یزید پاکستانی اور کم ظرف گماشتے !

یزید پاکستانی اور کم ظرف گماشتے !

اللہ گنجے کو ناخن نہ دے ! ناخن مل جائیں تو اپنا ہی سر کھجاتے کھجاتے مر جاتا ہے!
انسان کا ظرف دو ہی چیزوں سے آزمایا جاتا ہے: دولت سے یا اقتدار سے۔ خاندانی انسان کے ہاتھوں میں دولت یا اقتدار محفوظ ہوتے ہیں کیونکہ اس نے آنکھ کھول کے ان کو دیکھا ہوتا ہے، برتا ہوتا ہے۔ لیکن کم ظرف کو ان دو میں سے جو بھی ہاتھ لگ جائے تو وہ پاگل ہوجاتا ہے!
اب ہمارے وطنِ مرحوم میں قوم کے ساتھ یہ بھیانک مذاق ہوا کہ عسکری طالع آزماؤں کے الطاف و کرم سے دولت اور اقتدار ان چھٹ بھیوں کو مل گئے جنہوں نے غربت اور افلاس کی گود میں آنکھ کھولی تھی اور پھر ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ یہ چھٹ بھیے خاندانی بھی نہیں تھے۔
رسول اللہﷺ کی ایک متفق علیہ حدیث ہے کہ کم نسب کی اطاعت نہ کرنا۔
لیکن کیا کیا جائے کہ عسکری طالع آزماؤں کا اپنی چودہراہٹ کو دوام دینے اور اپنے آپ کو پاکستان پر مسلط کئے رکھنے کا جو ملک دشمن اور قوم دشمن ایجنڈا ہے اس کو آگے بڑھانے اور فروغ دینے کیلئے اسی طرح کے چھٹ بھیے گماشتے درکار ہوتے ہیں جیسے عمران کے خلاف اپنے توسیعی عزائم کی سازش کرنے والے طالع آزماؤں نے اس بدنصیب قوم پر مسلط کردئیے ہیں!
یہ رونا کوئی آج کا نہیں ہے، ستر برس پرانا ہے تو پھر ہم کیوں اس کا بار بار ذکر کرتے تھکتے نہیں ہیں؟
تھکتے یوں نہیں ہیں کہ وہ جو اپنے ماضی کو یاد نہیں رکھتے، خصوصا” ماضی کی غلطیوں کو، وہ انہی غلطیوں کو بار بار دہراتے رہتے ہیں اور ماضی کی غلطیوں سے سبق نہ سیکھنے کےسبب مزید غلطیاں کرتے رہتے ہیں اور اپنے مصائب میں اضافہ ہی کرتے رہتے ہیں۔
پاکستان کے پہلے عسکری طالع آزما، جنرل ایوب خان ، جو آگے چل کر خود ساختہ فیلڈ مارشل بھی ہوگئے تھے، نے بھٹو خاندان کی پرورش کی، اسے پاکستان کی سیاست میں مقام عطا کیا۔
بھٹو خاندان کا انتخاب یونہی الل ٹپ نہیں تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو ایوب کی کابینہ میں شامل کرنے والا اس وقت کا صدر اور ایوب کی اقتدار اور ریاست پر قبضہ کرنے کی سازش میں برابرکا شریک اسکندر مرزا تھا غدار وطن، ننگِ بنگال، ملت فروش میر جعفر کا پڑپوتا تھا۔ سو اسکندر مرزا کے خون میں ملت فروشی تھی۔ اور بھٹو خاندان کے چشم و چراغ ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اسکندر مرزا کی بوٹ پالش میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی۔ ایک خط میں جو بھٹو نے اپنے مربی اسکندر مرزا کو نیویارک سے تحریر کیا تھا کیونکہ اسکندر مرزا نے نوجوان بھٹو کو اس وفد میں شریک کردیا تھا جو پاکستان سے ہر سال اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کیلئے نیویارک بھیجا جاتا تھا!
بھٹو کا وہ خط آج بھی گوگل پر پڑھا جاسکتا ہے جس میں اسکندر مرزا کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ‘آپ کا مقام تاریخ میں پاکستان کے بانی محمد علی جناح سے اوپر ہوگا۔”
اسکندر مرزا کو اپنا خاندانی پس منظر تو معلوم تھا ہی لیکن بھٹو خاندان کی تاریخ بھی وہ جانتے تھے۔ مرزا کو بخوبی معلوم تھا کہ بھٹو خاندان کی ہزاروں ایکڑ زمین کہاں سے آئی تھی!
اسکندر مرزا کی یاری ذوالفقار علی بھٹو کے والدِ بزرگوار شاہنواز بھٹو سے تھی جو نواب جونا گڑھ کے دیوان یعنی وزیر تھے۔ شاہنواز بھٹو نے نواب صاحب کی سادہ لوحی سے ناجائز استفادہ کیا اور ان کی ہزاروں ایکڑ زمینیں جو سندھ میں تھیں ان کی ملکیت اپنے نام کرلی!
