یہ انتظار کرتے ہیں رمضان کا !

بیشک اللہ کے نیک بندوں کی ہی وجہ سے یہ حرص و لالچ میں ڈوبی دنیا اپنے مفادات کی خاطر دوسرے کی سانسیںتک دبانے والی اشرافیہ رب ِ کریم کے غیض و غضب سے محفوظ ہے رب ِ ذوالجلال کی ڈھیل سے بھی سبق آموز نہ ہونے والے یہ شرفاء یوں تو سارا سال ہی لوٹ کھسوٹ جس میں گراں نرخوں پہ اشیاء ضروریہ کی فروخت ،ٹیکسوں میں حکومت سے دہوکہ دہی ،سودی کاروبار میں ملوث یہ منفرد طبقہ رمضان کے انتظار میں کئے گناہوں کی معافی کا طالب، یا کفارے کا منتظر نہیں ہوتا بلکہ ان کی کاوشوں کا محور ایماں کے سحر میں ڈوبی عوام الناس ہوتی ہے جنہیں اس مبارک مہینے میں یہ اوباش صفت لوگ نوچتے ہیں چیزوں کی مصنوعی قلت پیدا کر کے من مانی قیمتوں پر فروخت کا یہ مکروہ دھندہ حکومت کی پرائس کنٹرول کمیٹیوں کے ارکان کے زیر ِ نگرانی اپنے انجام کو بلا خوف و خطر پہنچتا رہتا ہے مزے کی بات یہ ہے کہ اس دھندے میں ملوث سب مسلمان ہی دیگر اللہ کی مخلوق کو لُوٹ کر حج اور عمرہ کی سعادت کو ثواب سمجھتے ہیں زمامہ اپنی چشم ِ ترسے اُن کے افعال ِ مکروہات کو دیکھنے کے باوجود مجرمانہ خاموشی اختیار کرتا ہے اور انھیں مال وزر کے سبب عزت و احترام سے بھی نوازتا ہے ایسے معاشرے میں جہاں جرائم کی پذیرائی ہو وہاں حق و انصاف یا قانون کی بالا دستی کا خواب ،خواب ہی رہتا ہے ابھی نظر سے ایک پوسٹ گزری جس کی تصویر میں سبزیاں دکھائی گئیں تھیں یہ تصویر اٹلی کے اک بازار میں کھڑی ریڑھی سی تھی جس پر ان سبزیوں کی پرانی قیمت جو کہ 13یورو فی کلو تھی اُسے کاٹ کر 9یورو فی کلو کی قیمت درج کی گئی ہے تا کہ مسلم کمیونٹی رمضان کے مبارک میں رعایت دی جائے دیگر مذاہب کا احترام اپنی جگہ مگر انسانی جذبے کی ایسی بالائی ہمیں اپنے وطن ِ عزیز میں کہیں دکھائی نہیں دیتی یوں تو ماہ سال ڈکیٹی،راہ زنی، قتل و غارت کے واقعات کا جو معمولات ِ زندگی کا حصہ بن چکے ہیںوقوع پذیر ہوتے ہیں مگر رمضان کے مقدس ماہ میں مخصوص طبقات کی ڈاکہ زنی و لوٹ مار ہر حدود کو تجاوز کر جاتی ہے ایک جاننے والے کا فرمان ہے کہ ایسی نامی گرامی حرکات کے عادی لوگوں کو عمرے کے مہنگے پیکج میں بھی بارہا دیکھا گیا ہے ایسی باتیں سن کر پُر شکوہ نگائیں آسمان کی طرف جا کر حکمت ِ الہی کا اشارہ پا کر خاموش انتظار کرتی رہتی ہیں آپ اندازہ لگائیں کہ غیر مذہب کے ممالک بھی ہم مسلمانوں کے مبارک مہینے رمضان کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے ضروریات ِ زندگی اشیائے صرف میں اپنے منافع کی شرح انتہائی کم درجے پر لے آتے ہیں جبکہ ہم مسلمان ہوتے ہوئے اس مقدس پاک مہینے کی حرمت کا خیال کرنے کی بجائے صرف اپنے مفادات کی پاسداری کرتے ہیں لوگوں سے پیسہ ہتھیانے میں میں تجارت کے نام پر لوٹ مار و رہزنی کرنے سے دریغ نہیں کرتے ، دکھاوے کے لئے مساجد کا رُخ کرنے والا یہ طبقہ صرف رمضان المبارک میں نمازکو اپناتا ہے جیسے رمضان ختم ہوتا ہے یہ لوگ بھی اللہ کے گھر دور ہو کر اپنے کاموں میں مشغول رہتے ہیں دین الہٰی سے غافل اور انسانی ہمدردی سے تہی دست یہ اشرافیہ شاید دنیا میں ہمیشہ قیام کا ارادہ لئے ہوتی ہے اسی لئے موت کا خوف اللہ کے سامنے حاضری ان کے اذہان سے ابلیسی طاقتوں نے محو کی ہوتی ہے دیکھا جائے تو پرائس کنٹرول کرنے کا کام حکومت اور اُن کے متعلقہ افسران کا ہوتا ہے اگر حکومت جان بوجھ کر غفلت کرے تو وہ یہ ظلم کرنے والے کی سر پرست کہلائی گی چی گویرا کی بات یاد آ گئی کہتے ہیں کہ تعلق برقرار رکھنا ہو تو اچھائی بیان کرو ،تعلق ختم کرنا ہو تو سچائی بیان کرو تعلق برقرار رکھتے ہوئے اک مشورہ ہے عصر ِ حاضر کے حکمرانوں کو اور میڈیا اینکرز کو کرکٹ میچ پر کئی دن ماتم کرنے کی بجائے ایسے طبقات کی حرص و بے انتہا لالچی کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے اُن کے چہرے سے مذہبی نقاب اُتار کر عوام کے سامنے آشکارہ کرنے کی ٹھان لیں تو آئندہ رمضان ممکن ہے کہ دنیاوی شیاطین پابند سلاسل ہوں جو رمضان کا انتظار بڑی شدت سے کرتے ہیں ۔