بغلی گھونسے کا آخری وار ؟
بغلی گھونسہ کے اُردو لغت میں بہت سے معنی ہیں !
ایک ہے مارِ آستین۔ ایک ہے قربت سے فائدہ اٹھا کر وار کرنے والا۔ ایک اور ہے غداری کرنے والا ۔ غرض کہ ہر معنی ایک ایسے کردار کی تصویر پیش کرتا ہے جس کے خون میں بے وفائی ہو، غداری کا خمیر ہو۔ یعنی آسان زبان میں ایک ایسا فرد جو احسان فراموش ہے، بے ضمیر ہے، اس ہاتھ کا کاٹنے والا ہے جس نے اسے پروان چڑھایا ہو، اس شاخ کو کاٹنے والا ہو جس نے اپنا سایہ دے کر اسے زمانے کی دھوپ سے بچایا ہو !
عمران خان کے خلاف، بلکہ اس کی بے محابا دشمنی میں پاکستان کی عسکری قیادت کا جو یزیدی ٹولہ پیش پیش ہے اس نے وہی کام کیا ہے جو بغلی گھونسہ کرتا ہے !
عاصم منیر، جو یزیدی ٹولہ کا سرغنہ اور سردار ہے اس نے بغضِ عمران میں اپنے تاش کے پتوں کا آخری ترپ کا پتہ بھی استعمال کرلیا ہے، عمران اور عمران کی اہلیہ بشری بی بی کو اپنے تابع فرمان ایک ایسی عدالت سے القادر ٹرسٹ کے عنوان سے جو جھوٹا اور بوگس مقدمہ بنایا گیا تھا اس میں ایک رسوائے زمانہ شخص سے، جسے میں منصف یا جج کا لاحقہ دیکر عدالت کے نظام ِ انصاف و عدل کو رسوا کرنے کی غلطی نہیں کرونگا !
عمران خان کے خلاف ویسے تو یزیدی عسکری ٹولہ نے لگ بھگ دو سو کے قریب لغو اور بیہودہ مقدمات بنائے ہوئے ہیں لیکن ان میں سے سب سے بڑھکر جو بے بنیاد، بلکہ لچر، مقدمہ بنایا گیا ہے وہ القادر ٹرسٹ کے حوالے سے ہے۔
القادر ٹرسٹ کیس یا معاملہ ہے کیا ؟ یہ جانے بغیر یہ اندازہ نہیں ہوسکتا کہ جو جرنیل بزعمِ خود پاکستان کے محافظ و مختار بنے بیٹھے ہیں وہ کیسی پست ذہنیت کے مالک ہیں۔
القادر ٹرسٹ کیس کی بنیاد میں دراصل پاکستان کے دو رسوائے زمانہ کاروباری شامل ہیں : ایک نواز گھرانہ اور دوسرا وہ ملک ریاض جسے پاکستان میں تعمیراتی منصوبوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے اور جس کی بحریہ ٹاؤن کے تعمیراتی ادارہ میں ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان کے اسیرِ زر اور لالچی جرنیل اور دیگر افسران ملازمت کیلئے اس کے آگے پیچھے پھرتے رہتے ہیں، اس کے در پہ ملازمت کیلئے جبیں سائی کرنے میں یہ غرض کے بندے، یہ زر کے پجاری شرم کے بجائے فخر محسوس کرتے ہیں۔
نواز کے بیٹوں نے لندن میں نو ارب کی ایک جائیداد اٹھارہ ارب میں ملک ریاض کو فروخت کی۔
پہلی بات تو یہ کہ اگر کوئی حیادار اور اصول پسند معاشرہ ہوتا ، اور جس میں جمہوری حکومت ہوتی تو سب سے پہلا سوال تو نواز شریف اور اس کے بیٹوں سے کرنا چاہئے تھا کہ ان کے پاس کہاں سے اتنی دولت آئی جو نو ارب کی جائیداد کے مالک بن بیٹھے اور وہ بھی لندن کے مہنگے ترین رہائشی علاقہ میں !