شاہنواز بھٹو کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے جونا گڑھ کے دیوان ہوتے ہوئے اپنے دوست جواہر لعل نہرو کو، جو آزاد بھارت کے وزیرِ اعلیٰ بن گئے تھے، خط لکھ کر جونا گڑھ پر لشکر کشی کی دعوت دی جبکہ نواب جونا گڑھ اپنی ریاست کا پاکستان سے الحاق چاہتے تھے۔
سو ذولفقار علی بھٹو میں بھی ملت فروشی اور اپنے فائدہ اور منفعت کیلئے ملت کے اعلیٰ تر مفاد کو قربان کردینے کا خمیر اتنا ہی تھا جتنا اسکندر مرزا کے خون میں ملک و قوم سے غداری کرنے کا تھا۔ لہٰذا فارسی کے اس مقولہ کے عنوان سے کہ
کند ہم جنس باہم پرواز
کبوتر با کبوتر باز بہ باز
اسکندر مرزا اور ساتھی سازشی نے بھٹو خاندان کو پاکستان پرمسلط کیا اور دنیا نے دیکھا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے مفاد اور اقتدار کیلئے اپنے دور کے عسکری طالع آزما، جنرل یحیٰی کے ساتھ مل کر قائد اعظم کے پاکستان کو دولخت کیا اور پھر ریاست پر اپنا حق جتایا!
محسن بھوپالی نے ایوب کے دورِ اقتدار میں اپنا وہ لافانی قطعہ کہا تھا
جاہل کو اگرجہل کا نعام دیا جائے
اس حادثہء وقت کو کیا نام دیا جائے
میخانہ کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے
کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے!
نابغہء روزگار مرزا اسد اللہ غالب نے مومن خان مومن کے اس ایک شعر پر اپنا دیوان قربان کردینے کی پیشکش کی تھی
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا!
اور ہم کہتے ہیں کہ محسن بھوپالی، جو صاحبِ طرز شاعر تھے اگر زندگی میں صرف یہ ایک قطعہ ہی کہتے تب بھی لافانی رہتے۔
شاعر اپنے وقت کا نباض ہی نہیں ہوتا اس کا شعری ادراک آنے والے زمانوں کو بھی دیکھ سکتا ہے اور محسن بھوپالی نے اپنے اس ایک قطعہ میں پاکستانی قوم کی پوری تاریخ کو رقم کردیا ہے!
تو ہم یہ کیوں رونا رو رہے ہیں کہ عسکری طالع آزماؤں نے اپنے مفاد اور اپنے اقتدار کیلئے ان سیاستدانوں کی سرپرستی کی، بلکہ ایجادِ بندہ کے طور پہ وہ سیاسی گھرانے پیدا کئے جو پاکستان پر عسکری طالع آزماؤں کے اشتراک سے مسلسل مسلط چلےآرہے ہیں اور جہاں عسکری طالع آزما پاکستان کو اپنی موروثی جاگیر کی طرح سے استعمال کرتے آئے ہیں اسی طرح یہ ان کے بنائے ہوئے سیاسی رہنما دونوں ہاتھوں سے پاکستان کو لوٹ رہے ہیں۔
بھٹو خاندان کا داماد ہی تو ہے جس کی ڈکیتی اور لوٹ مار کی شہرت چار دانگِ عالم میں ہے اور یورپ کے کئی ممالک کے اسکولوں کے تدریسی نصاب میں اس کی کرپشن کا احوال بچوں کو پڑھایا جاتا ہے کہ بقول ان کے "تیسری دنیا” کے سیاسی رہنما کس قماش کے لوگ ہیں۔
لیکن پاکستان کی بدنصیبی کہ زرداری جیسا ڈکیت ملک کاایک بار صدر بنا اور پھر عسکری طالع آزمائے وقت، یزید عاصم منیر کے گٹھ جوڑ سے وہ ملک کا دوسری بار بھی صدر بن گیا!
یہ ہے پاکستانی قوم کا اپنے ماضی کی غلطیوں کا یاد نہ رکھنے کا خمیازہ جو ان کی نسلیں بھگتتی رہینگی اور نہ جانے کب تک زرداری جیسے مارِ آستین اس کا مقدر بنے رہینگے محض اسلئے کہ اس قوم کی یاد داشت اور حافظہ اتنا کمزور ہے کہ یہ اپنے ہی ماضی کی غلطیوں کو یاد نہیں رکھتی اور بار بار انہیں دہراتی رہتی ہے!
