ہفتہ وار کالمز

 پاکستان میںتعلیم کے خلاف جہاد

پاکستان کے موجودہ مسائل کی ایک بڑی وجہ عوام میں تعلیم کی کمی قرار دی جا سکتی ہے۔ اگرچہ کرپشن سب سے بڑی وجہ ہے۔کرپشن ہی کی وجہ سے بچوں کو تعلیم بھی نہیں ملی۔ ذرا سنئے غور سے کہ ابھی ابھی امریکہ کی کانگریس میںپاکستان میں تعلیم کے نام پر جو پیسہ ملا اس کا کیا انعام ملا؟ اس وقت زیر بحث موضوع تھا یو ایس ایڈ میں امداد کی بے ضابطگیاں۔ ایک سینیٹر صاحب نے بتایا کہ بیس سال میں پاکستان کو امریکہ نے تعلیم کے شعبہ میں 840 ملین ڈالر کی امداد دی۔ جس میں سے 136 ملین ڈالر سے 130 سکول بنانے تھے۔ لیکن ان سکولوں کا اور اس امداد کے صحیح استعمال کا کوئی سراغ نہیں۔ یو ایس ایڈ نے بیس ملین ڈالر بچوں ے لیے ٹی وی پروگرام بنانے کے لیے دیے ان بچوں کے لیے جو سکول نہیں جا سکتے۔(یہ نہیں کسی نے سوچا کہ کیا ایسے بچوں کے پاس ٹی وی بھی ہو گا؟) امریکہ کے پاس کوئی ثبوت نہیں کہ یہ تمام امداد کیسے خرچ کی گئی۔ سینیٹر کا الزام تھا کہ حقیقت میں امریکہ نے یہ ساری امدا دہشتگردوں کو دے دی۔
تو صاحبان ، یہ سچ ہے یا محض الزام تراشی ہے اس پر تو کوئی اہل اقتدار ہی بتا سکتا ہے، لیکن اس میں کسی کوکوئی شک ہےکہ ہمارے ارباب اقتدار نے تعلیم کے نام سے خصوصاً جو بھی امداد آئی اسے بہت بیدردی کے ساتھ غائب کیا۔ سنا ہے کہ برطانیہ کی حکومت نے بھی ملینز آف پائونڈ تعلیم کے لیے دئے۔ سندھ میں کچھ سکول دیہاتوں میں بنے لیکن وہاں بجائے درس و تدریس کے گائے بھینسیں اور مویشی رکھے گئے۔
یونیسف (اقوام متحدہ) کے مطابق،5سے16سال کی عمر کے بچوں میں سے دو کروڑ اٹھائیس لاکھ بچے سکول میں داخل نہیں ، جو اس عمر کے بچوں کی 44فیصد تعداد بنتی ہے5 سے9برس کی عمر کے بچوں میں پچاس لاکھ بچے سکول میں نہیں ہیں۔اور 10سے 14سال کی عمر کے بچوں میں گیارہ لاکھ بچے سکول نہیں جاتے۔یونیسف کے مطابق پاکستان دنیا کے تمام ملکوں میں سکول سے باہر بچوں کے لحاظ سے دوسرا بڑا ملک ہے۔ سکول سے باہر بچوں کی 62فیصد تعداد سندھ سے ہے جن میں 58فیصد لڑکیاں ہیں۔ اور بلوچستان میں78فیصد لڑکیاں سکول نہیں جاتیں۔یہ امر بھی باعث تشویش ہونا چاہیے کہ پرائمری کے بعد تقریباً دو تہائی لڑکے اور تین چوتھائی لڑکیاں مڈل سکول میں نہیں جاتے۔
اسے ایک المیہ نہیں کہیں گے تو کیا کہیں گے؟ پاکستانی معاشرہ ابھی تک دورِجاہلیت سے باہر نہیں نکلا۔اس کی وجوہات معاشرتی ہیں، اقتصادی ہیں اور سب سے زیادہ ان حالات کی کہ سکول ہی موجود نہیں۔لڑکیوں کے لیے سکول جانا ایک مسئلہ ہے۔ خاص طور پر اگر سکول زیادہ فاصلے پر ہو اور بچوں کو سواری نہ ملے۔سب سے زیادہ وہ بچے متاثر ہوتے ہیں جو نادار ہیں، اور غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ حکومت تعلیم پر بجٹ تو بڑھاتی ہے لیکن معمولی سا۔کل معیشت کا 8.2تعلیم کے لیے وقف کیا جاتا ہے جبکہ ضرورت4فیصد کی ہے۔
سال ہا سال سے تعلیمی شعبہ پر حکومتی بے توجہی نے ایسے حالات پیدا کر دیے ہیں کہ ملک تباہی کے اندھیرے گڑھوں کی طرف چلتا جا رہا ہے اور عوام بے بس ہیں۔ ان کو معلوم ہی نہیں کہ ان کے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔گذشتہ 73 سالوں میں پاکستان میںنا خواندگی کی شرح میںمعمولی سی کمی آئی ہے۔ ایک تازہ اعلانیہ کے مطابق، خواندگی کی شر ح سن 2017 میں 58.9 فیصد سے بڑھ کر سن 2023 میں 60.7 فیصد ہو گئی۔ مبارک ہو۔ چھ سال میں کتنا اضافہ ہوا، فقط2 فیصد۔اب غور کیجئے کہ جس قوم میں تقریباً چالیس فیصد لوگ ناخواندہ ہوں اور جو خواندہ ہیں ان میں بھی کافی بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو محض اپنے دستخط کرنا جانتے ہیں یا پرائمری پاس بھی نہیں۔خواہ جمہوری حکومتیں آئیں خواہ فوجی، لیکن تعلیم پر توجہ کم ہی نے دی گئی۔ کیونکہ نہ تو ہمارا جاگیردانہ نظام پڑھے لکھے عوام چاہتا ہے ، نہ صنعتکار ایسے مزدور جنہیں اپنے حقوق کا شعور ہو۔ فوج بھی زیادہ پڑھے لکھے فوجی نہیں چاہتی کیونکہ وہ تابعدار فوجی نہیں بنتے۔ سب سستی افرادی قوت چاہتے ہیں۔ یہ غالباً ساری دنیا کا نظام ہے۔ مثلاً امریکہ نے بھی اپنے غریب ہمسایہ ممالک میں تعلیم پر زیادہ دھیان نہیں دیا۔ لاطینی اگر بنیادی تعلیم لے لیں تو ثانوی تعلیم کی طرف کم ہی جاتے ہیں۔بالآخر (امریکہ) کو سستی افرادی قوت وہیں سے ملتی ہے۔ لیکن یہ ملک اپنے شہریوں کو تو علم کی دولت سے محروم نہیں رکھتے۔
اسی لیے ہمارے سیاستدان اور حکمران شعوری طور پر تعلیم پر کم سے کم خرچ کرتے ہیں۔ اور نظام تعلیم کی کوالٹی پر تقریباً صفر توجہ دی جاتی ہے۔پارلیمان میں تعلیم پر ترجیحی سلوک یا اس پر زیادہ رقم لگانے پر بات نہیں کی جاتی۔زبانی جمع خرچ کے علاوہ۔آخر پارلیمان بھی تو جاگیرداروں ، زمینداروں، مذہب کے ٹھیکیداروں اور سابقہ فوجیوں سے اٹا پڑا ہے۔یہی وہ گروہ ہیں جو عوام میں تعلیم نہیں چاہتے۔
شرح خواندگی میں جو ذرا سااضافہ ہوا پنجاب، کے پی اور سندھ میں ہوا، بلوچستان میں یہ شرح اور بھی کم تھی۔راقم کو یاد ہے کہ واشنگٹن ڈی سی میں ایک میٹنگ میں عالمی بینک کے ایک پاکستانی افسر سے ملاقات کا موقع ملا۔ میرا ان سے سوال تھا کہ پاکستان میں تعلیم بالغان پر کیوں نہیں کوئی امدد دی جاتی۔ تو میرے محترم بھائی کا جواب تھا، غالباً معقول، کہ ہمیں پہلے بچوں کی تعلیم کا سوچنا چاہیئے جو سکول نہیں جا رہے۔ راقم نے دل میں سوچا کہ یہاں پہلے بعد کا کیا سوال ہے ۔ کیا دونوں ضروری نہیں؟ کیا دونوں پر توجہ نہیں دی جا سکتی؟ پھر یاد آیا کہ صدر ایوب نے بنیادی جمہوریتوں کا پروگرام چلایا تھا اس میں ایک شعبہ تعلیم بالغاں کا بھی تھا۔ لیکن جب یو ایس ایڈ نے پانچ سال بعد اس پروگرام کی کار کردگی کا جائزہ لیا تو اس نے امداد بند کر دی اور یہ پروگرام دھڑام سے گر گیا۔ اس کے بعد سے تعلیم بالغان ایک قصہ پارینہ بن گیا۔بالغوں کو یہ باور کروا دیا گیا ہے کہ پڑھ کر کیا کرنا ہے؟ وہ بھی ہمت ہار بیٹھے ہیں۔