دوسرا سوال ملک ریاض سے ہونا چاہئے تھا کہ اس نے نو ارب کی جائیداد دوگنی قیمت پہ کیوں خریدی؟ کیا وہ شریف خاندان کو رشوت دینا چاہتا تھا کیونکہ اس کا اپنا ہی معروف بیان یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی کام سرکار سے کروانے کیلئے اس کے پہیئے لگانے پڑتے ہیں۔ یعنی رشوت کی طاقت اور چمک سے کوئی کام بھی کروایا جاسکتا ہے اور ظاہر ہے کہ ایسا کام ہمیشہ ہی ناجائز ہوتا ہے !
پاکستان کے کرپشن زدہ نظامِ حکومت میں تو کس کو توفیق ہوتی کہ وہ اس کھلے ہوئی بے ایمانی کے سودے پر تحقیقات کرنا تو کجا کوئی سوال بھی کرتا لیکن برطانیہ کے انسدادِ کرپشن کے ادارہ نے اس میں گھپلے اور کرپشن کی بو سونگھ لی اور تحقیقات کرنے پر معلوم ہوا کہ ملک ریاض نے منی لانڈرنگ کے ذریعہ جو کالا دھن برطانیہ منتقل کیا تھا اسے سفید اور پاک کرنے کیلئے اس نے نواز شریف کے کنبہ کو منہ مانگی قیمت جائیداد کی دی جو مارکیٹ ریٹ سے کہیں زیادہ تھی !
المختصر، برطانیہ کی حکومت نے 190 ملین پاؤنڈ کی رقم جو ملک ریاض سے حاصل ہوئی تھی وہ حکومتِ پاکستان کو لوٹادی اس شرط پر کہ ملک ریاض سے جو سمجھوتہ ہوا تھا اسے صیغہء راز میں رکھا جائے۔ وہ رقم پاکستان کی عدالتِ عالیہ میں جمع ہوگئی۔ عمران حکومت سے یہ غلطی ہوئی کہ اس رقم کو اس مد میں استعمال کرنے کی اجازت ملک ریاض کو دے دی جس کے تحت ملک ریاض پر عدالتِ عالیہ نے 460 ارب روپے کا جرمانہ کیا تھا کیونکہ اس نے ڈکیت زرداری کے تعاون سے کراچی کے مضافات میں اپنے رہائشی منصوبہ کیلئے سستی زمین حاصل کی تھی۔
ظاہر ہے کہ رسوائے زمانہ ڈکیت زرداری نے ملک ریاض پہ مفت تو احسان نہیں کیا ہوگا۔ نہ جانے کتنے ارب رشوت وصول کی ہوگی۔ ویسے بھی ملک ریاض نے اس ڈکیت کو، جس کی ہوس کا پیٹ ہی کسی طرح نہیں بھرتا، اپنی جیبِ خاص سے لاہور میں محل بناکے دیا ہے۔
عسکری یزیدی ٹولہ نے آج تک نہ ملک ریاض سے کوئی سوال کیا، نہ زرداری یا نواز شریف سے کہ اس گول مال میں ، اس گھپلے میں ان سب بد عنوان افراد اور کنبوں نے کتنا مال بنایا ہے۔
سوال یوں نہیں کیا کہ ایسے ہی بدعنوان اور گلے گلے تک کرپٹ سیاسی شعبدہ بازوں کو تو عسکری طالع آزماؤں نے پاکستان کی بدنصیب تاریخ میں اپنی سہولت کیلئے ہمیشہ ہی پروان چڑھایا ہے اور ان کی سرپرستی کی ہے۔ ایسے ہی چوروں اور ڈکیتوں کے تعاون سے تو جرنیلوں کا کاروبار چلتا اور چمکتا ہے۔ وہ جو فوج کی سرپرستی میں اسی (80) سے زائد تجارتی اور صنعتی ادارے پھل پھول رہے ہیں وہ ایسے ہی گندم نما جو فروشوں کے تعاون کے مرہونِ منت ہیں !
یہ ہوس کے مارے جرنیل چوروں کے گرہ کٹ بھائی ہیں۔ ویسے بھی ہمارے بزرگ کہہ گئے ہیں کہ
کند ہم جنس باہم پرواز
کبوتر با کبوتر باز بہ باز
سو چوروں اور ڈاکوؤں سے ہمارے خود ساختہ محافظوں کی یاری پرانی اور گہری ہے۔ دونوں مل بانٹ کے پاکستان کو لوٹ رہے ہیں اور لوٹی ہوئی دولت کو مغرب کے بنکوں میں جمع کر رہے ہیں۔ دنیا کما رہے ہیں لیکن عاقبت کی آگ میں جہنم کے کندے بننے کی یہ سب تیاریاں ہیں !
