فتنہ الخوارج یا فتنہ الجہالت
گزشتہ سال کے اواخر میں وفاقی وزارت داخلہ نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے تمام سرکاری محکموں کو ایک ہدایت نامہ جاری کیا تھا کہ آئندہ سے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو فتنہ الخوارج کے نام سے پکارا اور لکھا جائے گا نیز یہ کہ تمام سرکاری دستاویزات میں کالعدم دہشت گرد تنظیموں سے منسلک افراد کے لیے ’مفتی‘ یا ’حافظ‘ جیسے القابات بھی استعمال نہیں کیے جائیں گے، اس کی بجائے ان لوگوں کے ناموں سے پہلے لفظ ’خارجی‘ لکھا اور بولا جائے گا۔ اسی تسلسل میں آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل نے بھی صحافیوں کو بتایا تھا کہ حکومت پاکستان نے ٹی ٹی پی یعنی تحریک طالبان پاکستان کو ’فتنہ الخوارج‘ کے نام سے نوٹیفائی کر دیا ہے۔اب لازم ہے کہ اس دہشت گرد تنظیم کو فتنہ الخوارج کے نام سے لکھا اور پکارا جائے کیونکہ یہ ایک فتنہ ہے اور اس کا دین اسلام اور پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کو فتنہ قرار دینا تو درست ہو سکتا ہے ،اور اس سے اختلاف ممکن نہیں،لیکن ان منحرف شرپسندوں کوخوارج سے مماثل قرار دینا تاریخی حوالے سے صحیح معلوم نہیں ہوتا۔ اگرچہ ستم ظریف کا اب بھی تاثر یہی ہے کہ ان فتنہ گر طالب علموں کے بارے میں ہمارے ہاں ایک یا دو نہیں ، کئی طرح کے نرم گوشے پائے جاتے ہیں۔ کچھ یہی وجہ ہے کہ ان کو مسلمانوں کی سیاسی تاریخ میں سے جگہ نکال کر بٹھانے کی کوشش کیا جا رہی ہے۔ان پیشہ ور اور خانہ ساز دہشت گردوں اور مسلمانوں کی تاریخ میں خوارج قرار دیئے گئے لوگوں میں زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو خوارج سے تشبیہہ دینا پورے طور پر درست معلوم نہیں ہوتا۔خوارج ایک جنگی اور سیاسی عمل سے اپنی الگ سیاسی فکر اور نقطۂ نظر کی بنیاد پر جدا ہوئے تھے ۔ خوارج کے بارے میں علامہ اقبال کے ایک معروف مقالے The Political Thought In Islam (1908) (اُردو ترجمہ : خلافت اسلامیہ) کے مندرجات کا مطالعہ کرنے سے بہت سارے تاریخی حقائق اور حوالے واضح ہو کر سامنے آسکتے ہیں۔دہشت گردوں کو مسلمانوں کی تاریخ میں سے حوالے تلاش کر کے ان کے جیسا قرار دینا کئی اعتبار سے نامناسب بات ہے۔یہ اور ماضی میں اس طرح کے دیگر حوالے تلاش اور منطبق کرنے کی حکمت عملی کوئی اچھے نتائج سامنے نہیں لا سکی۔ ہماری سیاسی تاریخ میں انتخابات کے خلاف ایک احتجاجی تحریک کوتحریک نفاذ نظام مصطفی کے نام سے موسوم کیا گیا ،گویا سیاسی مقاصد کے لیے مذہبی جذبات کو استعمال کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔اس تحریک کا انجام مارشل لاء کی صورت میں سامنے آیا ۔ضیاءالحق کے مارشل لاء کے بعد پھر نفاذ نظام مصطفیٰ کا مطالبہ یا تحریک سننے میں نہیں آئی۔ میں ان عقلمندوں کی مبینہ فراست اور مشکوک دانش پر حیران و پریشان ہوتا ہوں ، جو اس طرح کے بیانیے تشکیل دیتے اور پھر ان کو جبراً رائج کرتے ہیں۔افغانستان میں روس کی آمد اور اس کے خلاف امریکی ایماء ، کرنسی اور اسلحے کی بنیاد پر لڑی جانے والی گوریلا جنگ کوجہاد کا نام دیا گیا،نہ صرف یہ بلکہ پورے پاکستان کے دل اور دروازے اس جہاد کے لیے کھول دیئے گئے۔افغانستان پر آئی افتاد کا افغان تو مقابلہ کرتے ہی ہیں، پر پاکستان کئی قدم آگے بڑھتے ہوئے افغانوں کی سیاسی اور اخلاقی حمایت تک رہنے کی بجائے عملی طور پر اس گوریلا جنگ کا حصہ بن گیا ، اور یہ فیصلہ کسی منتخب پارلیمان نے نہیں ،ایک ڈکٹیٹر نے تن تنہا کیا تھا۔ پھر چشم فلک نے دیکھا کہ پاکستان کے کوچہ و قریہ اور شہر و دیہات سے نوجوانوں کو جذبہ ایمانی اور شوق شہادت کی بنیاد پر اس پرائی گوریلا جنگ کا ایندھن بنا دیا گیا۔