پاکستان تباہی کے دہانے پر، عاصم منیر نیرو کی طرح بانسری بجارہا ہے
پاکستان اس وقت ہر طرف سے تباہی کی جانب بڑھ رہا ہے چاہے وہ معاشی محاذ ہو، چاہے سیاسی محاذ ہو، چاہے دہشت گردی کا محاذ ہو۔ ہر طرف بے چینی، انتشار، ہنگامہ، بے یقینی کی صورت حال ہے۔ ذہنی دبائو اب کیا ہو گا؟ آگے کیاہو گا؟ اس کے بعد کیا ہو گا؟ اگلا کیا جواب دے گا۔ اس بیان کے بعد دوسری طرف سے کیا اقدام کیا جائے گا۔ اندرون خانہ کیا چل رہا ہے۔ فوج کون سی اگلی چال چلے گی۔ عمران خان پریس کو کیا کہے گا۔ بیرونی دنیا کی طرف سے کیا کیا بیان آرہے ہیں۔ عمران خان برطانیہ میں کیسے چانسلر منتخب ہو گیا۔ اس کے پیچھے کون کون سی قوتیں تھیں۔ ٹرمپ اگر جیت جائے گا تو عمران خان کے حق میں کیا کیا کرسکتا ہے۔ پاکستان پر کیا کیا معاشی دبائو آسکتا ہے۔ اسلام آباد میں مذہبی جماعتوں نے ہنگامہ کیا ہوا ہے وہ ریڈ زون میں داخل ہو گئے ہیں چیف جسٹس کے خلاف نعرے لگ رہے ہیں۔ جماعت اسلامی لیاقت باغ سے ابھی اپنا دھرنا ختم کر کے گئی ہے۔ بجلی کے بلوں کے خلاف پھر آنے کا کہہ کر گئی ہے۔ شہباز شریف آرمی چیف کے جوتے پالش کرنے میں لگا ہوا ہے۔ غرضیکہ ہر طرف ہاہا کار مچا ہوا ہے۔ ان حالات میں آرمی چیف عاصم منیر آرام سے بیٹھ کر تقریریں کررہا ہے۔ لوگوں کو دھمکیاں دے رہا ہے۔ ہر بات پر کہہ رہا ہے ہم سانحہ 9 مئی بھولے نہیں حالانکہ ساری منصوبہ بندی اور پلاننگ دفاعی اداروں کی ہی مہربانی ہے لیکن الزام سارا پی ٹی آئی پر ہے۔ ساری کارروائی عمران خان کے خلاف ہے۔ تحریک انصاف کے لوگوں کے خلاف ہے۔ تحریک انصاف کی خواتین کے خلاف ہے۔ بزرگوں کو پکڑا جارہا ہے۔ ورکروں پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔ روزانہ کوئی نہ کوئی پریس کانفرنس کر کے ظلم اور جبر کی وجہ سے پی ٹی آئی سے لا تعلقی کا اعلان کرتا ہے۔
اس وقت پورا ملک اندھیرے میں ہے۔ اس کی کوئی سمت نہیں دکھائی دے رہی۔ اس کا کوئی مستقبل نہیں دکھائی دے رہا کیا ہو گا آئندہ مہنگائی کہاں جا کر رکے گی۔ حکومت کیسے چلے گی۔ عوام کی مرضی کے خلاف فارم 47 اور جعلی طور پر جیتنے والوں سے اقتدار کب واپس لیا جائے گا۔ ہم بھیک مانگ کر نہیں تھکتے۔ لوگ ہم کو انکار کرنے سے تھک جاتے ہیں۔چین سمیت ہر حکومت نے ہمیںقرض دینے سے انکار کر دیا ہے۔ زبانی جمع خرچ ہر حکومت کر دیتی ہے ہم قرضوں تلے دبے جارہے ہیں۔ حکومت پر آئی ایم ایف کا دبائو بڑھتا جارہا ہے۔ ہمارے پاس قیمتیں بڑھانے کے علاوہ کوئی اور صورت نہیں بچی۔ دو چیزیں ہیں پٹرول اور بجلی جس پر ہر وقت ڈنڈا چلتا ہے۔ قیمتیں روزانہ کے حساب سے بڑھتی ہیں۔ لوگ بلبلارہے ہیں۔ کھانے کو نہیں ہے۔ ایک وقت کھاتے ہیں کپڑے نہیں خرید سکتے بچوں کے لئے۔ فیسیں دینا مشکل ہو گیا ہے کیا کریں اور کیا نہ کریں۔ کہاں سے پیسے لائیں مہنگائی ہے کہ رکتی نہیں۔ زندگی تھکتی جارہی ہے۔ ہر انسان اس ملک سے بیزار ہوتا جارہا ہے۔ جو نوجوان اس ملک سے بھاگ سکتے ہیں وہ بھاگ رہے ہیں۔ جو چوری کر سکتے ہیں وہ چوریاں کررہے ہیں۔ عورتیں اپنا جسم بیچنے پر مجبور ہیں۔ کراچی طارق روڈ اور بہادر آبادمیں دیکھیں عورتیں کس طرح اپنے جسم بیچنے کے لئے کھڑی ہوتی ہیں۔ یہ ان مزدوروں کی طرح ہوتی ہیں جو صبح آٹھ بجے روزی کی تلاش میں اپنے اپنے اڈوں پر آ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اگر مزدوری نہیں ملتی تو مجبور ہو کر دوپہر کو واپس چلے جاتے ہیں۔
ان سب دکھ اور عوام کی تکلیفوں کے درمیان جنرل عاصم منیر ان ڈکلیئرڈ مارشل لاء لگا کر بیٹھا ہے۔ اپنے اقتدار کی خاطر ظلم اور بربریت کی انتہا کرتا جارہا ہے۔ اس کو عوام کی کوئی فکر نہیں اپنے اقتدار کی فکر ہے وہ آرام سے بیٹھا نیرو کی طرح چین سے بانسری بجارہا ہے لوگوں کو ٹی وی پر آ کر روز دھمکیاں دیتا ہے۔ اب اس نے ایک نیا ڈرامہ شروع کر دیا ہے۔ جنرل فیض حمید کو پکڑ لیا ہے۔ سارے میڈیا کو اس کیس پر لگا دیا ہے۔ سارے اینکر مہنگائی بھول کر فیض حمید کو ڈسکس کررہے ہیں۔ ان سے پوچھو کیا فیض حمید کا کورٹ مارشل کرنے سے مہنگائی کم ہو جائے گی۔ بجلی سستی ہو جائے گی گیس کی لوڈشیڈنگ ختم ہو جائے گی۔ رات کو 11 بجے کے بعد کراچی میں گیس بند کر دی جاتی ہے۔ عوام بلکتے ہیں۔ بچے دودھ گرم کر کے نہیں پی سکتے۔ ایک فوجی حکمران بن کر بیٹھا ہوا ہے۔ اس کا آلہ کار چیف جسٹس بنا ہوا ہے۔ اپنے حق میں فیصلے دلوانے کے لئے اب قاضی کو تین سال کی ایکسٹینشن دلوا رہا ہے۔ نیا آئین لکھا جارہا ہے۔ فوجی ڈنڈے سے۔ عاصم منیر کو یاد رکھنا چاہیے اس نے فیض حمید کا کورٹ مارشل کر کے ایک نئی راہ کھول دی ہے۔ وہ بھی اپنے لئے کورٹ مارشل کا انتظار کرے۔ اللہ کی لاٹھی بہت بے آواز ہوتی ہے وہ نہ آرمی چیف دیکھتی ہے اورنہ ڈنڈا دیکھتی ہے۔ ریٹائر ہونے کے بعد باجوہ کی طرح سڑک پر بیٹھ کر فرانس میں لوگوں سے گالیاں ہی کھاتا ہے۔ آرمی چیف انتظار کرے وہ وقت جلد آئے گا۔