عمران کے خلاف مقدمہ مالی منفعت کے حوالے سے انتہائی بے بنیاد ہے۔ الزام یہ ہے کہ ملک ریاض کو فائدہ پہنچاکر اس نے القادر یونیورسٹی کیلئے زمین حاصل کی!
تو یہاں اصل پریشانی مال یا زمین کے فائدہ سے زیادہ اس بات پر ہے کہ یہ عمران ملک کے بچوں اور نوجوانوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کیوں کرنا چاہتا ہے جبکہ نیم خواندہ عسکری طالع آزماؤں کا رویہ تو علم دشمنی کا ہے اور یہ ایک اور بھی وجہ ہے کہ یزیدی عسکریوں اور کرپٹ سیاستدانوں کے اہداف ملتے جلتے ہیں۔ وہ بھی جرنیلوں کے اس ایجنڈا سے کامل اتفاق رکھتے ہیں کہ قوم میں علم کی روشنی نہیں پھیلنی چائیے کیونکہ اگر قوم تعلیم یافتہ ہوگئی تو ان کے پیچھے بھیڑ بکریوں کی طرح چلنا بند کردیگی ۔ اگر یہ ہوا تو ان طالع آزماؤں اور ان کے گماشتوں کا تو کاروبار ہی ٹھپ ہوجائے گا !
عمران دشمنی میں عاصم منیر ظلم و شقاوت کی ہر حد پار کرچکا ہے۔
اور یہ وہ منافق ہے جسے حافظِ قرآن ہونے کا دعوی ہے ! اگر یہ دعوی سچ بھی ہے تو طوطے کی طرح قرآن رٹ لینے سے کوئی قرآن کا عالم نہیں ہوجاتا۔ ایک مسلمہ اصول ہے کہ جو قرآن کا مفہوم اور منشاء سمجھتا ہے وہ ظالم نہیں ہوسکتا جبکہ عاصم منیر کے دورِ یزیدی میں پاکستان کے عوام پر عمران کے ساتھ ساتھ جو بھی مظالم ہوئے ہیں اور جس طرح انسانی حقوق کو پامال کیا گیا ہے، جیسے جمہوری اقدار کا مذاق اڑایا گیا ہے، اور سب سے بڑھ کر جس طرح عاصم منیرکے حکم پر 26 نومبر کی رات کو اسلام آباد کے ڈی-چوک میں بیگناہوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی اس کے بعد تو اس میں ذرہ برابرشک و شبہ نہیں رہ جاتا کہ یہ یزید جو کر رہا ہے وہ قائد اعظم کے پاکستان کی روح کو مٹی میں ملانے کے مترادف ہے !
در اصل عاصم منیر اور اس کا یزیدی ٹولہ خود اپنے ہی بچھائے ہوئے جال میں پھنس چکا ہے۔
آج کی دنیا میں جو انٹرنیٹ کی دنیا ہے دنیا کی آنکھ سے پاکستان پر مسلط فسطائیت ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ اب یزیدیوں کو اندیشہ بلکہ خطرہ آنے والے صدر ٹرمپ سے ہے کہ انہوں نے اگر عمران کے حق میں مطالبہ کردیا تو ان سامراجی غلام یزیدیوں میں اتنا بوتا کہاں ہے کہ وہ اپنے سرکارِ عالی مدار کی بات ٹال سکیں!
