ہفتہ وار کالمز

بے ایمان قوم، بے ضمیر حاکم

رمضان کا متبرک اور مقدس مہینہ آگیا جس کے متعلق دین کی تعلیم یہ ہے کہ یہ مہینہ پیدا کرنے والے مالک سے دعا اور استغفار کرنے کے شب و روز لیکر آتا ہے اور جتنا بندہ اپنے گناہوں سے توبہ اور استغفار کرتا ہے اتنا ہی رزاقِ متین اس کے رزق میں اضافہ کردیتا ہے !
لیکن پاکستان کے بے ایمان دکانداروں اور تاجروں کیلئے یوں لگتا ہے کہ یہ مہینہ صارفین کو لوٹنے اور بے کھٹکے ان کی جیبیں خالی کرنے کیلئے آتا ہے۔
رمضان کی آمد سے کئی دن پہلے پاکستان کے اخبارات نے عوام کو یہ خوشخبری سنائی تھی کہ حکومت کے عمال اور حاکم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ تاجر اور دکاندار اس رمضان میں صارفین کو لوٹنے سے باز رکھے جائینگے اور حکومت سختی سے عام اشیاء اور عام استعمال کی چیزوں کی سرکاری قیمتیں مقرر کرے گی اور دکانداروں کو اس کا پابند کرے گی کہ ان قیمتوں سے تجاوز نہ کیا جائے!
لیکن آج کے اخبارات، پاکستان میں پہلی رمضان کے ساتھ ساتھ ہی دکانداروں اور تاجروں کی صارفین کو لوٹنے اور سرکار کی مقرر کردہ قیمتوں کو کسی خاطر میں نہ لانے کی خبروں سے بھرے ہوئے ہیں۔
ہمارے سامنے پاکستان کے موقر اور صفِ اول کے اخبار، ڈان، کی پہلے صفحہ کی وہ شہ سرخی ہے جس میں کراچی کے صارفین کے دکانداروں کے ہاتھوں بے محابا لٹنے کی روداد درج کی گئی ہے۔
خبر یہ کہتی ہے کہ حکومت کے یہ دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے کہ ان اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں بڑھنے نہیں دی جائینگی جن کی ضرورت سحری اور افطار کیلئے ناگزیر سمجھا جاتا ہے۔ اور حکومتِ سندھ نے بھی کراچی کے شہریوں کو یقین دلایا تھا کہ وہ اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں پر کڑی نظر رکھے گی کی صارفین سے زیادہ قیمتیں نہ وصول کی جائیں۔
لیکن سندھ کی حکومت تو گذشتہ پندرہ برس سے پورے سندھ اور خصوصا” کراچی کو اپنی چوری اور ڈاکہ زنی کی اسیر بنائے ہوئے ہے۔ شاید ہی پاکستان کی تاریخ میں اس سندھ حکومت سے زیادہ بے ایمان اور رشوت خور حکومت کسی صوبے کو ملی ہو۔ ظاہر ہے کہ جس حکومت کا سرپرست زرداری جیسا بین الاقوامی شہرت کا مالک چور اور ڈکیت ہوگا اس کا احوال تو پھر چوری چکاری کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔
کراچی پر ان چوروں اور ڈاکوؤں کا نزلہ کچھ زیادہ ہی گرا ہے کیونکہ کراچی کو اُردو بولنے والے مہاجروں کا شہر سمجھا جاتا ہے اور زرداری کے ڈکیت وڈیرے مہاجروں کے جانی دشمن ہیں۔
کراچی کے دکانداروں کو بھی اس حقیقت کا بخوبی علم ہے کہ ان پر زبانی کلامی دھونس جتانے والی حکومت کس بلا کی چور ہے اور اس کے حکام اور عمال کو کس طرح سکوں کے عوض خریدا جاسکتا ہے۔
اور یہ بے ایمان دکاندار بھی پابندی سے نمازیں پڑھنے والے ہیں اور روزے بھی رکھتے ہیں لیکن ان کا کہنا یہ ہے کہ نمازیں ہم پر فرض ہیں لیکن سودے اور دھندے میں بے ایمانی کرنا ہمارا اصل دین ہے۔ مولوی اور دو رکعت کا ملا بھی انہیں یہی تعلیم دیتا ہے کہ نماز پڑھ لو، روزہ رکھ لو بس یہی دین کا حکم ہے اور کاروبار میں تم جو چاہو وطیرہ اختیار کرسکتے ہو۔
سو اخبار دان کی نمایاں خبر کہتی ہے کہ رمضان کے پہلے ہی دن جب لوگ سبزی اور پھل فروٹ لینے کیلئے بازاروں میں گئے توانہیں احساس ہوا کہ دکانداروں کی روش تو وہی لوٹ مار کی ہے جو ہر رمضان میں دیکھنے کو ملتی ہے۔