روس کے افغانستان سے نکلتے ہی امریکہ بھی اپنا پاندان اٹھا کر واپس نکل گیا۔ امریکہ کے لاتعلق ہوتے ہی رائج کی گئی مذہبی اصطلاحات تبدیل ہونا شروع ہو گیئں ،پہلے جو مجاہدین تھے اور جن سے ملنا امریکی صدر رونالڈ ریگن کے لیے فخر کی بات ہوا کرتی تھی،اچانک دہشت گرد قرار دے دیئے گئے۔ پہلے جو گوریلا جنگ جہاد ہوا کرتی تھی وہ دہشت گردی کہلانے لگی مگر طالبان چیزے دیگر تھے اور ہیں۔اس خانہ ساز برکت کو صرف افغانستان تک محدود رکھنے کی بجائے پاکستان میں بھی بنانے اور پھیلانے کی غلطی یہ سوچ کر کی گئی تھی کہ یہ جنگجو بوقت ضرورت کام آئیں گے۔افغانستان کے طالبان اگر امریکہ کی ضرورت تھے تو تحریک طالبان پاکستان یہاں کے عقلمندوں کا اثاثہ خیال کئے گئے ۔ان کی مدد سے افغانستان کے ساتھ تجارت کی بجائے اسمگلنگ کو محفوظ بنایا گیا ، ان کی مدد سے پاکستان میں سیاسی قتل بھی کروائے گئے۔یہ کرائے کی گوریلا جنگ کے ماہر تھے ، وہی کرتے رہے ،کبھی ان کو روکنے کی کوشش بھی کی گئی تو کچھ رک گئے کچھ باز نہ آئے۔یہی وہ مقام تھا جہاں سے اچھے طالبان اوربرے طالبان کا تصور سامنے آیا ۔اس وقت جو مشکل سامنے کھڑی ہے ،وہ یہی فتنہ یعنی منحرف اور بگڑے ہوئے جنگجو ہیں ،جن میں اب اچھے والے اور برے والےکی تمیز بھی باقی نہیں رہی ، جن کا پیشہ ہی مناسب معاوضے اور اسلحے کے عوض گوریلا جنگ کرنا ہے ۔پُرامن شہری بن کر رہنا ان کے لیے سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے ۔اب انہیں ہر اس ملک سے مدد ، تعاون، اور اسلحہ مل رہا ہے ،جن کا مقصد پاکستان کو ستانا اور تنگ کرنا ہے۔افغان طالبان بھی ان کو تحفظ اور محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رہے ہیں۔جب افغان طالبان سے کہا جاتا ہے وہ تحریک طالبان پاکستان کو افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں نہ دیں اور ان کو پاکستان کے حوالے کریں ،تو وہ حد درجہ بے یقینی سے ہماری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ پہلے آپ وزیرستان اور ملک کے دیگر حصوں سے ان کو نکالیں، پھر ہم سے بات کریں۔ اوپر سے یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی بعض سیاسی جماعتوں میں ان کے ہم خیال اور ہمدرد بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں۔جو ان فتنہ گروں کی طرح سمجھتے ہیں کہ ریاست پاکستان میں بھی ان کے ناپختہ تصور مذہب کا نفاذ ہونا چاہیے ۔جس بنیادی بات کی طرف ہماری مقتدرہ توجہ نہیں دیتی ،اور جان بوجھ کر نہیں دیتی، وہ یہ ہے کہ طالبان نامی کمیونٹی کے بیشتر اراکین نے پاکستان میں قائم مدرسوں میں تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔اور ان کے بیشتر اساتذہ یہیں پاکستان میں رہتے ،کاروبار اور سیاست کرتے اور مدرسے چلاتے ہیں ۔ان میں سے کئی پارلیمان کا حصہ بھی ہوتے ہیں۔تو پھر یہ فتنہ فساد والے سارے طالبعلم چاہے افغانی ہوں چاہے پاکستانی ،ان کے مبلغ دینی علم کی اساس پاکستانی مدرسوں کی تعلیم پر ہی مدار کرتی ہے۔ پاکستان کے حوالے سے فتنہ گری کرنے والے دہشت گردوں اور شرپسندوں کو فتنہ الجہالت قرار دیا جا سکتا ہے۔یہ جس طرح اور طرز کا نظام حکومت پاکستان میں یا پاکستان کے سرحدی اور قبائلی علاقوں میں رائج کرنا چاہتے ہیں ،اس کا تعلق اسلام سے نہیں ، کج فہم دہشت گردوں کی غلط تعلیم و تربیت کے ساتھ ہے۔ ان کی فہم دین ناقص اور تعبیر دین مسلکی جھاڑیوں میں الجھی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ بس اس سے زیادہ کچھ کہنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ ایسے میں اگر کوئی شرپسند اور فتنہ ساز طالب علم میر تقی میر کا یہ شعر گنگناتا ہوا نظر آ جائے ،تو حیران ہونے کی ضرورت نہیں، کہ؎
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا!