26ویں آئینی ترمیم پاس ہو گئی، انصاف کا جنازہ ذرا دھوم سے نکلے

26ویں آئینی ترمیم پاس ہو گئی، انصاف کا جنازہ ذرا دھوم سے نکلے

جب رات کو پوری دنیا سو رہی ہوتی ہے پاکستان کی قومی اسمبلی نے 26ویں آئینی ترمیم منظور کر لی۔ یہ ترمیم صرف دو ووٹوں کی اکثریت سے منظور ہوئی اس ملک کی سینیٹ میں صرف 6 ووٹ ملے جو منظوری کی آخری حدوں کو چھو رہے تھے۔ تحریک انصاف کے سینیٹروں نے ووٹ نہیں دیا لیکن ان کی گنتی کتنی کم تھی کے پی کے سے سینیٹ کے ممبروں کا جھگڑاپڑا ہوا ہے۔ اس لئے تحریک انصاف کے ممبروں کا نہ تو انتخاب ہو سکا اور نہ وہ اس ووٹنگ میں شامل ہو سکے۔ حکومت ہر طرف سے عمران خان اور ان کی پارٹی کو تباہ کرتی جارہی ہے یا کوشش کررہے ہیں ،حکومت کے پالتو جانور قاضی عیسیٰ کو ہر حال میں حکومت سے الگ کرنا تھا ورنہ اگر قاضی عیسیٰ رہتے تو کسی بھی آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ خود ہی جج تھا وہ خود ہی آئین تھا وہ خود ہی قانون تھا وہ جو کہے وہی انصاف ۔اس نے ظلم کی انتہا تحریک انصاف پر کر دی۔ اس وقت تک حکومت کے دو مائوتھ پیس تھے قانونی محاذ قاضی عیسیٰ دیکھ رہا تھا۔ بکواس کرنے کا محاذ فیصل واوڈاکے پاس تھا وہ آج کل فوج کا ترجمان کیا آرمی چیف کی دھمکی بنا ہوا ہے ۔آرمی چیف نے جو کچھ کہنا ہوتا ہے یا کسی کو دھمکی دینی ہوتی ہے وہ فیصل واوڈا کو اس کے پیچھے لگادیتا ہے۔ ایک تو گھر چلا گیا۔ ذلیل ہو کر جس کا نام قاضی عیسیٰ تھا اب دوسرا دیکھیں کب ذلیل ہو کر امریکہ بھاگتا ہے۔ وقت تیزی سے گزرتا جارہا ہے۔ آہستہ آہستہ حکومتی کارندے نکلتے جارہے ہیں پہلے ڈی جی آئی ایس آئی ندیم انجم ریٹائر ہوا اب قاضی عیسیٰ گیا۔ ویسے اس کا نام قاضی نہیں پاپی عیسیٰ ہونا چاہیے تھا اس کے ڈھنگ ہی ایسے تھے۔ اب ایک اور بچا ہے جس کا نام فیصل واوڈا ہے وہ اس دن سینیٹ میں چیئرمین سینیٹ کو کیسے دھمکیاں دے رہا تھا جیسے معلوم ہوتا تھا وہ شہنشاہ پاکستان ہے اس تحریک انصاف کی سینیٹر خاتون نے کیا غلط بات کہہ دی تھی جو وہ اتنا آگ بگولہ ہو رہا تھا۔
بات ہورہی تھی 26ویں ترمیم کی، حکومت سمجھ رہی ہے کہ اس نے عدلیہ پر قابو پا لیا ہے اس کی بھول ہے بنچ فکس کرنے کا اختیار سینئر ترین ججوں کے پاس ہے۔ اس میں سے دو جسٹس منیب اختر اور سینئر ترین جج منصور علی شاہ ہیں۔ دوسرے ان دو ججوں کے ساتھ 6 جج اور بھی موجود ہیں جنہوں نے تحریک انصاف کے حق میں فیصلہ دیا جو آخر وقت تک متحد رہے اور انہوں نے دوسری مرتبہ الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی کی نشستیں واپس کرنے کاکہا اور ایک پارٹی تسلیم کرنے کو کہا لیکن الیکشن کمیشن آج تک ٹال مٹول کررہا ہے ۔آئینی عدالت بنا لینے سے سارے مسئلے حل نہیں ہو جائیں گے ،ابھی بہت سے مسائل باقی ہیں ۔بنچ کیسے کام کرے گااس میں ججز کون کون سے ہونگے کیا وہ پرماننٹ بنچ ہو گایا ججز تبدیل ہوتے رہیں گے۔ ابھی بہت سے سوالات باقی ہیں جن کے جواب ملنا باقی ہیں۔
سب سے اہم بات وکیلوں کی تحریک ہے جب قاضی عیسیٰ کے خلاف یوم نجات کامیاب ہو گا اس کے بعد ہی تحریک وکلاء کی چلے گی۔ ان کا اگلا ٹارگٹ 26ویں ترمیم کو واپس کروانا ہو گا اور جسٹس منصور علی شاہ کو نیا چیف جسٹس بنوانا ہو گا۔ ایک طویل جدوجہد ہو گی اس سے پہلے افتخار محمد چودھری کے حق میں تحریک چل چکی ہے۔ آصف علی زرداری کونہ چاہتے ہوئے بھی افتخار چودھری کو بحال کرنا پڑا ۔یہ فوج اب اتنی بدنام ہو چکی ہے اور لوگوں کے دلوں میں فوج کیخلاف اتنی نفرت بیٹھ چکی ہے جس کا اندازہ شاید عاصم منیر کو نہیں ہے وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ اس نے ابھی فوج میں تبدیلیاں کی ہیں۔ لوگوں کو پروموشن دیا ہے سب قیادت اس کے ساتھ ہے۔ وہ جو چاہے گا عوام کیساتھ کر لے گا۔ ایسا نہیں ہے وہ دور اب ختم ہو گیا جب عوام فوج سے ڈر جاتے تھے۔ 9مئی کا ڈرامہ اب بہت پرانا ہو گیا ہے۔ عاصم منیر کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے جب وہ اقتدار سے ہٹے گا تو اس کا انجام کیا ہو گا۔ اس کویحییٰ خان کا انجام یاد رکھنا چاہیے اس کو پرویز مشرف کا انجام یاد رکھنا چاہیے جس کو ڈی چوک سے رسے سے باندھ کر گھسیٹنے کی بات ایک جج نے اپنے فیصلے میں لکھی تھی۔ اس کو جنرل باجوہ کی وہ ویڈیو روزانہ دیکھنی چاہیے جو فرانس میں اس کے ساتھ ہو ۔اس کو قاضی عیسیٰ کیساتھ بیکری میں ہونے والا واقعہ یاد رکھنا چاہیے۔ وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا۔ انسان کو ظلم کرتے وقت اپنے انجام کو بھی یاد رکھنا چاہیے۔ اس کے بھی ساتھ ساتھ کیا کیا ہو سکتا ہے۔

kamran