تعلیم خواہ کس کی ہو، اس سے ہاتھ کھینچنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ لیکن پاکستانی حکومتیں اکثر اپنی بقا کی جنگ میں مصروف ہوتی ہیں، انہیں انسانی حقوق پر بات کرنا ایک عیاشی نظر آتی ہے۔اگر تعلیم دی جاتی تو عوام از خود احکام کو انسانی حقوق پر توجہ دلاتے۔اور یہی وجہ ہے کہ تعلیم اول تو دی نہیں جاتی ، جو دی جاتی ہے وہ طالب علموں کو علم سے محبت کے بجائے خوف دلاتی ہے۔اور نہ ہی ان کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ علم کیوں اور کیسے حاصل کرتے ہیں؟ علم کی عملی زندگی میں کیا فائدے ہوتے ہیں؟ وغیرہ۔کیا پاکستان اس دور کی دنیا میں جہاں سائنس، ٹیکنالوجی، اورریسرچ کا دور دورہ ہے، بغیر اچھی تعلیم کے ایسی افرادی قوت پیدا کر سکتا ہے جو نہ صرف ملک کو آگے لے جائے، بلکہ باہر کی دنیا میں بھی مانگی جائے؟ لگتا تو نہیں مگر شاید؟
پاکستان میں آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔جب کہ دنیا میں افزائش آبادی کی شرح 2.1 کے لگ بھگ ہو رہی ہے، پاکستان میں ابھی بھی 2.55بتائی گئی ہے۔کافی سالوں کی بات ہے کہ ماہرین عمرانیات نے بتایا کہ پاکستان کو ایک بہت اچھی صورت حال ملنے والی ہے جسے ڈیموگرافکڈیویڈنڈ (demographic dividend) کہتے ہیں۔ اس میں ملک کی آبادی میں نوجوانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ اگر کوئی ملک اس نوجوان آبادی کو اچھی تعلیم دے اور ہنر مند بنا دے تو ، وہ ملک بڑی جلدی ترقی کر جائے گا۔ اب پاکستان اس ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ سے بے نیاز ، پتہ نہیں کن خیالوں میں، چلا جا رہا ہے، اور نظر نہیں آتا کہ وہ اس ڈیموگرافک ڈویڈنڈ سے کچھ حاصل کر پائے گا۔وہ ڈویڈنڈ تو ملک سے باہر بھاگا جا رہا ہے۔سنا ہے کہ دو سال میں لگ بھگ پندرہ لاکھ نو جوان ملک چھوڑ کر باہر جا چکے ہیں۔ وہ دوسرے ملکوں کو ڈویڈنڈ دیں گے۔اس فرار میںکچھ لالچی منافع خور ، اور ظالم ٹائوٹس کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں، جو ان سے خطیر رقم لیکر بغیر ویزا کے بیرون ملک لے جانے کا خواب دکھاتے ہیں۔ حکام سب ان ٹائوٹس کے بارے میں با خبر ہوتے ہیں لیکن چونکہ وہ ان کو خوش رکھتے ہیں، ان کے کاروبار میں کوئی بندش نہیں ڈالی جاتی۔لیکن کیا وہ نوجوان اپنی منزل پر پہنچتے ہیں یا نہیں، اس سے کسی کو سروکار نہیں۔ حکومت کو تو اس زر مبادلہ سے محبت ہے جو یہ نوجوان کما کر گھر بھیجتے ہیں۔ابھی یکے بعد دیگرے کچھ دلخراش واقعات ہوئے ہیں کہ سن کر دل دہل جاتا ہے۔
