مزارات

مسلمانوں کے عقائد میں مزارات کا تقدس بھی کہیں نہ کہیں پنہاں ہے ہر چند کہ قبر پرستی سے منع کیا گیا ہے مگر عجمی علمائے کرام نے کسی نہ کسی طرح قبر پرستی کو جائز قرار دے دیا ہے بنیادی بات یہ ہے کہ عام مسلمان غربت اور افلاس کا شکار ہی رہا ہے تو اس کو اپنی حاجات کی تسکین کے لئے سہارے کی ضرورت تو پڑتی ہے قرآن کی رو سے یہی حکم ہے کہ دعا کی جائے انتظار کیا جائے دعا کی قبولیت کا، یہیں سے صبر اور شکر کا چشمہ پھوٹتا ہے اسی پیڑ پر راضی بہ رضا کا پھل لگتا ہے، مسئلہ جبر و قدر کی لہلہاتی فصل بھی اس آب و ہوا میں اگتی ہے، ہمارے خلفاء کو تصوف بہت پسند آیا جس میں سیاست سے الگ ایک ایسی دنیا بسائی گئی جو جنت سے زیادہ حسین تھی، فقر کی اصطلاح بھی استعمال کی گئی مگر انسان کی مشکلات ویسی ہی رہیں، کم نہ ہوئیں غوث پاک کے کرشمات نے کچھ سہارا دیا کہ اولیائے کرام سے کچھ نہ کچھ مل سکتا ہے یہ وبا ایسی پھوٹی کہ بغداد کی گلی گلی میں ایک ولی تھا ہر ولی کا دعویٰ تھا کہ اس کو رسول کا دیدار ہوا ہے یہ بات عام ہو گئی تو اولیاء اس سے ایک قدم اور آگے گئے اور انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ ان سے خدا ہم کلام ہوا ہے اس صورتِ حال نے نام نہاد خلافت کے لئے مسائل پیدا کئے ان اولیائے کرام کو جب مار پڑی تو یہ ایران کی طرف بھاگے وہاں خبر ملی کہ ہندوستان کی فضا بہت مناسب ہے ان عقائد کے لئے کیونکہ ہندو ویسے ہی توہمات میں گرفتار تھے اور ان کی معاشرے پر گرفت بھی تھی ہندوستان کی حکومتوں نے ان اولیاء کا سواگت کیا ملتان اور بدایوں میں ان اولیاء کو پھولنے پھلنے کا موقع ملا، ہندوستان کی سیکولر بادشاہتوں کو ان سے کوئی خطرہ نہیں تھا، مغل بادشاہت نے ان کو سہولیات فراہم کیں، ہندوستان میں کچھ مزارات بن چکے تھے بادشاہ وقت خود ان مزارات پر حاضری دیتے تھے اور عوام کو یقین ہو جاتا تھا کہ صاحب قبر پہنچا ہوا ہے اور خلقت اپنی مرادیں لے کر ان مزارات پر آتی تھی، اجمیر کے چشتی صاحب اور لاہور کے داتا صاحب کی بڑی دھوم تھی ہندوستان کے وائسرائے لارڈ ڈلہوزی نے ایک رپورٹ برطانیہ روانہ کی جس میں کہا گیا تھا کہ ہندوستان پر تین قبروں کی حکومت ہے، حکومت برطانیہ نے اپنے وائسرائے سے یہ نہیں کہا کہ ان مزارات کو ڈھا دیا جائے ، اس کے برعکس وائسرائے ہند نے ہند کے بڑے بڑے پیروں سے رابطہ قائم کیا اور یہ پیر حکومتِ برطانیہ کے مطبع ہو گئے جس کے عوض ان کو جاگیروں سے نوازا گیا، تین عشرے قبل ایک کتاب منظر عام پر آئی جس کا نام تھا پاکستان کے سیاسی وڈیرے، اس کتاب میں پاکستان کے بڑے بڑے پیروں اور مشائخ کا ذکر ہے جو پاکستان کی سیاست میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور جب سے پاکستان کا اقتدار اللہ کے پاس ہے ان اولیاء اور مشائخ پر رحمتوں کی برسات جاری ہے