ڈی چوک میں گولی کیوں چلائی اور کس نے چلائی؟ جنرل عاصم منیر نے اعترافِ جرم کر لیا

اس ہفتے خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے پاکستانی فوج کے جنرلوں اور فارم 47کے جعلی حکمرانوں کے جھوٹے بیانیے کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے۔ پچھلے سال 26نومبر کو اسلام آباد کے ڈی چوک میں، سڑکوں اور چوک کی تمام اسٹریٹ لائٹس کو بند کر کے اور چاروں طرف سے بتیاں بجھا کر جو کھلے عام ننگی جارحیت اور بربریت کا مظاہرہ کیا گیا، پورا پاکستان اس پر سراپا احتجاج بن گیا اور بین الاقوامی میڈیا میں آج تک اس پر بڑی لعن طعن ہورہی ہے۔ اس خونی واردات میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق چودہ پاکستانی نوجوان جاں بحق ہو گئے۔ امریکہ میں ان بے گناہ پاکستانی نوجوانوں کے سروں پر براہ راست گولیاں مارنے والی جعلی حکومت کے عہدیداروں اور پاکستان ملٹری کے جنرلوں کے خلاف مقدمہ قتل درج کیا گیا ہے جس میں گواہی دینے کیلئے ایک زخمی امریکہ پہنچ چکا ہے جبکہ ایک اور متاثرہ شخص اس وقت راستے میں ہے۔ اس مقدمے کے نتیجے میں پاکستانی حکومت کے عہدیداروں اور فوجی جنرلوں کے امریکہ میں ٹریول کرنے پر پابندی لگ سکتی ہے۔ اگر آپ کو یاد ہو، اسی طرح کے قتل عام کے الزامات میں انڈیا کے اس وقت کے گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی پر پابندی لگ چکی ہے جنہیں گجرات کا قصائی کہا جاتا ہے۔ یہ پابندی اس وقت تک قائم رہی جب تک نریندر مودی انڈیا کے سربراہ اور وزیراعظم نہ بن گئے۔ واشنگٹن میں اسی نوعیت کی قانونی کارروائی کیلئے کام ہورہا ہے اور جنرل عاصم منیر اور صدر زرداری، وزیراعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ محسن نقوی اور دیگر جنرلوں پر نہ صرف امریکہ میں بلکہ یورپ اور یورپی یونین میں بھی پابندی لگائی جائے گی۔ اس کارروائی کے شروع ہونے کے بعد سے جنرل عاصم منیر سمیت کئی جنرلوں کی نیندیں اڑی ہوئی ہیں کیونکہ پاکستانی جنرل تمام کرپشن اور قتل و غارت گری کے بعد یورپ اور امریکہ میں ہی بقیہ زندگی گزارتے ہیں اور اس کے شواہد بھی موجود ہیں۔ اسی تناظر میں اس ہفتے جب وزیراعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈاپور سے جب صحافیوں سے سوال پوچھا کہ آپ نے اسلام آباد میں میٹنگ کے دوران جنرل عاصم منیر سے یہ کیوں نہ پوچھا کہ اسلام آباد کے ڈی چوک میں فوج نے گولی کیوں چلائی پرامن پاکستانی شہریوں پر؟ جواب میں گنڈاپور نے کہا کہ انہوں نے یہ سوال آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے پوچھا تھا اور انہوں نے جواب دیا کہ ڈی چوک میں وفاقی حکومت نے شق نمبر 245کے تحت فوج کو طلب کیا تھا فوج خود سے نہیں آئی تھی گولی چلانے کے لئے۔ حافظ جنرل منیر کے اس جواب سے کم از کم حکومت کا وہ بیانیہ تو دفن ہو گیا کہ اسلام آباد کے ڈی چوک میں کبھی کسی نے گولی نہیں چلائی اور یہ تحریک انصاف کا جھوٹا بیانیہ ہے۔ زرداری سے لیکر شہباز شریف تک اور عطا تارڑ سے لیکر محسن نقوی تک سب گلے پھاڑ پھاڑ کر یہ بیانات دے رہے تھے کہ اسلام آباد کے ڈی چوک میں نہ ہی کسی نے گولی چلائی اور نہ ہی کوئی شخص ہلاک یا زخمی ہوا۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر کوئی مارا گیا تو اس کی لاش پی ٹی آئی کیوں نہیں سامنے لاتی؟ حالانکہ تحریک انصاف نے ان تمام جاں بحق ہونیوالے پاکستانیوں کے نام، پتے، عمریں اور جنازوں کے ویڈیوز بھی اس جعلی حکومت کے وزیروں کو مہیا کر دئیے مگر ان جاہلوں کا خیال تھا کہ بقول گوئبلز جھوٹ بولواور اتنا تواتر کے ساتھ بولو کہ وہ سچ سمجھا جانے لگے حالانکہ جرمنی کے نازی حکمران اور ایڈولف ہٹلر کے جانشین جوزف گوئبلز کا جھوٹ کا وہ نظریہ 1945ء میں تو شاید کارآمد ہوتا ہو گا مگر 2025میں سوشل میڈیا کی موجودگی میں وہ جھوٹ کا نظریہ اپنی موت آپ مر چکا ہے۔ سی این این، فوکس نیوز، بی بی سی اور وائس آف امریکہ کی ویور شپ میں کمی آج اس بات کا ثبوت ہے کہ لوگوں نے سرکاری یا یہودی میڈیا کو فالو کرنا چھوڑ دیا ہے اور اب ہر ایک اپنے ہاتھ کی ہتھیلی پر آئی فون کے ذریعے ایک اپنی ذات میں خود میڈیا بنا ہوا ہے۔ جنرل عاصم منیر کے اس اعتراف جرم کے بعد اور جھوٹ کے بیانیے کے غلط ثابت ہونے کے بعد اب وزیر اطلاعات بندر نما شخص عطا تارڑ کو خود اپنے ہاتھوں سے اپنے منہ پر کالک مل لینا چاہیے کیونکہ اس شخص نے چودہ شہداء کا جتنا مذاق اڑایا اور ان کے لواحقین کا جس قدر دل دکھایا وہ کسی بھی نرمی کا حقدار نہیں ہے۔ یاد رہے کہ جعلی وزیراعظم شہباز شریف ایک پریس کانفرنس میں ڈی چوک کی قاتلانہ کارروائی کا سہرا جنرل عاصم منیر کے سر باندھ چکے ہیں جبکہ وزیر داخلہ محسن نقوی کا بیان بھی ریکارڈ پر موجود ہے جس میں کہا گیا تھا وہ ان احتجاج کرنے والوں پر گولیاں چلانے سے بھی گریز نہیں کرینگے، وہ کیا کہتے ہیں کہ
جب ٹش لگی پھٹنے، نیاز لگی بٹنے
انٹرنیشنل جوڈیشل کارروائی کے خطرے سے ڈر کر اب جنرل عاصم منیر نے یہ بیان گنڈاپور کے ذریعے دلوایا ہے کہ فوج تو آرٹیکل 245کے تحت ڈی چوک گئی تھی۔ اس حوالے سے بھی پاکستان کی سپریم کورٹ اصغر خان کیس اور انیتا تراب کیس میں یہ فیصلے دے چکی ہے کہ کسی بھی سرکاری عہدیدار پر یہ لازم نہیں ہے کہ وہ کسی غیر قانونی اور غیر انسانی حقوق کی پاسداری کرے۔ حافظ جی اگر یہ کہنے کی کوشش کررہے ہیں کہ اگر ڈی چوک میں گولی چلائی بھی گئی تو وہ وفاقی حکومت کے 245کے تحت بلائے جانے کے بعد چلائی گئی۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ آج ملک میں کس کا حکم اور کس کی حکومت چل رہی ہے۔ گزشتہ ڈھائی تین سالوں سے صرف ایک ڈکٹیٹر جنرل حافظ سید عاصم منیر شاہ تمغۂ امتیاز ملٹری کا حکم چل رہا ہے۔ حافظ جی اتنے بھولے بھی نہیں ہیں کہ اس ملک خداداد میں اس وقت کس کا سکہ چل رہا ہے۔ صرف ایک مثال ہی کافی ہے۔ گزشتہ تین ہفتوں سے اے آر وائی نیوز پر پروگرام آف دی ریکارڈ کے میزبان کاشف عباسی لاپتہ ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے پروگرام میں فافن کا آٹھ فروری کے انتخابات میں دھاندلیوں کی رپورٹ کا حوالہ دے دیا تھا جو جنرل صاحب کو بہت ناگوار گزرا۔ اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ فوج نے حکومت کی کال پر ڈی چوک میں گولیاں چلائی تھیں تو کیا حکومت نے کہا تھا کہ کون سی اسٹرٹیجی بنائی جائے؟ پورے علاقے کی بتیاں بجھا دی جائیں؟ بلڈنگوں پر آرمی کے اسنائپرز بٹھا دئیے جائیں؟ مرنے والوں کی لاشیں چوک پر سے غائب کر دی جائیں؟ سڑکوں پر جما ہوا خون راتوں رات پانی کے ٹینکرز کے ذریعے دھو دیا جائے؟ یعنی عذرِ گناہ بدتر از گناہ۔ یہ ایسا ہی ہے کہ اگر میں کسی شخص کو گولی مار کر ہلاک کر دوں اور عدالت میں جا کر یہ عذر دوں کہ مجھے تو میرے باس نے یہ حکم دیا تھا، لہٰذا مجھے اس قتل سے باعزت بری کیا جائے، نہیں حافظ جی ایسا نہیں ہوتا، مانا کہ آپ ایف اے پاس اور حافظ قرآن ہیں مگر دنیا کی نظر میں آپ کے اچھے نمبروں سے ایف اے پاس کرنے یا قرآن مجید کو حفظ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس وقت پاکستان میں جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ صرف ایک شخص حافظ منیر کے کہنے پر ہورہا ہے۔ عدلیہ سے اڈیالہ جیل تک میڈیاسے بنی گالہ تک چولستان سے میلہ مویشیاں تک، اغواء برائے بیان سے گمنام افراد تک، پولیس گردی سے لیکر دہشت گردی تک، ہر کام اورہر کارروائی کے پیچھے صرف ایک ڈکتیٹر کا ہاتھ ہے اور وہ ہے جنرل حافظ سید عاصم منیر شاہ تمغۂ امتیاز ملٹری۔ پاکستان میں اس وقت غیر اعلانیہ مارشل لاء نافذ ہے۔ ایک ڈیپ اسٹیٹ قائم ہے جس کا ڈی فیکٹو مالک یہی شخص ہے۔ ملک کے دو صوبوں بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں ایک کے بعد ہر دوسرے ہفتے دہشت گرد حملے کررہے ہیں اور اب وہ صرف ملٹری کانوائے پر حملہ کرتے ہیں یا پھر مسافروں سے بھری بسوں کے لوگوں کو نیچے اتار کر،ان کے شناختی کارڈ چیک کر کے کہ آیا وہ شیعہ ہے یا پھر پنجابی ،بھری سڑک پر سرعام گولیاں مار کر ہلاک کررہے ہیں۔ بلوچستان میں کوئٹہ کو چھوڑ کر ہر شاہراہ پر بی ایل اے کے اسلحہ بردار لوگوں اور آرمی کے لوگوں کو گولیاں ماررہے ہیں۔ ان ساری دہشت گردانہ کارروائیوں کی سرکوبی کرنا، آرمی اورآرمی چیف کی ذمہ داری، ملک کی خفیہ ایجنسیوں کا دائرہ اختیار ہے مگر ہمارے سپہ سالار تو کبھی چولستان میں کسی کو محبت بھری نظروں سے تاڑ رہے ہیں یا پھر میلہ مویشیاں میں راحت فتح علی خان کے رومانوی نغمات سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ ساری انٹیلی جنس ایجنسیاں آئی ایس آئی، آئی بی، ایم آئی، ایف آئی اے تو کبھی چولستان اور کبھی میلہ مویشیاں میں تعینات ہے؟ حافظ صاحب آئی ایس پی آر کے ’’دشمناسن‘‘ جیسے گونوں کو ریلیز کرنے سے دہشت گردی ختم نہیں ہوتی، کجھ تسی وی اس طرف دھیان دو۔