ان چند مہینوں میں کشتی سے ڈوبنے والے پاکستانیوں کا تیسرا واقعہ ہوا ہے۔ اور عین ممکن ہے کہ خدا نہ کرے، چوتھے کی خبر بھی آجائے۔ اور پھر پانچویں کی۔کیا ہماری حکومت اتنی بے حس ہے یا اتنی بے بس ہے کہ اس کا سد باب نہیں کر سکتی؟ وہ اگر چاہے تو سب کچھ ہو سکتا ہے۔ لیکن جو نہیں ہو سکتا وہ ملک سے کرپٹ اہلکاروں کا احتساب نہیں ہو سکتا۔ ورنہ ایسی کیا بات ہے کہ حکومت کے کارندے ا ن اداروں کا سراغ نہیں لگاتے جو ان کشتیوں میں ملازمت کے متلاشی نو جوانوں کو بھر بھر کر سمندروں پر لے جاتے ہیں اور پھر انہیںغرق کر دیتے ہیں۔ کم از کم ایک کشتی سے بچنے والوں کا بیان تھا کہ انہیں جان بوجھ کر پانی میں پھینکا گیا۔یہ کتنی بھیانک بات ہے۔
سن 2023ء کی مردم شماری سے پتہ چلا کہ آبادی میں نوجوان تیزی سے بڑھ رہے تھے ، ان کی رفتار میں کمی آ گئی ہے۔ اور وہ ڈیموگرافک ڈویڈنڈ کی کھڑکی بند ہونے والی ہے۔ اور اب جو اندازہ ہے کہ بے کار نوجوانوں کی تعدا18ملین ہے وہ اور نہیں بڑھے گی۔شماریات سے کچھ اور دلچسپ اعداد و شمار ملتے ہیں جیسے کہ شہری علاقوں میں فی گھرانہ افراد کی تعدا بڑھی ہے اور دیہی علاقوں میں تھوڑی کم ہوئی ہے۔ جیسے کی دیہی خاندان اپنے کچھ بچوں کو شہری رشتہ داروں کے گھر بھیج رہے ہوں؟
پاکستان کی کل آبادی اب تک ساڑھے پچیس کروڑ کے لگ بھگ ہو گی۔2023ء کی مردم شماری کے مطابق، بیس سے انتیس سال کی عمر کے نو جوان تقریبا چار کروڑ تھے۔ جن میں تقریباً نصف لڑکیا ںتھیں۔ زیادہ تر غیر شادی شدہ تھے۔ لڑکے زیادہ تر بیکار گھروں میں بیٹھے بیزار ہوتے ہیں، اسی لیے مشرق وسطی، سعودی عرب ، اور یورپ وغیر ہ میں ملازمتوں کی خواہش میں پریشان رہتے ہیں۔پاکستان میں ملازمتوں کے مواقع نہیں۔ نئی حکومت نے صنعتوں کو باہر بھجوا دیا ہے یا تالہ بندی کروا دی ہے۔ کتنی باہر کی کمپنیاں پاکستان کے حالات دیکھ کر راہ فرار ڈھونڈھ رہی ہیں۔ ملک میں بجائے صنعت کاری بڑھنے کے گھٹ رہی ہے۔ کل پاکستان میں گنتی کے ادارے ہیں جہاں کوئی ہنر سکھایا جاتا ہے۔ زیادہ تر بچے پرائمری بھی نہیںپاس کرتے۔ کچھ مڈل اور بہت کم میٹرک پاس کر لیتے ہیں۔ ملک سے باہر جا کر سوائے محنت مزدوری کے اور کوئی کام نہیں کر سکتے۔ حکومت جو ان کی ملازمت میں کوئی مدد کرتی ہے اوریا تربیت میں، وہ نا کافی ہوتی ہے۔
حکومت نے اوورسیز پاکستانیوں کے لیے ادارہ بنایا ہوا ہے۔ وہ کیا کرتا ہے؟ کچھ تو کرتا ہو گا؟اعداد و شمار اکٹھے کرنے کے علاوہ۔ کیا وہ ان نو جوانوں کو کوئی رہنمائی دیتا ہے؟ بیرون ملک ملازمتیں حاصل کرنے میں کونسے ہنر معاون ہوتے ہیں ان کے بارے میں بتاتا ہے؟ ان کو انگریزی میں بات چیت کرنے کی اہلیت پیدا کرنے میں ممد و معاون ہوتا ہے؟ مہذب دنیا میں رہنے سہنے کے سلیقہ سے آگاہی دیتا ہے؟ شاید؟ اگر آپ اس مضمون سے اتفاق رکھتے ہیں یا اختلاف، ہمیں ضرور لکھیے: (javedsahmad@gmail.com)۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button