی رسول کا الزام لگا کر ہجوم بے دردی سے مار دیتا ہے، اور کوئی پرسان حال نہیں ہوتا، اب یہ چند وکیلوں کا کاروبار بن چکا ہے اس وقت TWEETER پر BanTPL اور BAN BLASPHEMY BUSINESS کے ٹرینڈز چل رہے ہیں سوال یہ ہے کہ ملک میں یہ عام قتل و غارت گری ہو رہی ہے تو حکومت اس کو روک کیوں نہیں پا رہی ہے، بہت سادہ سی بات ہے کہ جب ملک میں انتخابات ہوئے تو تمام سیاسی جماعتوں نے ان دہشت گردوں سے رابطے کئے اور انہوں نے کچھ وعدوں کے عوض ان دہشت گردوں سے ووٹ لئے اگر ان دہشت گردوں سے آنکھ پھیری تو ملک میں دہشت پھیلائیں گے یا دھرنے دینگے اور کیا بعید یہ حکومتی عہد یداروں پر ہی BLASPHEMY کا الزام لگا دیں اس لئے حکومت ان سے ڈرتی ہے ان پر کریک ڈاؤن ہوا تو یہ انسانی حقوق اور POLITICAL VICTIMIZATION کا شور مچائیں گے کاش ایسا ہوتا کہ علمائے کرام علامہ از ہری جیسا کردار اپناتے ، بہر حال ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ BLADPHEMY LAWS کا ایک عرصے سے غلط استعمال ہو رہا ہے ان قوانین کو ABOLISH کیا جائے۔