ہفتہ وار کالمز

قید میں کون ہے؟

ساری دنیا ایک طرف اور جورو کا بھائی ایک طرف” کہاوت تو پرانی ہے اورہمارے معاشرے میں یہ کہاوت یا تو مذاق کے طور پہ استعمال کی جاتی ہے یا پھر طنز کرنے کیلئے!
لیکن ہمارے یزیدی سپہ سالار، عاصم منیر نے اپنے سالے، چھٹ بھیئے محسن نقوی کو پاکستان کی قوم اور ریاست پہ مسلط کرکے اس کہاوت کو وہ رنگ، وہ وسعت عطا کی ہے جس کا تصور ہماری روایتی تہذیب میں اس سے پہلے محال تھا، اگر ناممکن نہ سہی!
محسن نقوی کہاں سے آیا یہ کم لوگوں کو ہی معلوم ہے لیکن عاصم منیر اور اس کے غنڈہ جرنیلوں کے ٹولہ نے جب سے پاکستان کو یرغمال بنایا ہے یہ چھٹ بھیا پاکستان کے منظر نامہ میں ہر جگہ، جہاں اس کو نہیں بھی ہونا چاہئے، ربر کے بونے کی طرح اچھلتا کودتا ہوا نظر آتا ہے کہ عقل حیران اور پریشان ہوجاتی ہے۔
یہ وزیر داخلہ بھی ہے۔ اس سے پہلے جب فسطائی جرنیلوں نے 8 اپریل کے عوامی منشور اور فیصلہ پر ڈاکہ بلکہ شبخون مار کے اسے راتوں رات تبدیل کیا تھا جس کے نتیجہ میں ملک بھر میں عوام کی بھرپور تائید و حمایت حاصل کرنے والے عمران خان کی تحریکِ انصاف سو سے زائد سیٹوں سے محروم کردی گئی تھی اور اس کی جگہ محض سترہ ، جی ہاں صرف 17 نشستیں جیتنے والی لوہاروں اور چوروں کی حکومت ملک و قوم پر آسیب کی طرح مسلط کردی گئی تھی تو اس وقت پاکستانی قوم نے اس لعین محسن نقوی کا نام سنا تھا اور یزیدِ عصر کی جورو کے اس بھائی کو پنجاب کا نگراں وزیر اعلیٰ بنادیا گیا تھا۔
وہ دن اور آج کا دن یہ رذیل پاکستان پر طرح طرح سے رسوائی اور شرمندگی تھوپنے کا ذمہ دار اور سزاوار بنا چلا آرہا ہے۔
عاصم منیر اس چھٹ بھیئے کو اپنی پبلسٹی کیلئے استعمال کرنا چاہتا ہے کیونکہ اس کا خیالِ خام یہ ہے کہ محسن نقوی، جو امریکی گماشتے کی شہرت رکھتا ہے اس کے واشنگٹن میں بہت کام آسکتا ہے۔ اسی لئے اس لعین کو ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب میں رسائی حاصل کرنے کیلئے بھجوایا گیا تھا لیکن اس چھٹ بھئیے کو وہاں تک رسائی نصیب ہی نہیں ہوئی اور بے نیل و مرام پاکستان کیلئے رسوائی کماکے یہ جیجا جی کے پاس لوٹ آیا۔
اس کے کارنامے تو بے شمار ہیں کہ یہ لعین کس کس طرح پاکستان کو رسوا اور بدنام کر رہا ہے لیکن پاکستانی کرکٹ ٹیم کا اس نے جو حشر کیا ہے وہ تو ایسا جرم ہے جس کیلئے یہ کمینہ بدترین سزا کا مستحق ہے۔
اس چھٹ بھئیے کو کرکٹ کی الف ب بھی نہیں آتی لیکن اسے پاکستان کرکٹ بورڈ پر مسلط کردیا گیا ہے۔ کرکٹ بورڈ کے سرپرست اعلیٰ وہ چور کٹھ پتلی وزیر اعظم شہباز شریف ہے۔ تو کرکٹ ان دو رذیلوں کے درمیان اگر تباہ نہ ہوتی تو تعجب کی بات ہوتی۔
دوبئی میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے بھارت کے خلاف جو شرمناک کھیل پیش کیا اس پر تمام تر مہر اس لعین محسن نقوی کی تھی جو بڑے طمطراق سے یہ کہہ کے دبئی کرکٹ اسٹیڈیم میں اپنے پورے کنبہ کے ساتھ داخل ہوا تھا کہ آج بہت دلچسپ منظر ہوگا۔ ہاں، دلچسپ تو ہوا اور بہت دلچسپ ہوا لیکن بھارت کی ٹیم کے حق میں اور وہاں موجود بھارتی پرستاروں اور تماشائیوں کیلئے۔
پاکستانی تماشائیوں کو تو سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کہاں منہ چھپائیں اسلئے کہ اس سالے اور اس کے یزید جیجاجی کی نحوست ایسی ہے کہ کرکٹ ٹیم کیا پورا ملک اس کے آسیب سے نکل نہیں پارہا!