پاکستان اور بھارت میں مزارات ایک انڈسٹری ہے دونوں ممالک کے حکمران سمجھتے ہیں کہ مزارات سے عام انسان کو کچھ ملنا نہیں مگر یہ اطمینان کیسا فرحت بخش ہے کہ یہ لوگ مزارات سے مانگتے ہیں ،مانگنے دو کم از کم ہم سے تو نہیں مانگتے ، اس لئے ان گمانوں اور توہمات کو توڑنے کی کوشش نہیں کی جاتی کہ قبر میں لیٹے ہوئے پنجر میں ایسی کوئی طاقت نہیں کہ وہ خلائق کی داد رسی کر سکے قرآن کی رو سے کوئی بات چیز ثابت ہو یا نہ ہو مگر ایک عقیدہ ہے کہ مزار مرجع خلائق ہیں اور مرادیں پوری ہوتی ہیں ، اب یہ مزار مافیا اس قدر طاقت ور ہے کہ اگر مزارات کے بارے میں یہ ثابت کیا جائے کہ قبر پرستی حرام ہے تو لوگ یہ بات ماننے سے انکار کر دینگے، گویا عقیدوں نے ایک اور صحیفہ لکھ رکھا ہے جو کتاب سے زیادہ اہم ہے لہٰذا مزاروں پر چادریں چڑھانا ، سجدہ کرنا ،دھاگے باندھنا، منت مانگنا سب کچھ عین اسلام اور اسلامی جمہوریہ پاکستان اس بدعت پر خاموش کیونکہ ان مزارات کے متولی یا پیر سیاسی حکومت کو سیاسی طاقت فراہم کرتے ہیں پاکستان کے ایک سابق وزیر اعظم کی ملکیت میں ان کا اپنا ایک مزار ہے، یوسف رضا گیلانی کو جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چودھری نے وزارت عظمیٰ سے فارغ کیا تھا تو یوسف رضا گیلانی نے کہا تھا کہ تم مجھ سے وزارت عظمی تو لے سکتے ہو مگر ہم غوث پاک کی اولاد تو رہیں گے، یہ وہی غوث پاک ہیں جو اس بات پہ قادر تھے کہ وہ ایک ڈوبی ہوئی بارات کو دوبارہ دریا سے نکال لائیں اور زندہ بھی کر دیں ، ایک سابق وزیر خارجہ بھی ملتان میں ہی ایک عدد مزار کے مالک ہیں جب کہ وہ جیل میں ہیں ان کے صاحب زادے زین قریشی نائب پیر کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ مدت ہوئی ہندوستان اور پاکستان کی پر جا کرشموں کو ترس گئی اب نہ کوئی شیر کی سواری کرتا ہے نہ ہی کوئی پیر دیوار پر بیٹھ کر دیوار کو چلنے کا حکم دیتا ہے جب لاہور میں داتا دربار کے پاس دھماکہ ہوا تھا توداتا صاحب کو رینجرز نے بچایا تھا اور جب سیہون میں سیلاب آیا تھا تب بھی قلندر کو ہم نے ہی سیلاب سے بچایا تھا اس وقت نہ داتا نے کوئی کرشمہ دکھایا نہ قلندر کو جلال آیا مگر مریدین کہتے ہیں کہ قبروں سے فیض جاری ہے ایسا ہر گز نہیں کہ قبر پرستی کے بارے میں کچھ نہیں لکھا گیا، دہلی کے جبار قسیم ایک اخبار میں کام کرتے تھے انہوں نے قبر پرستی کے حوالے سے دو ناول لکھے ان ناولوں کو شہرت نہ مل سکی جبار قسیم کو اخبار سے نکال دیا گیا، ملک تقسیم ہوا تو جبار قسیم ہنگاموں میں مارا گیا ، پاکستان میں قبر پرستی کے موضوع بہت کم کتابیں ملتی ہیں مگر اس موضوع پر افسانے بہت لکھے گئے مگر افسانوں کو قاری کم ملتا ہے ایک افسانہ یاد آیا ایک شخص سفر میں تھا راستے میں اس کا گدھا مر گیا اس نے گدھے کو دفن کر دیا اور قبر پر