حکومت نے کیلوں کی قیمت، فی درجن 148 روپے مقرر کی تھی لیکن دکاندار 250 سے 300 روپے درجن بیچ رہے تھے۔
حکومت نے صارفین کی تسلی کیلئے سیب کی مختلف اقسام کی قیمتیں ڈیڑھ سو سے لیکے دو سو روپے کلو مقرر کی تھیں لیکن دکاندار تین سو سے چار سو روپے وصول کر رہے تھے۔
حکومت نے تربوز کی قیمت 69 روپے کلو مقرر کی تھی لیکن دکاندار 150 روپے کلو سے کم بیچنے کیلئے تیار نہیں تھے۔
یہ لوٹ مار کھلے عام ہورہی ہے اسلئے کہ دکانداروں کو یہ یقین ہے کہ وہ حکومت کا منہ بھر سکتے ہیں۔ کتے کی اوقات معلوم ہو تو اس کے بھونکنے سے کوئی نہیں ڈرتا۔ اس کے آگے جیسے ہی ہڈی ڈالی جاتی ہے وہ بھونکنا بند کرکے اس ہڈی کو چچوڑنے میں لگ جاتا ہے۔اور یہ جو لوٹ مار ہے، جو دکانداروں کا معمول بن چکی ہے اسلئے کہ حکومت چوروں اور ڈکیتوں کی ہے اور حکام گلے گلے تک کرپشن اور خود بھی لوٹ مار میں مصروف ہیں۔
کیا خوف ہوسکتا ہے تاجروں اور دکانداروں کو قانون کا جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ زرداری جیسا ڈکیت ایک مرتبہ نہیں بلکہ دوبار ملک کا صدر بن چکا ہے۔
کیا پرواہ کرینگے تاجر کاغذ کا پیٹ بھرنے والے قوانین کا جب شہباز شریف جیسا رسوائے زمانہ چور دوسری بار ملک کا وزیر اعظم بنا بیٹھا ہے اور وہ خود اور اس کی بلیک میلر بھتیجی ملک کے سب سے بڑے صوبہ کی مہارانی بن گئی ہے اور پورا کنبہ دونوں ہاتھوں سے ملک کی دولت پراپنے ہاتھ صاف کر رہا ہے۔
بے غیرتی اور بے شرمی کی انتہا ہے کہ حکومت کے خزانے کو اپنا مال، اپنی دولت سمجھنے والی مریم نواز اپنے لئے سستی شہرت کے جنون میں ملک بھر کے اخبارات کو اربوں روپے کی رشوت دیکر ساٹھ ساٹھ صفحات کے ضمیمے نکالنے پہ اکساتی ہے تاکہ اس کی شہرت، اس کی واہ واہ ہوجائے۔
مریم کے چچا، چور شہباز اپنی کابینہ میں مزید 25 وزراء اور مشیروں کا اضافہ یوں کر رہا ہے جیسے پاکستان کے پاس بے شمار اور بے تحاشہ وسائل ہوں جبکہ ملک کنگال ہورہا ہے اور اب اسے قرضے دینے والے ادارے اس کی ایسے چھان بین کرتے ہیں جیسے کسی چور حکومت کو قرض دے رہے ہوں۔
پنجاب کی اسمبلی کے اراکین کی مراعات اور تنخواہوں میں مریم نواز تین گنا اضافہ کرتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں کرتی اسلئے کہ اراکین اسمبلی کا منہ اس رشوت سے بھر کے وہ اپنے لئے وفاداریاں خرید رہی ہے۔
قومی اسمبلی کہاں پیچھے رہ سکتے تھی۔ اس کے اسپیکر، ایازصادق، جو اصل میں ایاز کاذب ہے، نے اسمبلی اراکین کے مشاہرے اور مراعات مین بھی تین گنا اضافہ کردیا ہے۔ اور وہ جو کہتے ہیں زخموں پر نمک چھڑکنا تو اس منافق نے یہ دکھانے کیلئے کہ حکومت کے اخراجات میں کمی کی جارہی ہے اسمبلی کے 220 نچلے درجے کے ملازمین کو ملازمت سے فارغ کردیا ہے۔مزید یہ کہ اگلے چند روز میں اور بھی ملازمین کو ملازمت سے برخاست کیا جائے گا۔
اس کو کہتے ہیں حلوائی کی دکان پہ دادا جی کی فاتحہ۔
بے شرم اور بے غیرت اس انسان کو کوئی احساس نہیں کہ غریب کے پیٹ پر لات مارکے امیروں کی خوشنودی حاصل کرنے میں اس بے ضمیر اور اس کے حواریوں کودنیا میں عیش و آرام تو مل جائے گا لیکن آخرت میں ان سب زیادتیوں اور مظالم کا پورا پورا حساب دینا ہوگا۔
لیکن یوں لگتا ہے جیسے ان بے ضمیر چھٹ بھیوں کو دین فروش ملاؤں نے یہ اطمینان دلادیا ہے کہ یہی دنیا سب کچھ ہے آخرت کی فکر مت کرو۔ وہ جو تمہارے اوپر بیٹھے ہیں انہیں خوش رکھو کہ اسی سے تمہارا عیش و آرام ہے۔
تو وہ جو ان سب چھٹ بھیوں اور سیاسی بونوں اور گماشتوں کا سردار ہے، اور جس نے ان ہارے ہوئے، قوم کی اکثریت سے دھتکارے ہوئے موقع پرستوں کو قوم پہ مسلط کیا ہے، وہ یزید وقت، فوج کا سالار عاصم منیر منافقت میں ان سب سے بازی لے گیا ہے۔
یزید عاصم منیر کو خود نمائی کا مرض ویسے ہی لاحق ہے جیسے مریم نواز کو اور اس خود نمائی کے جنون میں یہ منافق نوجوانوں کے اجتماعات کو بہت پابندی سے اپنی جہالت کے بھاشن دیا کرتا ہے۔ لیکن اس کے پاس ظاہر ہے کہ علم نام کی تو کوئی شئے نہیں ہے اسلئے اس کا سارا زور اس پہ ہوتا ہے کہ نوجوان فوج کو برا نہ کہیں اور ملت فروش اور بے ضمیر جرنیلوں کی تعظیم کریں۔
اپنے تازہ ترین بھاشن میں بھی اس نے یہی رٹ لگائی ہے کہ فضول اپنا وقت ضائع نہ کیا کریں اور فوج کے متعلق افواہوں پہ یقین نہ کریں۔
یزید اور اس کے گماشتوں کو نوجوان نسل کی طرف سے بہت پریشانی ہے اسلئے کہ جانتے ہیں کہ وہ عمران خان کے شیدائی ہیں اور اسلئے ہیں کہ اس نے اپنی سچائی اور دیانتداری سے ان کے دل جیت لئے ہیں اور ان میں یہ شعور بیدار کردیا ہے کہ وہ اس ملک کے مالک ہیں، اس قوم کا سرمایہ ہیں ، اس پاکستان کا مستقبل ہیں جس کیلئے انہیں ابھی سے تیاری کرلینی چاہئے اور ان یزیدیوں کے فریب میں نہیں آنا چاہئے۔
یزید عاصم منیر کا اپنا تازہ ترین کارنامہ یہ ہے کہ جن بزدل اور کائر جرنیلوں کے منافق ٹولہ کا یہ سردار ہے (اصل میں تو یہ ٹولہ مافیا کی طرح ہے جس کا عاصم منیر ڈون ہے) اس نے اب بھارت کے زیر نگیں مقبوضہ کشمیر کو مقبوضہ کہنے کے بجائے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کہنا شروع کردیا ہے !
پاکستانی جرنیلوں کی بزدلی کی تو پوری تاریخ ہے۔ ایوب خان سے لیکرعاصم منیر تک بزدلی کی داستانوں سے ہماری تاریخ بھری ہوئی ہے۔ نیازی نے بھارت کے سامنے ہتھیار ڈال دینے میں ایک دن کی تاخیر نہیں کی تھی جبکہ اس جرنیل نے، جس کے آگے چوہے نیازی نے ہتھیار ڈالے تھے بعد میں یہ لکھا کہ جب اس نے پاکستانی فوج کے چھوڑے ہوئے اسلحہ کو اپنی تحویل میں لیا تو پتہ چلا کہ نیازی کے پاس اتنا اسلحہ تھا کہ وہ ڈھاکہ کا دفاع بغیر کسی کمک کے کم از کم چھہ مہینے تک کرسکتا تھا!
تو بزدل عاصم منیربھی اسی طرح بھارت نوازی کا ثبوت دے رہا ہے جو اس کے پیش رو، قمر باجوہ کا تھا جس کی، بقول ایاز صادق، ٹانگیں کانپ رہی تھیں جب بھارتی جہازوں نے پلوامہ کے واقعہ کے بعد پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر میں اپنے جہازوں سے دخل اندازی کی کوشش کی تھی!
بے ضمیر ہمیشہ بزدل ہی ہوتا ہے اور پاکستان کو اپنا مقبوضہ سمجھنے والے جرنیل بھی بلا کے بزدل ہیں اسلئے کہ فوج کی وردی ان کیلئے کاروبار اور منفعت کا وسیلہ ہے ملک کی سرحدوں کی حفاظت تو ان کے نزدیک ایک نعرہ سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے۔
ایسے ہی بے ضمیر اور بے غیرتوں کیلئے کسی فارسی کے شاعر نے بہت پہلے کہا تھا
قومے فروختن، وچہ ارزاں فروختن !
ماہ مقدس رمضان کے ضمن میں یہ کہا جاتا ہے کہ شیطان اس مہینے میں قید ہوجاتا ہے۔ تو ہماری قوم کو یہ دعا کرنی چاہئے کہ اس متبرک مہینے کا یہ فیض ہو کہ قوم کو ان ارضی شیطانوں سے ہمیشہ کیلئے چھٹکارا مل جائے۔ اے کاش!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button