مشرق وسطیٰ ‘ یحییٰ سنوار کے بعد
حماس اسکی زندگی اور اوڑھنا بچھونا تھی۔ وہ اسے صیہونی تسلط کے خلاف نبرد آزما فلسطینیوں کے لیے امید کی آخری کرن سمجھتا تھا۔ یحییٰ سنوار 1962 میں جنوبی غزہ کے شہر خان یونس میں پیدا ہوا تھا۔ اسکے والدین 1948 میں اسرائیل کے قیام کے موقع پرلاکھوں فلسطینیوں کیساتھ اپنا گھر بار چھوڑ کر مہاجر کیمپوں میں آباد ہو گئے تھے۔ اسرائیل کے جبر و تشدد اور غربت کی چکی میں پسنے والے فلسطینیوں نے 1987 میں بڑے پیمانے پر احتجاج کیا۔ اسے پہلے انتفادہ کا نام دیا گیا۔ حماس نے اسی تحریک کی کوکھ سے جنم لیا۔ ۔ غزہ کی اسلامی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران ہی یحیٰی سنوار نے حماس میں شمولیت اختیار کی ۔ اس تنظیم کی صفوں میں چھپے ہوے اسرائیلی جاسوسوں کا قلع قمع کرنے کے جرم میں یحییٰ سنوار 1988 میں گرفتار ہوے اور عمر قید کی سزا پانے کے بعد 2011 میں قیدیوں کے تبادلے میں رہا ہوئے۔ جیل میں انہیں حماس کے بانی شیخ احمد یٰسین کی قربت حاصل رہی۔ رہائی کے بعد یحییٰ سنوار نے فلسطینیوں کی جنگ آزادی کے چار رہنما اصول متعین کئے۔ ان میں حماس کو داخلی انتشار سے محفوظ رکھنا‘ اسکی عسکری صلاحیت میں اضافہ کرنا‘سیاسی اور سفارتی ذرائع کا استعمال کر کے فلسطین کے مقدمے کو تقویت دینا اور مختلف محاذوں پر اسرائیلی تسلط کے خلاف مزاحمت کو جاری رکھنا شامل تھے۔
یحییٰ سنوار 2017 میں غزہ میں حماس کے کمانڈر مقرر ہوے اور گذشتہ برس سات اکتوبر کو انکی قیادت میں حماس نے اسرائیل کے دیہاتوں پر حملہ کرکے مشرق وسطیٰ کی سب سے طاقتور ریاست کے ناقابل تسخیر ہونےکے دعوے کو مسمار کر دیا۔ اکتیس جولائی کو تہران میں اسرائیل نے ایک میزائل حملے میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو شہید کر دیا۔ اسکے بعد یحییٰ سنوار کو حماس کی سربراہی کا اعزاز حاصل ہوا۔امریکہ ایک طویل عرصے سے دنیا کو فلسطین کے مسئلے کے دو ریاستی حل کا جھانسہ دیکر اسرائیل کو جدید اسلحہ اور ٹیکنالو جی مہیا کرتا رہا ہے۔ امریکہ اگر آج بھی اسرائیل کو اربوں ڈالر کا اسلحہ فراہم کرنابند کر دے تو صیہونی ریاست کے لیے غزہ میں آگ اور خون کا کھیل جاری رکھنا دشوار ہو جائیگا۔ خلیجی ممالک کو اسرائیل کے دام فریب میں الجھانے کے لیے سابقہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اگست 2020 میں ابراہام معاہدے کا ڈول ڈالا تھا ۔ اسکا مقصد اسرائیل کو عالم اسلام کے لیے قابل قبول بنانا تھا۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے بعد سوڈا ن اور مراکش نے بھی اس معاہدے پر دستخط کئے تھے۔ اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوے صدر بائیڈن نے گزشتہ سال سعودی عرب کو ایران کے خلاف ایک دفاعی معاہدے کی پیشکش کی تھی۔ اس معاہدے کی رو سے سعودی عرب کو وہ تمام دفاعی سہولتیں مہیا کی جاتیںجو نیٹو ممالک کو حاصل ہیں۔ یہ معاہدہ اگر طے پا جاتا تو عرب ممالک اور ایران ہمیشہ کے لیے دو متحارب دھڑوں میں تقسیم ہو جاتے اور مشرق وسطیٰ ایک خطرناک جنگ کے دہانے پر آ کھڑا ہوتا۔ اس معاہدے کے مطابق سعودی عرب نے اسرائیل کو تسلیم کر لینا تھا اور اسکے عوض تل ابیب کے حکمرانوں نے صرف فلسطین کے دو ریاستی حل پر عملدر آمد کا وعدہ کرنا تھا۔
امریکہ اور سعودی عرب میں یہ گفتگو جاری تھی کہ حماس نے یحییٰ سنوار کی قیادت میں اسرائیل پر حملہ کردیا۔ اسکے بعد آج تک جاری و ساری اسرائیلی بربریت نے دوسرے بہت سے سیاسی مفروضوں کے علاوہ اس بات کو بھی غلط ثابت کر دیا ہے کہ اسرائیل ‘ امریکہ کی طفیلی ریاست ہونے کے باعث اسکے ہر حکم کو ماننے کا پابند ہے۔ اسرائیل اپنے محسن اور مہربان ملک کی درجنوں درخواستوں کے باوجود جنگ بندی پرنہ آمادہ ہو رہا ہے اور نہ ہی غزہ کے دو ملین سے زیادہ بھوکے اور بیمار لوگوں تک خوراک اور ادویات پہنچانے کی اجازت دے رہاہے۔ اس نسل کشی کا اصل مقصد غزہ کی پٹی سے فلسطینیوں کا مکمل انخلا ہے اور یا پھر دنیا کے اس سب سے بڑے قید خانے کے اسیروں کو مکمل طور پر نیست و نابود کرنا ہے۔ اب لبنان میں حزب اللہ اور غزہ میں حماس کی مرکزی قیادت کو شہید کرنے اور ان دونوں تنظیموں کے اسلحہ خانوں کو شدید نقصان پہنچانے کے بعد اسرائیل بڑی ڈھٹائی سے یہ کہہ رہا ہے کہ اس نے امریکی حکمت عملی کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ تل ابیب کے حکمران پوری دنیا میں رسوا ہونے کے باوجود جنگ جاری رکھنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ کل تک جو دو چار اسلامی ممالک ابراہام معاہدے کے تحت اسرائیل سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہے تھے وہ آج اس سے بات کرنے کے بھی روادار نہیں ۔ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں گرمجوشی ایک ایسی جوہری تبدیلی کا پتہ دے رہی ہے جو امریکہ کو کسی صورت بھی گوارہ نہیں۔امریکہ کے مجوزہ معاہدے کے بعدکئی دیگر اسلامی ممالک نے بھی اسرائیل کو تسلیم کر لینا تھا۔ یہ صورتحال فلسطین کی جہدو جہد آزادی کے لیے ناقابل تلافی نقصان کا باعث بنتی لیکن غزہ میں عالمی بساط کو جانچنے والے ایک سرفروش نے ایک عالمی طاقت کی یہ بازی پلک جھپکتے میں الٹ کر رکھ دی۔ یحیٰ سنوار کے دوست اور دشمن سب اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ حماس نے اسرائیل پر حملہ کرکے مشرق وسطیٰ کی سیاست کو ہمیشہ کے لیے بد ل دیا ہے۔غزہ کے لوگوں نےاس کی بہت بڑی قیمت ادا کی ہے مگر انکا شہید رہنما بہت پہلے یہ کہہ چکا تھا کہ فلسطین کو آزاد کرانے کے لیے ایک لاکھ جانوں کی قربانی بھی دی جا سکتی ہے۔ یہ بات اس نے اسرائیلی جیل کے ایک ڈینٹسٹ Yuval Bitton کو اسیری کے ایام میں کہی تھی۔ اس نے اس فوجی افسر سے یہ بھی کہا تھا کہ بحیرہ روم کے ساحل پر کھیلتے ہوے بچوں کو سمندر پار کی دنیا سے تعلق استوار کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اور پھر یحیٰ سنوار نے اس خواب کی تعبیر حاصل کرنے کے لیے اپنی جان بھی قربان کر دی۔