اسلام آباد سے جنیوا تک، انگلینڈ سے فرانس تک، عوامی رائے عامہ کے خلاف فیصلے کرنے والوں کی بے عزتی جاری ہے!
یہ ایک عام تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جب جب کسی بے ضمیر پاکستانی آفیشل کے خلاف کوئی ردعمل سامنے آتا ہے تو اس انفرادی فرد کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہوتا ہے یا جوڑ دیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے اس تاثر کو فروغ دینے میں پاکستان کا بکائو میڈیا اور لفافہ صحافی پیش پیش ہوتے ہیں کیونکہ دونوں کو اسی بات کی تنخواہ دی جاتی ہے۔ ابھی حال ہی میں جب لندن میں نواز شریف اور قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف برطانیہ میں مقیم پاکستانی تارکین وطن نے مظاہرے کئے اور لعن طعن کی نعرے بازی کی تو اس کو بھی عوامی ردعمل کہنے کے بجائے یہ کہا گیا کہ یہ چند گنے چنے PTIکے کارکنوں کا مظاہرہ تھا جو کہ پاکستان تحریک انصاف کے کہنے پر جمع کئے گئے تھے۔ مشکل یہ ہے کہ جس طرح کراچی کے ہر رہنے والے کو بائی ڈیفالٹ ایم کیو ایم کا بندہ بنا دیاجاتا ہے اسی طرح سے صورت حال ہر پاکستانی کی طرف سے عمران خان کی رہائی کیلئے، ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے لئے، پاکستانی فوج کے بدمعاش چند جنرلوں کے خلاف یا معذور عدلیہ کے خلاف آواز اٹھانے والے ہر شخص کو چاہے وہ اندرون ملک ہو یا بیرون ملک ہو اسے خودبخود پاکستان تحریک انصاف کا کارکن بنا دیا جاتا ہے۔ بالکل ایسے ہی کہ اس وقت دنیا بھر میں سب سے بڑی پختونوں کی تعداد جو کراچی میں مقیم ہے اُسے مہاجر کا نام دے دیا جاتا ہے چونکہ اس کا تعلق کراچی سے ہوتا ہے، یاد رہے کہ افغانستان سے بھی زیادہ پختون کراچی میں بستے ہیں جو ایک ریکارڈ ہے۔ بات یہ ہے کہ جب اسلام آباد کے بلیو ایریا کی بیکری کرسٹیز ڈونٹ کے ایک کیشیئر نے قاضی فائز عیسیٰ پر تین مرتبہ لعنت بھیجی تھی تو کیا وہPTIکا کارکن تھا؟ جب اسلام آباد کے سرینا ہوٹل میں سابق آرمی چیف جو کہ اس وقت وہ حاضرڈیوٹی تھے، ان پر جب ایک خاتون نے جوتا پھینک کر مارا تھا تو کیا وہ تحریک انصاف کی کارکن تھی؟ عمران خان کی جعلی معزولی کے بعد جب کراچی کے تین تلوار اور لاہور کی لبرٹی مارکیٹ میں خودبخود ہزاروں پاکستانی بغیر کسی لیڈر کی کال کے عمران خان سے یکجہتی کا اظہار کرنے کے لئے ’’ایک آواز‘‘ ہو کر قومی ترانہ پڑھ رہے تھے تو کیا وہ تحریک انصاف کے کارکن تھے؟ وگرنہ تو وہ پی ٹی آئی کا کوئی نغمہ گارہے ہوتے! جب مسجد نبوی اور خانہ کعبہ کے باہر موجود پاکستانی حجاج کرام نے پی ڈی ایم حکومت کے عہدیداروں کے خلاف نعرے بازی کی تھی وہ بھی پی ٹی آئی کے کارکن تھے؟ اور اب اسی ہفتے کے واقعے کو لے لیجیے جب جنیوا میں نواز شریف اور مریم نواز اپنے ہوٹل سے نکل کر، چار قدم کے فاصلے پر پارک کی گئی اپنی گاڑی میں سوار ہونے کیلئے جانے لگے تو ایک خاتون نے اپنے سیل فون سے ویڈیو بناتے ہوئے بلند آواز میں ساتھ ساتھ کمنٹری کرنا شروع کی اور دونوں باپ بیٹی پر لعن طعن کی تو کیا وہ بھی پی ٹی آئی کی کوئی کارکن یا رہنما تھیں؟ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں وہ خاتون چیخ چیخ کر دونوں کو چور، بدمعاش اور بے ایمان جیسے القاب سے نواز رہی ہیں اور نواز شریف اور مریم نواز چند لمحات کیلئے ٹھٹک کر رہ گئے کہ یہ کیا ہو گیا۔ یہاں بات سمجھنے کی یہ ہے کہ یہ سارے مرد اور خواتین جو قاضی فائز عیسیٰ، جنرل قمر جاوید باجوہ، نواز شریف اور مریم صفدر پر لعن طعن کررہے ہیں یہ آوازیں نقارۂ خدا ہیں جو ان زمین کے خدائوں کو ان کی چند روزہ خدائی کے بعد سنائی دے رہی ہیں۔ یہ وہ عوامی غیظ و غضب ہے جو ان لوگوں کو اپنے سکیورٹی حصار میں رہتے ہوئے سنائی نہیں دیتا۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ مریم نواز اے ویں ہی پاکستان ایئر فورس کے خالی طیارے میں بیٹھ کر جنیوا گئی تھیں؟ بالکل نہیں، ان کو خطرہ تھا کہ اگر وہ پی آئی اے ،قطر ایئرویز، امارات یا ترکش ایئر کے طیاروں میں سے کسی ایک پر بھی جاتیں تو جس صورت حال کا سامنا انہیں جنیوا کی ایک سڑک پر کرنا پڑا وہ ان میں سے کسی بھی کمرشل جہاز کی پرواز پر بھگتنا پڑتا۔ ابھی تو آگے آگے دیکھتے جائیں کہ ان پولیس والوں اور جرنیلوں کرنیلوں کے ساتھ کیا کیا ہو گا جنہوں نے خواتین کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا، جنہوں نے مائوں کے گلوں پر ہاتھ ڈالا، جنہوں نے مفکر پاکستان علامہ اقبال کے گھرانے کے دروازوں کو توڑ ڈالا جنہوں نے لوگوں کے دروازہ کو بکتر بند ٹینکوں سے توڑا جنہوں نے ڈاکٹر شہباز گل کو ننگا کر کے ان کی ویڈیو سوشل میڈیا پر ڈالیں، بہرحال بات نکلے گی تو مادر ملت فاطمہ جناح تک جائے گی، مسٹر جناح تک پہنچے گی۔