عمران ان بزدل اور ملت فروش جرنیلوں کی رگ رگ سے واقف ہے اور جانتا ہے کہ یہ کائر اس پر وار کرتے ہیں جسے کمزور سمجھتے ہیں۔
لیکن عمران کمزور نہیں ہے۔ ایک تو اس کی اپنی ذات میں وہ عزمِ راسخ ہے جو صرف ان میں ہوتا ہے جنہیں اپنے موقف کی سچائی پر اعتماد ہی نہیں بلکہ یقینِ کامل ، مکمل ایمان، ہوتا ہے۔ عمران حق پر ہے لہذا اس کا ان بغلی گھونسوں سے ڈرجانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوا۔ اور پھر عمران اکیلا نہیں ہے۔ اس کے ساتھ پاکستان کی عوام ہیں، قوم کے نوجوان ہیں جو اس ملک کا مستقبل ہیں۔
اس غلامِ یزید عدالت کے فیصلہ کے بعد عمران نے اڈیالہ جیل میں اپنے ساتھیوں اور صحافیوں سے گفتگو میں یہی تو کہا ہے کہ یہ ملت فروش جتنی چاہیں اس کے خلاف سزا کے فیصلے اپنی کٹھ پتلی عدالتوں اور بے ضمیر منصفوں سے دلواتے رہیں۔ ایسے بد نیتی کے فیصلے اس کے عزم کو متزلزل نہیں کرسکتے۔ وہ برسوں جیل کی سلاخوں کے پیچھے گذارنے کیلئے تیار ہے لیکن ان یزیدیوں کے ساتھ کوئی ڈیل، کوئی سودے بازی نہیں کرے گا !
لیکن کم ظرف جو کام کرتا ہے اس میں اپنی اوقات ضرور دکھا دیتا ہے۔
عمران کو مطعون کرنا تو یزیدیوں کا ایمان دھرم ہے لیکن یہ کیسا حافظ ہے جو یہ بھی نہیں جانتا کہ ہمارے دین میں اور ہماری تہذیب میں ملزم کی بیوی کو ملزم کے ساتھ عدالت کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا کرتے ! ہمارے معاشرہ میں عورت کا ایک مقامِ احترام ہے، اس کی تقدیس ہے جسے ملحوظِ خاطر رکھنا ہماری تہذیب کا لازمہ ہے لیکن یہ نیم خواندہ جرنیلی ٹولہ عمران کی دشمنی میں اتنا اندھا ہوچکا ہے کہ عمران کی شریکِ حیات بشری بی بی کو بھی عدالت میں گھسیٹ لیا اور اس رذیل جج نے جو یزیدیوں کا پالن ہار ہے بشری بی بی کو بھی سات سال کی سزا سنادی !
وہ جو کہاوت ہے ناں کہ ٹکے کی ہانڈی گئی مگر کتے کی اوقات پہچانی گئی تو اسی کے مصداق عاصم منیراور گماشتوں نے دنیا کو دکھا دیا کہ وہ کتنے کم ذات اور کم اوقات ہیں!
دیکھا جائے تو عاصم منیر اور ٹولہ کی حالت اس عقل سے بے بہرہ لیکن شہسواری کے زعم میں مبتلا سوار کی ہے جو چیتے کی پیٹھ پہ سواری کررہا ہے لیکن اب اس کے پسینے چھوٹ رہے ہیں کہ جب وہ اترے گا تو چیتا اسے پھاڑ کھائے گا !
تو اب قوم کو پوری سنجیدگی سے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ پاکستان کو چاہتی ہے یا ان یزیدی جرنیلوں کو جنہوں نے ملک و قوم کو سوائے رسوائی ، ذلت اور بربادی کے اور کچھ نہیں دیا۔
یہ صورتِ حال وہ ہے جہاں قوم کی تقدیر کا فیصلہ ہوتا ہے۔ بنگلہ دیش کی مثال ابھی تازہ ہے جس کے غیور عوام، بالخصوص نوجوانوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کا ملک ان کیلئے عزیز ہے اور ملک کا مستقبل فسطائیت کے تحت شدید خطرہ میں ہے۔ لہٰذا وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور فسطائیت کو اپنے ملک سے بیدخل کردیا۔ یہی فیصلہ پاکستانی قوم کو بھی کرنا ہے اور آج ہی کرنا ہے کل نہیں اسلئے کہ کل پر ان یزیدیوں کے انجام کو چھوڑنے میں یہ قوی احتمال ہے کہ بہت دیر ہوجائے گی اور جتنی مہلت ان کو ملے گی وہ پاکستان اور پاکستانی قوم کیلئے نیک فال نہیں ہوسکتی۔ یہ طے ہے !
ضروری ہوگئی ہے ان یزیدیوں سے نجات
وگرنہ قوم کی تقدیر میں ہیں لات و منات
یزیدی بن گئے خود ساختہ محافظِ قوم
انہیں نکالا نہیں تو کبھی نہ ہوگا ثبات!