کرکٹ کے پورے نظام کو اسی طرح سیاست، اور سیاست بھی منافقت کی، کی نذرکردیا گیا ہے جیسا فسطائی نظام پاکستان کو برباد کر رہا ہے۔ کرکٹ ٹیم کے سیلیکشن کے نگراں وہ لوگ ہیں جو یزید اور اس کے سالے کے تلوے چاٹتے رہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کے سبب کرکٹ کی ٹیم کا بھی وہی حشر ہونا تھا جیسا ملک میں جمہوریت کے ساتھ ہورہا ہے کہ جمہوریت کے نگران و نگہبان وہ گماشتے بنے ہوئے ہیں جو جرنیلوں کی بوٹ پالش میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ سر فہرست ان چاپلوسوں میں وہ چور شہباز ہے تو وزارتِ عظمی کا قرعہ اسی کے حق میں نکلا ہے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں۔
کرکٹ کی تباہی ان کے ہاتھوں ہورہی ہے جنہوں نے اپنی منافقانہ زندگی کا ہدف یہ بنایا ہوا ہے کہ اس کو قید رکھا جائے جس نے پاکستانی کرکٹ کو اپنی قیادت میں بامِ عروج پہ پہنچایا تھا!
عمران خان، قیدی نمبر 804، تو اپنی قید میں بھی نام کمارہا ہے۔ اور نام یوں کما رہا ہے کہ اول تو وہ حق پہ ہے اور حق کا حامل، سچائی کا پرستار اور عامل ہمیشہ کامران بھی رہتا ہے اور بے خوف بھی۔
عمران بے خوف ہے۔ اس جیسا حق کا متوالا ان یزیدیوں اور ان کے چھٹ بھئیے گماشتوں کی گیدڑ بھبھکیوں میں نہیں آیا اور آج بھی ڈیڑھ برس کی بدترین عقوبت کے بعد بھی وہ اپنے موقف پہ ڈٹا کھڑا ہے کہ وہ یزید عاصم منیر کے ساتھ کوئی سمجھوتہ، کوئی ’ڈیل‘ نہیں کرے گا۔
خوف میں مبتلا تو یزید عاصم منیر ہے جو ایک چیتے کی پشت پہ سواری کر رہا ہے اور اس خوف میں ہے کہ جب بھی وہ اترے گا چیتا اسے پھاڑ کھائے گا!
ڈیل تو عاصم منیر مانگ رہا ہے عمران سے اور عمران اس شیطان کی رسی دراز ہونے دے رہا ہے اس کا خوف یزید کو کھائے جارہا ہے۔جھوٹا اور منافق ہمیشہ خوف میں مبتلا کرتا ہے اور وہی حال یزید عاصم منیر اور اس کے محسن نقوی اور شہباز چور جیسےگماشتوں کا ہے۔قید میں عمران نہیں بلکہ یہ یزید اور اس کے پروردہ چیلے چاٹے ہیں۔
عاصم منیر انکاری ہے کہ عمران خان کا کوئی خط اسے نہیں ملا جبکہ عمران کے معتمد سلمان اکرم راجہ کا یہ کہنا ہے کہ خط وہاں وصول بھی ہوگئے جہاں ہونا چاہئے تھا اور خطوں میں جو کچھ بھی لکھا گیا تھا وہ جذب بھی ہوگیا ہے اگرچہ قوم کو اندھیرے میں رکھنے کیلئے یزیدی جھوٹ پہ جھوٹ بول رہے ہیں۔
خوف ہی تو ہے جو ترکی کے جی دار اور بیباک صدر طیب اردگان کے اس خطاب کو، جس میں انہوں نے عمران خان کا ذکر کیا تھا اور تاسف کا اظہار کیا تھا کہ عمران وہاں موجود نہ تھا، مصنوعی ذہانت کا کرشمہ بیان کیا ہے۔
یہ مصنوعی ذہانت، جسے دنیا آرٹیفشل انٹیلیجنس کے نام سے جانتی ہے، کا ظالم فسطائی حکومت کے ہاتھ اچھا بہانہ یا ہتھیار آگیا ہے۔
ہر وہ چیز جو ان منافقوں کی طبع خباثت پہ گراں گزرے اسے مصنوعی ذہانت کے سر تھوپ دیتے ہیں۔ لیکن طیب اردگان کو جو لوگ جانتے ہیں، اور یہ حقیر ان میں شامل ہے کہ ترکی میں سفیر رہ چکا ہے، انہیں ان کی جراءتِ کردار کا علم ہے اور بخوبی ہے۔ طیب اردگان کا منہ تو یزید عاصم منیر نہ بند کرسکتا ہے نہ کھلوا سکتا ہے۔ وہ اپنی مرضی کے مختار ہیں، بیباک اور حوصلہ مند ہیں۔ انہوں نے ترک جرنیلوں کو ان کی اوقات دکھادی ہے تو عمران کے حق میں وہ اگر کوئی بات کرنا چاہیں تو کون انہیں روک سکتا ہے یا ان پہ قدغن لگا سکتا ہے !
