ہفتہ وار کالمز

صدر ٹرمپ اور یورپی لیڈر ‘ آمنے سامنے

پیر کے روز صدر ٹرمپ اور فرانس کے صدر ایمینئول میکرون کی وائٹ ہائوس میں ملاقات کے دوران کچھ چونکا دینے والی باتیں ہوئیں۔ صدر ٹرمپ اپنے کسی مہمان سے یہ توقع نہیں رکھتے کہ وہ ان کی غلط بیانی کی تصحیح کرے گا۔ گذشتہ ایک ماہ کے دوران اسرائیل‘ جاپان ‘ اردن اور بھارت کے سربراہ صدر ٹرمپ سے ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ یہ سب خاموشی سے صدر امریکہ کی دلچسپ باتیں سنتے رہے لیکن ان میں سے کسی نے بھی اپنےمیزبان سے اختلاف رائے نہیں کیا ۔ امریکہ سے جانے کے بعد انہوں نے دل کی بات کہہ دی مگر واشنگٹن میں انہوں نے خاموش رہنے میں عافیت سمجھی۔ ایمینئول میکرون کے امریکہ آنے سے پہلے ہی یورپی نیوز میڈیاکہہ رہا تھا کہ فرانس اور برطانیہ کے لیڈر صدر ٹرمپ سے ملاقات کرنے سے پہلے اپنے مشاہیر کیساتھ یہ طے کر لیں گے کہ انہوں نے صدرامریکہ سے بات چیت میں کیا حکمت عملی اختیار کرنی ہے۔ ٹرمپ اور میکرون ملاقات کے بعد جو حقائق سامنے آئے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ فرانس کے صدر نے یہ طے کیا ہوا تھا کہ وہ صدر ٹرمپ کی ہر غلط بیانی کی تصحیح کریں گے مگر اس انداز میں کہ انکے میزبان کو انکی بات بری نہ لگے۔ اسی لیے جب وائٹ ہائوس میں ملاقات کے دوران صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’’ یورپ نے یوکرین کو امداد قرض کے طور پر دی ہے اور وہ اپنی رقم واپس لے لے گا‘‘ تو اسکے جواب میں صدر میکرون نے اپنے میزبان کے بازو پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ ’’ نہیں ایسا نہیں ہے۔ یوکرین کو ملنے والی کل امداد میں سے ساٹھ فیصد ہم نے دیا ہے اور یہ زیادہ تر گرانٹس کی صورت میں تھا۔ ‘‘ صدر ٹرمپ اسکے جواب میں مسکرا دیے اور ہاتھ ہلا کر انہوں نے اسکی تردید کی۔ بعد ازاں جب روس کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کی بات ہوئی تو صدر ٹرمپ نے کہا کہ انکے مشاہیر صدر پیوٹن کی ٹیم سے بات چیت کر رہے ہیں اور یہ معاہدہ دو تین ہفتوں میں ہو سکتا ہے۔ اس امن معاہدے کے بارے میں صدر میکرون نے کہا کہ ’’ ہمیں کوئی ایسا معاہدہ نہیں چاہیئے جو کمزور ہو‘‘ صدر میکرون نے وائٹ ہائوس کے ایسٹ روم میں صدر ٹرمپ کے سامنے صحافیوں سے کہا کہ ’’ اس جنگ میں اگر یوکرین کو شکست ہوئی تو اسے امریکہ کی کمزوری سمجھاجائے گا۔ ‘‘ دونوں صدورجن باتوں پر متفق نہ تھے ان میں سے ایک یہ تھی کہ یہ جنگ کس نے شروع کی اور یوکرین کو زیادہ امداد کس نے دی۔ اس ملاقات سے پہلے صدر ٹرمپ کہہ چکے تھے کہ امریکہ نے یوکرین کو 250 بلین ڈالر کی عسکری اور معاشی امداد دی ہے۔ جرمنی کے ایک تحقیقی ادارے Kiel Institute کی ریسرچ کے مطابق امریکہ نے یوکرین کو 120 بلین ڈالر کی امداد دی ہے۔
