پاکستان کا دارالحماقت:افغانستان

پاکستان کا دارالحماقت:افغانستان

میں ستم ظریف کے اس خیال کو تو قطعاً تسلیم نہیں کرتا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد سو جوتے اور سو پیاز کھانے کے اصول پر مدار کرتی ہے۔لیکن ہاں یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی ہمیشہ ہر معاملے میں مثالی طور پر ناقص اور نقصان دہ ثابت کیوں ہو جاتی ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمیں خارجہ پالیسی کے فیصلے یا احکامات کہیں "اور ” سے بتائے اور لکھوائے جاتے ہوں؟ اگر ایسا ہے تو پھر سارا قصور املا لکھوانے والوں کا ہوا،ہمارے بابو اور بھیاء لوگ تو پھر معصوم ہی ٹھہرے، بلکہ پون صدی سے معصومیت کے ایک ہی مقام پر ٹھہرے ہوئے ہیں۔اب یہ املا لکھوانے والے سوائے امریکیوں کے اور کون ہو سکتے ہیں۔کم بخت اس قدر پیار سے دل کے رخسار پر ہاتھ رکھتے ہیں کہ گمان گزرنے لگتا ہے کہ سچ مچ ہجر کا دن ڈھل گیا اور وصل کی رات آ چکی ہے ۔اب بغداد پیکٹ، سیٹو ،سینٹو افغان جہاد ، پھر وہی جہاد دہشتگردی بن گیا ، نائن الیون ، نان نیٹو اتحادی ( جسے کبھی بھی ناٹی بوائے نہیں بننے دیا گیا) وغیرہ وغیرہ کے سلسلے ۔اب اس ستمگر کو کوئی کہے تو کیا کہے ۔وہ تو بھلا ہو میر تقی میر کا ، جو ہمارے دل کی ساری باتیں پہلے سے کہہ گزرے ہیں؛ہم فقیروں کو کچھ آزار تمھیں دیتے ہویوں تو اس فرقے سے سب لوگ دعا لیتے ہیں چاک سینے کے ہمارے نہیں سینے اچھےانھیں رخنوں سے دل و جان ہوا لیتے ہیں میرؔ کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں تو شاید میرتقی میر کے احترام میں پاکستانی آج بھی "اسی عطار کے لڑکے” سے دوا لیتے رہتے ہیں۔ ہمارے اپنے ہمسائیوں میں سے کسی کے ساتھ بھی تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ہندوستان نے تو ہمیں زچ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔اور اسی کے اکساوے پر افغانستان نے بھی شروع دن سے پاکستان کو ستانا شروع کر رکھا ہے۔اب افغانستان کو کون سمجھائے کہ؛کچھ خوب نہیں اتنا ستانا بھی کسو کا۔۔ہے میرؔ فقیر اس کو نہ آزار دیا کرقیام پاکستان کے ساتھ ہی ہمسایہ مسلم ملک افغانستان نے اپنے بگڑے تیور دکھانے شروع کر دیئے تھے۔ افغانستان نے ایک نوآزاد ہمسایہ مسلم ریاست پاکستان کی 1947ء میں اقوام متحدہ کا رکن بنانے کی برملا اور بے سود مخالفت کر کے اپنے مستقبل کے ارادوں کا اظہار و اعلان کر دیا تھا۔ پاکستانیوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے کہ افغانستان پاکستان کو اقوام متحدہ کا رکن بنانے کی مخالفت کرنے والا دنیا کا واحد ملک تھا ،اور اس نے پاکستان کی رکنیت کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ دوسری ناواجب حرکت افغانستان نے یہ کی کہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی نوآزاد مملکت میں نام نہاد علحٰدگی پسند تنظیموں کو تخلیق کر کے ریاست پاکستان کے ساتھ الجھانے پر اکسانا شروع کر دیا ۔افغانستان نے پاکستان میں شامل ان تمام علاقوں پر افغانستان کی ملکیت کا احمقانہ دعوی کیا ، جن میں پشتون پاکستانی آباد ہیں ، ان میں خیبرپختونخوا کے علاقے، قبائلی علاقے اور بلوچستان کے بہت سے علاقوں میں علحٰدگی پسند پشتون تحریکوں کو ابھارنے اور اکسانے کی کوششیں شروع کر دی تھیں۔مسلح جدوجہد کے لیے اسلحے کی فراہمی بھی جاری رکھی گئی۔ افغانستان نے اپنے اس پاگل پن کو بنیاد فراہم کرنے کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان سرحد ؛جسے ڈیورنڈ لائن سے تعبیر کیا جاتا ہے ،کو دو ملکوں کے مابین بین الاقوامی سرحد ماننے سے انکار کر دیا۔اور اسی انکار کو پاکستان میں شامل پشتون آبادی اور علاقوں پر اپنے دعوے کی بنیاد بنایا۔افغانستان کے اس طفلانہ اور احمقانہ طرز ہمسائیگی کے پیچھے یقینی طور پر بھارت اور کسی حد تک روس کی اعانت اور اکساوا بھی شامل رہا ہو گا۔کچھ یہی وجہ بنی تھی کہ جواب میں پاکستان کی طرف سے ،مجبورا ًاینٹ کا جواب دینے کے لیے افغانستان سے "پتھر”تلاش کرنے پڑے۔ 1973ء کے وسط میں افغانستان کے صدر محمد داؤد خان نے صدر بننے کے بعد اپنی اولین ریڈیو تقریر ریکارڈ کرواتے ہوئے یہ کہنا ضروری خیال کیا تھا کہ ”پختونستان ہمارے آباء و اجداد کی کھوئی ہوئی میراث ہے اور یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ یہ مسئلہ صرف پختونوں کی خواہشات کے مطابق ہی حل ہو سکتا ہے۔ دنیا جان لے کہ افغانستان کا دنیا میں کسی ملک کے ساتھ کوئی تنازعہ نہیں سوائے پاکستان کے اور افغانستان اس تنازعے کے حل کی ہر ممکن کوشش جاری رکھے گا۔“ یہی وہ تقریر ہے جس کے جواب میں پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستانی وزارت خارجہ میں خصوصی طور پر ایک "افغان سیل” قائم کیا، جس کا سربراہ افغان امور کے ماہر اور رازدار جنرل نصیر اللہ بابر کو مقرر کیا گیا تھا ۔جنرل نصیر اللہ بابر نے اگلے چار سال کے اندر صحیح معنوں میں افغانستان پر برسانے کے لیے اتنے "کنکر "جمع کر لئے تھے ،کہ جو بعد ازاں نام نہاد "افغان جہاد” میں بھرپور طریقے سے کام میں لائے گئے ، لیکن یہ کام پاکستان کے نہیں ،امریکہ کے عالمی مفادات سے منسلک اور ہم آہنگ رہا ۔ افغانستان میں روسی افواج کی آمد کے بعد امریکی ایماء پر برپا کئے گئے افغان جہاد کی پاکستان نے اتنی بڑی قیمت ادا کی کہ جس کی کوئی دوسری مثال پیش کرنا ممکن نہیں ہے۔پورے ملک کو دیرپا بدامنی ، نت نئی منشیات کی فروانی ، ملکی تجارت کے عوض اسمگلنگ کی ترویج، بالائے ریاست اسلحے کی خریدوفروخت ، ملک میں افغان مہاجرین کی بلا روک ٹوک آمد و رفت اور بلا رکاوٹ کاروبار کی اجازت ، ان سارے تماشوں نے پاکستانی معاشرے کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ اسی کی دھائی میں جہاں ایک طرف پاکستان میں گلی گلی ، قریہ قریہ ، کوچہ کوچہ جہاد کی پکار عام ہو رہی تھی خیرات پر چلنے والے مدرسے خام مجاہدین کی منڈیاں بنے اور ان کے مہتمم ملا لوگ زمین پر بچھی چٹائی سے اٹھ کر اور چھلانگ لگا کر سیدھے پجارو جیب میں جا بیٹھے تھے ، ان کے اردگرد اسرائیل میں مینوفیکچر ہونے اور براستہ مصر پاکستان پہنچنے والی کلاشنکوف بردار محافظوں کا ہجوم نظر آنے لگا تھا ، دوسری طرف انہی سالوں میں؛یعنی اسی کی دہائی کے آغاز میں ہمسایہ ملک بھارت نے اپنے ہاں کمپیوٹر لٹریسی کو پرائمری اسکول سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔اور آج بھارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں دنیا کا بڑا حصہ دار ہے ۔بھارت میں اس طرح کے فیصلے سیاستدان کرتے تھے ،جبکہ پاکستان کی فیصلہ ساز قوتیں دیئے گئے محدود اہداف کے مطابق قلیل المدتی پالیسیاں بناتے ہوئے، انفرادی طور پر متمول سے متمول ہوتی چلی گئیں نتیجتاً ؛ ملک سیاسی ،معاشی ، سماجی اور اخلاقی طور پر کمزور سے کمزور ہوتا چلا گیا۔امر واقعہ یہ ہے کہ؛ ہماری خارجہ پالیسی کے دور رس نتائج کے حامل فیصلے ہمیشہ منتخب پارلیمان کی بجائے فوجی ڈکٹیٹروں نے کئے۔وہ جنرل ایوب خان ہو، جنرل یحیٰی خان ہو،جنرل ضیاء الحق ہو یا جنرل پرویز مشرف امریکہ ابرووں کے اشاروں پر کئے گئے فیصلے ہمیشہ خطے میں امریکی مفادات سے ہم آہنگ اور ریاست پاکستان کے مفادات سے بعید رہے۔کچھ ایسے ہی طرزِ عمل کی وجہ سے افغانستان کے حوالے سے ہمارے بنیادی فیصلوں نے افغانستان کو عملاً ہمارے لیے دارالحماقت بنا کر رکھ دیا ہے۔مثال کے طور پر افغانستان کے ساتھ اپنے اختلافات کو سیاسی بات چیت کے ذریعے طے نہ کر سکنا ہماری پہلی حماقت تھی، افغانستان میں روس کی آمد کے بعد اس قضیئے سے لاتعلق نہ رہنا ہماری دوسری حماقت تھی، افغانستان میں امریکہ سوویت روس جنگ کا چھلاوہ بننا ہماری تیسری حماقت تھی ۔ نام نہاد افغان جہاد کے لیے ریاست پاکستان کے معاشرتی ،سیاسی ،معاشی اور اخلاقی ڈھانچے کو ادھیڑ کر رکھ دینا ہماری افغانستان کے حوالے سے چوتھی حماقت تھی۔ افغانستان کے ساتھ قانونی اور باضابطہ تجارت کی بجائے اسمگلنگ کی ترویج اور فروغ ہماری پانچویں بڑی حماقت شمار کی جا سکتی ہے۔افغانستان کے حوالے سے ہماری سب سے موذی حماقت پاکستانی جنگی طالب علموں کی تخلیق اور ترویج کی تھی، یہی حماقت آج کل ریاست کے لیے مصیبت کا عنوان بنی ہوئی ہے۔افغانستان ماضی میں برطانیہ اور بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں امریکی حکمت عملی کا نشانہ رہا۔سویت روس کی پسپائی کے بعد افغانستان میں نت نئے مناظر کی تشکیل شروع ہوئی ،ان تمام مناظر کا محور اسلام جیسے امن و سلامتی کے دین کو محض جنگ و جدل اور دہشتگردی کا مذہب بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرنا تھا۔ لکڑیوں کے جلتے ڈھیر سے کچھ خشک شاخیں پاکستانی فیصلہ سازوں نے بھی سلگا کر اپنے پاس یہ سمجھ کر رکھ لیں تھیں ،کہ یہ اچھی والی آگ ہے اور بوقت ضرورت کام آئے گی۔یہی اچھے والے بظاہر پاکستانی لڑاکے اب اپنی خودساختہ شریعت کے نفاذ کے نام پر پورے ملک کا قبضہ مانگ رہے ہیں۔ افغانستان میں ان پسندیدہ شرپسندوں کو محفوظ پناہ گاہیں حاصل ہیں۔وہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز پر حملے کر کے بھاگ جاتے ہیں۔اگرچہ پاکستان نے ان کے بعض ٹھکانوں کو ہوائی حملے کا نشانہ بنایا ہے ،لیکن حیرت انگیز سوال یہ ہے کہ ان دہشت گردوں کے پاکستان میں مقیم باقیات کو کیوں کر پکڑا نہیں جاتا؟؟ آخر کس طرح وہ جہاں چاہیں حملے کر کے نکل جاتے ہیں؟ اس سے بھی زیادہ خطرناک امر یہ ہے کہ گمراہ دہشتگردوں کے حمایتی پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں میں بغیر کسی شرم و حیا کے موجود و متحرک ہیں۔ستم ظریف کی تشویش اور طرح کی ہے ،وہ افغانستان کے ساتھ پاکستان کی طویل سرحد پر تجارت کے عوض اسمگلنگ کے عمل کے فروغ اور تسلسل سے پریشان ہے ۔وہ سرحدی علاقوں سے متصل معدنیات کے ذخائر کی غیر ریاستی خرید وفروخت پر نالاں ہے ۔وہ ان حساس علاقوں میں سیکیورٹی کی ذمہ داریاں ادا کرنے والے اہل کاروں کے لامحدود تمول پر انگشت بہ دنداں اور پریشان ہے۔زیادہ الجھن اسے اس وقت ہوتی ہے ،جب ایسی غیر مجاذ اسمگلنگ اور بے محابہ ترسیل مال و زر پر قابو پانے اور روکنے کے لیے ریاست کا کوئی قانون یا ضابطہ موثر ثابت نہیں ہوتا۔ ایک تصور یہ بھی ہے کہ پاکستان کے سرحدی ،قبائلی علاقوں میں اصل تنازعہ قیمتی معدنیات پر تصرف کا ہے ۔یہ قیمتی معدنیات ریاست کی ملکیت ہیں یا ان علاقوں میں ریاست کی طرف سے تفویض کردہ ذمہ داریاں ادا کرنے والے اہل کاروں اور ان کے سہولت کاروں، مقامی عمائدین ، وار لارڈز اور فیلڈ میں کام کرنے والے ٹھیکیداروں کی ملکیت؟ ان الجھنوں نے پاک افغان سرحدوں کے دونوں اطراف موجود و متحرک جتھوں کے مابین ایک طرح کی دو طرفہ افہام و تفہیم پیدا کر رکھی ہے۔لیکن اب معاملہ اس طرح کی "چھپی آشنائی ” کی حدود سے باہر نکل کر کرائے کی جنگ میں ڈھل رہا ہے۔ افغانستان میں پناہ گزین دہشت گرد اب بھارت کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ان کی تشکیل و تربیت کرائے کی جنگوں کے لیے کی گئی تھی اور اب بھی یہ لوگ اسی مشق میں مصروف ہیں ۔دو ریاستوں کے مابین تعلقات میں توازن اور حسن ترتیب سیاستدانوں کا کام ہوتا ہے ، سیکیورٹی اہلکاروں کا نہیں۔افغانستان کے اندر اپنے لیے گہرائی تلاش کرتے کرتے کہیں ہم اپنا ذہنی اور زمینی توازن تو نہیں کھو بیٹھے؟ اور کیا افغانستان ہمارے لیے دارالحماقت ثابت تو نہیں ہو رہا؟۔

Ejaz Farooqi

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے