جنرل فیض حمید کی آڑ میں کیا کسی اور کو ٹارگٹ کیا جا رہاہے؟ مگر اس پلان میں جنرل قمر جاوید باجوہ کا گھسیٹا جانا ناگزیر ہوگا!

جنرل فیض حمید کی آڑ میں کیا کسی اور کو ٹارگٹ کیا جا رہاہے؟ مگر اس پلان میں جنرل قمر جاوید باجوہ کا گھسیٹا جانا ناگزیر ہوگا!

اس ہفتے پاکستانی فوج کے ادارے انٹرنل سروس پبلک ریلیشن(آئی ایس پی آر) نے ایک دھماکہ خیز اعلان کیا جس میں کہا گیا کہ پاکستان آرمی کے سابق ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کوگرفتارکرلیاگیاہے اور ان کے خلاف جنرل فیلڈ کورٹ مارشل کے تحت مقدمہ قائم کردیاگیا ہے۔ جنرل فیض حمید آخری مرتبہ ریٹائرمنٹ سے قبل پشاور کے کورکمانڈر کے عہدے پر تعینات تھے۔ ان پر پہلا الزام یہ ہے کہ 2017ء میں جنرل فیض حمید نے ٹاپ سٹی کے مالک سے اس پروجیکٹ کو ہتھیانے کی کوشش کی ۔ بڑی بے قاعدگیاں کیں اور مالک کو اغوا کر کے تشدد کا نشانہ بنایاگیا۔ دوسرا الزام جوفوج نے فیض حمید پر عائد کیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپنے دور ملازمت کے دوران سیاست میں ملوث رہے اور بعد از ریٹائرمنٹ بھی آخری دن تک سیاست کرتے رہے۔ بظاہر یوں لگ رہا ہے کہ پوسٹ ریٹائرمنٹ سیاسی سرگرمیاں اصل مدعا ہے ۔ ٹاپ سٹی تو ایک کور اپ ہے ۔ وہ کیا کہتے ہیں کہ کہیںپہ نگاہیں،کہیں پہ نشانہ، جنرل فیض حمید کا کورٹ مارشل اس لئے کیا جارہاہے کہ دنیا کے سامنے مثال قائم کرکے سابق وزیراعظم عمران خان کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کرنے کا جواز پیدا کیا جاسکے۔ ٹاپ سٹی کا مقدمہ2017ء میں قائم ہوا تھا ۔ جنرل فیض حمید پر پچھلے سات سالوں سے فوج اور اس کے جنرلز اس مقدمے پر کور اپ کرتے رہے اور ٹاپ سٹی پروجیکٹ کے مالک کو ملک دشمن اور دہشت گرد قرار دیتے رہے مگر آج اچانک وہ دہشت گرد ایک محب وطن بن گیا اور سپریم کورٹ میں دائر اس کی طرف سے مقدمے کی آڑ لے کر جنرل فیض حمید کا کورٹ مارشل کرنے کا اعلان کردیاگیا۔ جنرل عاصم منیر جیسے کند ذہن جرنیل اس بات کا وژن کرنے سے قاصر ہیں کہ اگر آپ نے ایک مرتبہ یہ روایت قائم کردی، گوکہ یہ حقیقت بھی ہے مگر اس کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ کا بھی کورٹ مارشل کرنا پڑے گا۔ سابق ڈی جی آئی ایس پی آرغفور چودھری کا بھی کورٹ مارشل کرنا پڑے گا ۔ سابق آرمی چیف جنرل کیانی کا بھی کورٹ مارشل کرنا ہوگا کیونکہ فوجی جرنیل اور کرنیل تو پچھلے 76 سالوں سے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔ آخر کار بات پوری فوج کی ریپوٹیشن پر ختم ہوگی۔ اگر کچھ لوگوں کو یاد ہوتو آج سے 30 سال قبل فوج کے سیاست میں ملوث ہونے اور تمام سویلین اداروں میں کرپشن کرنے کے حوالے سے معروف مصنفہ عائشہ صدیقہ نے ’’دی ملٹری بزنس ایمپائر‘‘ کے عنوان سے انگلش میں کتاب لکھی تھی جس کے بعد سے فوج کی دھمکیوں کے بعد آج تک وہ لندن میں خودساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہیں ۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کوئی غلط تاثر نہیں ہے کہ پاکستان کے قیام کے بعد سے آج تک پس پردہ پاکستانی فوج ہی ملک کا انتظام چلا رہی ہے اور اس امر سے پوری دنیا واقف ہے۔ امریکن سیکرٹری آف اسٹیٹ ہیلری کلنٹن نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ پاکستان میں ہمیشہ ایک ظاہر ی ڈیموکریٹک گورنمنٹ کے پیچھے ایک اور ڈیپ اسٹیٹ رہی ہے جسے آرمی چلاتی ہے ۔ اپنی کتاب ’’ہارڈ چوائسز‘‘ میں انہوں نے پاکستان کی فوج پر بھی الزامات لگائے کہ اس پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا، اسامہ بن لادن کی مثال دیتے ہوئے ۔ پاکستانی فوج نے اب جو فیض حمید کا کورٹ مارشل کرنے کااعلان کیا ہے وہ پاکستان کی تمام خفیہ ایجنسیوں آئی ایس آئی، آئی بی، ایف آئی اے، این سی ٹی اے اور ایم آئی کی دنیا کے سامنے ناقص کارکردگی کااعتراف ہے کہ فوج کا ایک اتنےبڑے رینک کاآفیسر سات سالوں تک یہ ہینکی پھینکی ،رشوت،کرپشن اور سیاست میں مداخلت کرتا رہے اور ان اداروں کو کانوں کان خبر نہ ہوسکی اور آج اس کا کورٹ مارشل کرنے کا خیال آگیا۔ دراصل یہ فیض حمید کا کورٹ مارشل نہیں ہے بلکہ گزشتہ ایک سال سے سلاخوں کے پیچھے بیٹھے قیدی نمیر804 کوقابو کرنے کی آخری کوشش ہے کہ کسی طرح 9 مئی ،فیض حمید، عمران خان اور پی ٹی آئی کولپیٹ کر ختم کردیا جائے۔ مگر اے بےوقوف جرنیلو! تم اپنے آدھ پائو گوشت کیلئے پوری گائے قربان کرنے پر تیار ہو، کیا تمہیں اندازہ ہے کہ جب سارے جرنیلوں اورکرنیلوں کا دنیا کے سامنے کورٹ مارشل کیا جائے گا تو اس ادارے کی کس قدر سبکی ہوگی اور فوجیوں کوکس قدر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا؟۔

kamran