صدر ٹرمپ نے یوکرین کو مزید جنگی اسلحہ دینے کے لیے پانچ سو ارب ڈالرز کا ایک فنڈ قائم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ فنڈ یوکرین اپنی معدنی دولت اور تیل اور گیس کے ذخائر امریکہ کو فروخت کر کے حاصل کرے گا۔ اس معاہدے پر اگر چہ کہ دونوں ممالک میں بات چیت ہو رہی ہے مگر یوکرین کے صدر زیلنسکی نے کہا ہے کہ وہ اپنے ملک کی اگلی دس نسلوں کو مقروض کرنے والے کسی معاہدے پر دستخط نہیں کریں گے۔
آجکل صدر ٹرمپ اور صدر زیلنسکی کے درمیان جو تلخ نوائی ہو رہی ہے اس نے یورپی لیڈروں کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔ چند روز پہلے صدر ٹرمپ نے صدر زیلنسکی کے بارے میں کہا کہ وہ ایک ڈکٹیٹر ہے جس نے ہر وقت سوئے رہنے والے صدر بائیڈن کو بیوقوف بنا کر اربوں ڈالرز کی امدادبٹور لی۔ اسکے جواب میں صدر زیلنسکی نے کہا کہ وہ استعفیٰ دینے کو تیار ہیں مگر اس شرط پر کہ یوکرین کو نیٹو کا ممبر بنا لیا جائے۔ برطانیہ کے وزیر اعظم کیئر سٹارمر نے صدر زیلنسکی کے دفاع میں کہاہے کہ وہ الیکشن جیت کر صدر بنے تھے اور انہوں نے اگر بر وقت انتخاب نہیں کرائے تو اسکی وجہ انکے ملک کا حالت جنگ میں ہونا ہے۔کیئر سٹارمر نے کہا کہ برطانیہ نے بھی دوسری جنگ عظیم کے دوران الیکشن ملتوی کر دئے تھے۔
صدر میکرون کے بعد برطانیہ کے وزیر اعظم جمعرات کو صدر ٹرمپ سے ملاقات کریں گے۔ انکی آمد سے پہلے ہی امریکی میڈیا خیال آرائی کر رہا ہے کہ وہ بھی ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت صدر ٹرمپ سے مکالمہ کریں گے۔چوبیس فروری کے نیو یارک ٹائمز میں Mark Landler نے لندن سے بھیجی ہوئی رپورٹ میں لکھا ہے کہ برطانوی حکام کے مطابق کیئر سٹارمر صدر ٹرمپ سے کہیں گے کہ برطانیہ ‘ یوکرین کی فوجی امداد میں اضافہ کرنے کے علاوہ اپنے دفاعی بجٹ کو بھی اپنی قومی پیداوار کے 2.5 فیصد تک بڑھا دے گا۔ اس پالیسی کے بر عکس کیئر سٹارمر امریکہ جانے سے پہلے روس پر مزید تجارتی پابندیاںلگانے کا اعلان کریں گے ۔ دوسری طرف صدر ٹرمپ روس کیساتھ تجارتی روابط استوار کرنے اور ماسکو کی عالمی تنہائی ختم کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ برطانوی حکام کا کہنا ہے کہ کیئر سٹارمر صدر ٹرمپ سے روس پر دبائو بڑھانے کا مطالبہ بھی کریں گے تا کہ جنگ بندی کے کسی قابل قبول معاہدے تک پہنچا جا سکے۔
یورپی لیڈروں کو صدر ٹرمپ سے مکالمہ کرنے میں جو مشکلات درپیش ہیں ان پر تبصرہ کرتے ہوئے آسٹریلیا کے سابق وزیر اعظم Malcolm Turnbull نے کہا ہے کہ This is the moment of truth and they have to have the steel to stand up to Trump and tell him what they think. یعنی یہ سچ بولنے کا لمحہ ہے اور یورپی لیڈروں میں اتنی جرا ء ت ہونی چاہیے کہ وہ ٹرمپ کو بتا دیں کہ وہ کیا سوچ رہے ہیں۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button