اور یزید اور اسکے ھواریوں نے اس پر جو مہرِ خاموشی اپنی طرف سے لگانی چاہی ہے اس سے اور اس شبہ کو تقویت ملتی ہے کہ اس پردہء زناری میں کوئی بت چھپا بیٹھا ہے !تو قیدی عمران جیسا دلیر نہیں بلکہ عاصم منیر جیسا بزدل اور کائر ہے!اس کی بزدلی تو اس فرار سے اظہر من الشمس ہوگئی جو اس نے اپنے برطانیہ کے دورے کو مختصر کرکے وہاں سے اختیار کیا!
گزشتہ جمعرات کو میں اپنا وہ ہفتہ وار ٹی وی پروگرام حسبِ معمول کر رہا تھا جو ہر جمعرات کی شب میں کرتا ہوں کہ مجھ سے پروگرام کے اینکر نے سوال کیا کہ میری کیا رائے تھی اس مقدمہ کے ضمن میں جو برطانیہ کے گورے، پاکستانی نہیں، وکلاء نے جنرل عاصم منیر کے خلاف دائر کیا ہے؟
یزید عاصم منیر برطانیہ کے دورے پہ تھا۔ ایک تو یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ برطانیہ کے فوج کے سربراہ نے اس لعین کو کیوں مدعو کیا یہ جانتے ہوئے کہ اس نے پاکستان میں جمہوریت کا کیسے قلع قمع کیا ہے اور فسطائیت کو فروغ دینے کا یہ یزید مجرم ہے؟
میں نے جواب میں کہا کہ اس سے قطع نظر کہ اسے مدعو کیا گیا یا یہ خود منت سماجت کرکے وہاں پہنچا ہے مجھے یقین ہے کہ برطانیہ کے با شعور اور با ضمیر وکلاء نے اس کی فسطائیت کا جیسے پردہ چاک کیا ہے اور اسے بے نقاب کیا ہے اسے یہ بزدل سہار نہیں سکے گا اور وہاں سے جلد بھاگ لے گا، اور یہی ہوا بھی!
جھوٹ کے پاؤں کہاں؟ یزید کو معلوم ہے کہ پاکستان کی عدالتوں کو تو اس نے دھونس اور ڈنڈے سے اپنے تابع فرمان کرلیا لیکن برطانیہ میں قانون کی عملداری ہے، وہاں قانون حکمراں ہے فوج کے بدمست جرنیل نہیں۔ اور برطانیہ کا قانون بھی دبنگ ہے کہ نہ بڑے چھوٹے،طاقتور اور کمزور میں کوئی امتیاز رکھے بغیر حق و انصاف کا وہاں بول بالا ہوتا ہے ۔ یزید کو خطرہ ہوا کہ برطانیہ کی کسی عدالت نے اس کے وارنٹِ گرفتاری جاری کردئیے تو پھر یہ قانون کی گرفت سے بچ نہیں سکے گا!
تو قید میں یزید ہے، چھٹ بھیا محسن نقوی ہے، مہا چور شہباز ہے۔ عمران قید میں رہتے ہوئے بھی آزاد ہے اور آزاد رہے گا، ان شاء اللہ۔
یزیدی دور کا بوریہ بستر لدنے کے آثار نمایاں ہونے لگے ہیں اور اسی لئے کائر جرنیل اور ان کے بزدل، چور سیاسی گماشتے بھاگنے کی تیاریوں میں جٹ گئے ہیں۔
پاکستان میں فسطائیت کا اندھیرا سمٹنے والا ہے اور حق کا بول بالا ہونے کی گھڑی قریب آچلی ہے۔ بقولِ فیض ، ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے!
بزدل عاصم منیر سے تو پاکستان کی حریت پسند اور عمران کی حمایتی خواتین کے اس سوال کا جواب ہی نہیں بن پارہا کہ تم ، ظالم اور فسطائی، کون ہوتے ہو پاکستان کی خواتین سے یہ سوال کرنے والے کہ "تم کون ہوتی ہو” !
تو آج کیلئے یہی کافی ہے کہ زنداں کے اسیر اصل میں یزید اور اس کے فسطائی حواری ہیں جو بلا کے بزدل بھی ہیں اور منافق بھی!
یہ چار مصرعے ہمارے اسی ضمن میں ہیں:
بزدل بلا کا فوج کا سالارِ عصر ہے
اپنے عوام کیلئے اعلانِ جنگ ہے
لندن سے بھاگ آیا یہ اپنی گلی کا شیر
قانون حکمراں ہے وہاں اور دبنگ ہے !
اب یہ تو آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ گلی کا شیر کون ہوتا ہے ؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button