ایک شاخ لگا دی تاکہ اس کو یاد رہے جب وہاں سے سے کبھی گزر ہو کچھ عرصے کے بعد وہ وہاں سے گزرا تو معلوم ہوا کہ وہاں لوگوں نے ایک مزار بنا دیا ہے اور قبر پر چادریں چڑھائی جا رہی ہیں منتیں مانگی جا رہی ہیں اور لوگ کہہ رہے ہیں کہ بہت پہنچےہوا بزرگ تھے اس نے لوگوں کو بتایا کہ یہ میرے گدھے کی قبر ہے قبر پرستی ایک فضول سا عقیدہ ہے دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی، کچھ مزاروں کا تقدس ہے مگر پاکستان میں یہ ایک کاروبار ہے جس کا تفضیلی ذکر پاکستان کے سیاسی وڈیرے نامی کتاب میں ہے، یہ تفضیل بہت گھناؤنی ہے جس کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ دین کے نام پر سادہ دل عوام کے جذبات سے کھیلا جاتا ہے، ان مزاروں پر منشیات اور رنڈی بازی عام ہے، ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 129 بڑے مزار ہیں جن پر گدی نشین قابض ہیں اور شنید ہے کہ ان گدیوں کے نیچے تقریباً تین کھرب روپے ہے یہ پیر اتنے طاقتور ہیں کہ حکومت بھی ان پر ہاتھ ڈالتے ہوئے ڈرتی ہے،انہوں نے اپنی حفاظت کے لئے ایک سیاسی جماعت علماء مشائخ کونسل کے نام سے بنا رکھی ہے یہ کونسل اس وقت سامنے آکر کھڑی ہو جاتی ہے جب ان کے مفادات کو ٹھیس پہنچتی ہے اور ملک کی ساری دینی جماعتیں اپنا وزن ان کی جھولی میں ڈال دیتی ہیں، ہم نے اکثر لکھا ہے کہ تقسیم کے بعد نام نہاد مولویوں نے ایک سیاسی تجارتی اسلام ایجاد کیا جو اب ایک کاروبار بن چکا ہے، نام نہاد افغان جنگ کے بعد جب یہی گروہ مسلح ہو گئے تو حکومت بھی ان سے ڈرتی ہے اور فوج بھی کنی کترا جاتی ہے یہ بات تو طے ہے کہ صدیوں پہلے قبروں میں اتارے ہوئے بابے نہ کسی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ منافع ، مگر کہیں مسلمانوں کا اندھا عقیدہ ان کو بچا لے جاتا ہے اور کبھی میڈیا ان کے فیض کی جھوٹی داستانیں سناتا ہے، اسلام کا لبادہ اوڑھے یہ واردا تیئے ہیں جو لوگوں کو بھی دھوکہ دیتے ہیں اور ریاست کو بھی آنکھیں دکھاتے ہیں، بزروِ قوت اگر ان کا زور توڑنے کی کوشش کی گئی تو یہ مافیا تو نہیں ٹوٹے گا مگر ان مزاروں کے مریدین اور عقیدت مندوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے، مفاد پرست مولوی اور دھوکے باز پیروں کو بے نقاب کرنے کا ایک ہی مناسب طریقہ ہے کہ سوسائٹی کو اوپن کیا جائے اور مکالمے کے دروازے کھولے جائیں اور عوام کو EDUCATE کیا جائے ، سعودی عرب کی تقلید کرتے ہوئے یہ ہو سکتا ہے کہ مزارات پر جانا ممنوع قرار دیا جائے اور اس پر سختی سے عمل کیا جائے مگر اس میں مزاحمت کا سامنا ہوگا، مزارات ایک PARASITE کی طرح سماج کو کھا رہے ہیں، لوگوں کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آتی کہ عوام مزار سے مانگ رہی ہے اور مزار کے سامنے بیٹھا فقیر عوام سے مانگ رہا ہے۔