عسکری طالع آزما جنرل ضیا الحق کی قوم کو دین نام کا شریف خاندان ہے جس کے حسب نسب کا احوال پاکستانی قوم کو اچھی طرح معلوم ہے لیکن چونکہ اس میں اتنی اخلاقی جراءت نہیں کہ اپنی تقدیر کو خود بدل سکے، اور اسی کمزوری کے سبب قدرت کی نصرت سے بھی محروم ہے، لہٰذا شریف خاندان اپنے عسکری سہولت کاروں اور سرپرستوں کی آشیر باد سے پاکستان کے سینے پر برسوں سے مونگ دلتا آیا ہے۔
یزیدِ وقت عاصم منیر نے تو حد کردی۔ وہ کام کیا ہے جو اس سے پہلے والے عسکری طالع آزما نہیں کرسکے تھے۔ پاکستان کی اس سے بڑی بدنصیبی اور کیا ہوسکتی تھی کہ زرداری جیسا رسوائے زمانہ ڈکیت ملک کا صدر ہے۔ مہا چور شہباز شریف وزیر اعظم ہے اور ملک کا سب سے بڑا صوبہ اس کی بھتیجی کے تسلط میں ہے۔
کم ظرفی اسکےمنہ سے بولتی ہے۔ مریم نواز فرعون کے لہجہ میں دعوی کررہی ہے کہ وہ چاہے تو عمران خان کا حقہ پانی بند کرسکتی ہے۔
یہ ہے کم ظرف کے ہاتھوں میں جام آنے کا ماجرا اور احوال۔
یہ عسکری یزید اور گماشتے عمران کے کیوں دشمن ہیں یہ سب سمجھ میں آجاتا ہے اگر پاکستان پر عسکری طالع آزماؤں کی دست درازیاں اور چیرہ دستیاں یاد ہوں۔ یہ ملک کو کنگال کرچکے ہیں زرداری اور شریف خاندان جیسے ڈاکوؤں اور چوروں کی سرپرستی اور معاونت سے لیکن ہوسِ اقتدار ہے کہ پوری نہیں ہوتی۔
عمران سے دشمنی اسلئے ہے کہ وہ پاکستان پر حکمرانی کو اس کینسر سے پاک کرنا چاہتا ہے جو پاکستان کو اندر ہی اندر کھاگیا ہے، دیمک کی طرح چاٹ گیا ہے۔
اب طالع آزما بدحواس ہیں، پریشان ہیں کہ آنے والا ٹرمپ کا دور ان کے حق میں نیک فال نہیں ہوگا۔ اقتدار کم ظرفوں کے ہاتھ لگنے کا ایک بڑا حادثہ یہ بھی ہوتا ہے کہ جاہل اور نیم خواندہ اپنے آپ کو نشہء طاقت و اقتدار سے مغلوب عقلِ کل سمجھنے لگتے ہیں۔ اسی نشہ میں عمران کیلئے جال بچھانے کا ڈول ڈالا گیا لیکن عمران نے وہ کانٹا نگلنے کی حماقت نہیں کی جو اسے پھنسانے کیلئے ڈالا گیا تھا۔
اب عمران نے طالع آزماؤں کو کھلی وارننگ دے دی ہے۔ 31 جنوری تک اگردو طرفہ مذاکرات جو کٹھ پتلی حکومت اور تحریکِ انصاف کے مابین ہورہے ہیں کسی فیسلہ پر منتج نہیں ہوتے تو پھر ان مذاکرات کے ناٹک پر عمران خان کی جانب سے پردہ گرادیا جائے گا!
طالع آزماؤں اور ان کی کٹھ پتلیوں اور گماشتوں نے دنیا بھر میں پاکستان کو جس طرح رسوا کیا ہے پاکستان کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اور طالع آزما بھی ہوا کا رخ دیکھ کر یہ ادراک تو کر ہی سکتے ہیں کہ ان کے حق میں بادِ صبا نہیں جو غنچے کھلاتی ہے بلکہ بادِ صرصر ہے جو ہرے بھرے گلشن اجاڑ دیتی ہے۔
نئے سال کیلئے برہمنوں نے کہا ہے کہ عمران کے حق میں یہ سال اچھا ہوگا اور طالع آزما یزیدوں اور ان کے گماشتوں کیلئے ناسازگار!
ویسے بھی اللہ کی رحمت سے مایوسی کفر ہے لیکن وہی اللہ جو اپنی رحمت کی آس دلاتا ہے اور بار بار تلقین کرتا ہے کہ اس سے مایوس نہیں ہونا چاہئے یہ بھی کہہ چکا ہے، اپنی کتابِ مبین میں، کہ وہ اس قوم کی تقدیر نہیں بدلتا جو اپنی تقدیر بدلنے کیلئے کوشش اور سعی نہیں کرتی!
اب فیصلہ پاکستانی قوم کا ہے کہ وہ انہیں یزیدیوں اور کٹھ پتلیوں کی غلامی میں رہنا چاہتی ہے یا عمران کی قیادت میں آزادی حاصل کرنا چاہتی ہے؟

Ejaz Farooqi

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے