بلوچستان
اس وقت بلوچستان پاکستان کا ایک حساس صوبہ ہے اور اس صوبے میں بھارتی ایجنسی RAW نے اس وقت پنجے گاڑے جب مشرف کا دور تھا، افغانستان میں امریکہ موجود تھا اور امریکی ایجنسیاں پاکستان پر الزام دھر رہی تھیں کی پاکستان ان کے ساتھ ڈبل گیم کھیل رہا ہے اسی وقت پاکستان کی ایجنسی ISI بھی زیر بحث آئی اور یہاں تک کہا گیا کہ ISI پر پابندی عائد کر دی جائے، یہ وہی مرحلے
کادور تھا جب مشرف سے اختلافات کے باعث سردار بکٹی اپنے قبیلے کے ساتھ پہاڑوں پر چلے گئے تھے اور ان کو قتل کر دیا گیا تھا، اس سے بھی بہت پہلے بھٹو کے دور میں افغانستان میں بغاوت ہوئی بگٹی، مری، مینگل، گرفتار ہوئے تھے، تب سے فوج بلوچستان میں موجود ہے، ایک کہانی قلات کے پاکستان میں MERGER کی بھی ہے جس پر کچھ کتابیں بھی لکھی گئیں ہیں، اس میں قائد اعظم کا نام بھی آتا ہے کہ ان کی ہدایات پر قلات کا انضمام ہوا اور اس انضمام میں کہیں کچھ جبر بھی شامل تھا، چونکہ ابتدا سے ہی ایک روش رہی کہ حقائق کو چھپانا ہے لہٰذا اس واقعہ پر بھی ارباب اختیار کی خاموشی ہی اس کا جواب ہے، اور یہ روش مفاد عامہ کے لئے کی جاتی رہی، حقیقت تو یہ بھی ہے کہ قائد کی ایک تقریر کو چودھری محمد علی نے EDIT کیا اور کہا گیا تھا کہ یہ مفاد عامہ ہے یہ وہی چودھری محمد علی تھے جو بعد میں پاکستان کے وزیر اعظم بھی بنے، چودھری محمد علی پہلے بیوروکریٹ تھے جو سیاست میں آئے اور اس اعلیٰ منصب پر فائز ہوئے ، رقبے کے اعتبار سے بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے مگر آبادی بہت کم ہے، بلوچستان پر وہاں کے سرداروں کا ہی راج رہا ہے، کبھی بلوچی نظر نہیں آئے، سوئی گیس بگٹی کی زمینوں سے نکلتی ہےخاندان عشروں سے اس کی رائلٹی لیتا ہے اور حکومت میں بھی شامل ہے، بغاوت کا بیج انہی سرداروں نے ڈالا ہے، بلوچ ان کے غلام ہیں ان بلوچ سرداروں کی نجی جیلیں ہیں، جو سر اٹھائے وہ ساری عمر ان جیلوں میں گزار دیتا ہے اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا، یہ غالباً 1975 کی بات ہے ایک ARCHEALOGIST بلوچستان گیا سرکاری نوکری تھی اس کو اپنے کام کے لئے مزدوروں کی ضرورت تھی وہ چائے پینے ایک ڈھابے پر گیا ایک لڑکے کو اس نے مزدوری کی پیشکش کی، وہ لڑکا وہاں سے چیختا ہوا بھاگ گیا، ڈھابے پر کسی نے اس کو بتایا یہ سارے لوگ سردار کے لوگ ہیں مزدوری نہیں کر سکتے بہتر ہے تم یہاں سے چلے جاؤ، وہ ARCHEALOGIST مشکل میں تھا اور سرکار کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے اس کو RESCUE کرنا پڑا، سدا سے بلوچستان پر سرداروں کی حکومت ہے، جب سے ان کے روابط فوج سے ہوئے ہیں یہ حکومتوں کو بنانے اور گرانے میں ملوث ہیں،جب سے بلوچستان میں بھارتی ایجنسی RAW نے پنجے گاڑے ہیں یہاں کے بیروزگار جوانوں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں بھارتی لوک سبھا میں بھی یہ بات ہو چکی ہے کہ ہم جب چاہیں گے بلوچستان کو الگ کر دینگے ، بلوچستان لبریشن آرمی BLA علی الاعلان بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے کی بات کرتے ہیں، کل بلوچستان میں یکے بعد دیگرے چند حادثات ہوئے، شیعہ زائرین کی ایک بس کا ایران کے ایک شہر میں حادثہ پیش آیا، بتایا گیا کہ اس بس کی بریک فیل ہو گئیں تھیں یہ سارے شیعہ زائرین سندھ کے تھے ، ایک اور بس کو حادثہ پیش آیا جو ایران سے واپیش آرہی تھی اور وجہ یہی بتائی گئی کہ بس کے بریک فیل ہو گئی تھی، یہ دونوں حادثات اس وقت پیش آئے جب اہل تشیع نواسہ رسول کے چہلم کے غم میں تھے، اور پاکستان کی ساری پولیس مسلمانوں کو مسلمانوں کے قہر سے بچانے پر معمور ہے، شبہ ہے کہ ان دونوں بسوں کے حادثات کو فرقہ وارانہ دہشت گردی سے الگ نہیں کیا جا سکتا شبہ یہی ہوتا ہے، دوسرے دن ایک اور بس کو روکا گیا اس کے سارے ہی مسافروں کی شناخت دیکھی گئی اور ان میں سے 23 پنجابیوں کو گولی مار دی گئی ، درجنوں بسوں کو آگ لگا دی گئی، اسی دن ایک تھانے پر حملہ ہوا اور کئی پولیس والوں کو قتل کر دیا گیا ایک اور واقعے میں فوج سے ٹکراؤ ہوا اور چار فوجی مارے گئے ، بلوچستان کی یہ صورتِ حال تشویش ناک ہے، فروری میں MISSING PERSONS کے حوالے سے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور سمی دین بلوچ ایک کارواں لے کر اسلام آباد پہنچیں اور وہاں کئی ہفتے تک دھر نہ ہوا ان کی ملاقات حکومت کے ایک وفد سے بھی ہوئی ، مذاکرات ہوئے جس کی قیادت فواد حسن فواد کر رہے تھے ،اور ایک معاہدہ پر دستخط بھی ہوئے مگر اس کے باوجود ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے دھرنہ ختم نہیں کیا، اور اس دوران علاقے کے پنجابی ان کو کھانا اور سوپ بھیجتے رہے، سردی بڑھی تو مجبوراً یہ دھر نہ ختم کرنا پڑا ، ڈاکٹر ماہ رنگ نے بلوچستان میں لگاتار بہت سے جلسے کئے اور ایک فضا بنا دی، پھر گوادر میں دھر نہ دیا وہاں بھی ایک معاہدہ ہوا جس گوادر کے ڈپٹی کمشنر نے دستخط کئے ، ادھر پختونخواہ میں دہشت گردی کی ایک بڑی لہر آئی اور ان الگ الگ واقعات میں متعدد فوجی مارے گئے ہر روز جنازے اٹھے اور لاشیں سبز پرچم میں لپیٹ کر دفن کر دی گئیں اور کہا گیا کہ بزدلانہ حرکتوں، دھماکوں، اور حملوں سے ہمارے اس عزم کو شکست نہیں دی جا سکتی، جو فوج نے دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے کر رکھا ہے ، یہ سچ ہے کہ فوج کےجوان مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں، حالیہ واقعات پر بلوچستان کے وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی نے پریس کانفرنس کی انہوں نے تفضیل سے حکومتی موقف پیش کیا، پریس کانفرنس خاصی IMPRESSIVE تھی، انہوں نے بلوچستان کی صورتِ حال میں میڈیا کے کردار کو تنقید کا نشانہ بنایا انہوں نے نام لئے بغیر میڈیا پر الزام لگایا کہ میڈیا نے ناراض بلوچوں کی اصطلاح ایجاد کی اور بلوچستان کے باغی لوگوں کی حمائیت کی، انہوں نے بتایا کہ کچھ بلوچ دیگر ممالک میں بیٹھے ہیں اور بلوچستان میں بغاوت کی حمایت کر رہے ہیں، اور سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں، مگر لطف کی بات یہ ہے یہ لوگ کبھی سرداروں کی بات نہیں کرتے ہم نے سوشل میڈیا پر ڈاکٹر ماہ رنگ سے بارہا پوچھا کہ امن و امان اور صوبے کی ترقی تو اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کی ذمہ داری ہے مگر کوئی خاطر خواہ جواب نہ آیا، ڈاکٹر ماہ رنگ
بلوچ ہوں یا سمی دین بلوچ دونوں ہی سرداروں کے خلاف نہ احتجاج کرتی ہیں نہ دھرنے دیتی ہیں، سردار ڈبل گیم کھیل رہے ہیں یہ ایک طرف فوج سے ملے ہوئے ہیں تو دوسری طرف ان کو آس ہے کہ اگر بلوچستان کبھی پاکستان سے الگ ہوا تو وہی بلوچستان کے مالک ہونگے، خطے کی صورتِ حال کچھ عجیب سی ہے غزہ جنگ کے باعث ایران مشکلات کا شکار ہے عالمی طاقتیں ایران کو جنگ میں گھسیٹنا چاہتی ہیں مگر ایران بہت تحمل سے کام لے رہا ہے، مگر پھر بھی حالات کشیدہ ہیں، بھارت پر سکھوں کے قتل اور قتل کے منصوبوں کی وجہ سے دباؤ ہے، حال ہی میں بھارت میں اقلیتوں کےحوالے سے HUMAN RIGHTS COMMISSION نے بہت سے سوالات اٹھا دئے ہیں، اس لئے شائد بھارت بہت سی مصلحتوں کا شکار ہے، بلوچستان میں جو دہشت گردی کی بڑی لہر آئی ہے وہ منظور پشتین کے اس بیان کی وجہ سے آئی ہے کہ ہم بلوچوں کے ساتھ مل کر مہم چلائیں گے PTM یعنی پختون تحفظ موومنٹ کے سر براہ ہیں منظور پشتین کا تعارف گوگل کچھ اس طرح کراتا ہے کہ وہ مسنگ پرنس ، ماورائے عدالت قتل اور پاکستان میں دیگر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ایڈوکیٹ ہے ظاہر ہے کہ یہ تعارف پاکستان کے سیاسی زمینی حقائق کے خلاف ہے، پختون اگر بلوچوں کے ساتھ مل کر دہشت گردی کا ارادہ کر لیں تو پاکستان کو بہت نقصان پہنچا سکتے ہیں مگر فوج نے گزشتہ ڈیڑھ سال میں حالات کا بہتر مطالعہ کر لیا ہے اور وہ اس فساد کو ختم کرنے کے لئے پر عزم ہیں، پاکستان کے اندر پاکستان کا سب سے بڑا دشمن میڈیا اور سوشل میڈیا ہے جو اس صورتِ حال سے لاکھوں ڈالر کما رہا ہے یو ٹیوبرز، ٹک ٹاکرز ، SOCIAL MEDIA KEYBOARD WARRIORS بہت متحرک ہیں اور ان کو روکنا بہت مشکل ہے، مزے کی بات یہ ہے کہ یہ سب لندن، نیو یارک ٹورنٹو اور دبئی میں بیٹھے ہیں، اور مس انفارمیشن، فیک نیوز پھیلانے کے ماہر ہیں، جب پاکستان میں فائر وال کی بات ہوتی ہے تو الیکٹرانک میڈیا ان کی مدد کو آجاتا ہے اور عوامی رائے تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے پاکستان کے بے تحاشا سیاسی، سماجی، معاشرتی، مذہبی، فرقہ وارانہ اور لسانی مسائل ہیں اور جب سے ملائیت کو فروغ ملا ہے یہ سب مسائل گڈ مڈ ہو گئے ہیں، مگر بہت غور و خوض کے بعد ہم اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جب تک ملک سے ملائیت کا خاتمہ نہیں ہوتا منظر صاف نہیں ہوگا، کیونکہ یہی وہ عناصر ہیں جو کبھی مذہب کے نام پر غارت گری کرتے ہیں اور کبھی یہی عناصر دہشت گردوں کی صف میں نظر آتے ہیں، بلوچستان کا مسئلہ بہت حساس ہے حکومت کو چاہیئے کہ ان لوگوں کو باغی عناصر سے الگ کرے ان کی محرومیوں کا تدارک کرے اور باغی عناصر کو کچلنے کے لئے ایک جامع پالیسی بنائے فوج کا گٹھ جوڑ جب تک سرداروں کے ساتھ رہے گا بلوچستان کے مسائل حل کرنا ممکن نہ ہوگا حکومت اور سیاسی جماعتوں کو بھی ملائیت سے دور رہنا ہوگا، مشکل یہ ہے کہ بگڑے ہوئے دینی عناصر آئین کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتے ہیں۔