ارض فلسطین اور اسماعیل ہنیہ !
یاسر عرفات کے بعد فلسطین کی جنگ آزادی کے جس ہیرو نے اپنی شجاعت‘ عزم و ہمت‘ برد باری اور استقامت سے امت مسلمہ کے دل جیتے اسکا نام اسماعیل عبدالسلام احمد ہنیہ تھا۔ وہ 1962 میں بحیرہ روم کے کنارے غازہ کی پٹی میں واقع ایک پنا ہ گزین کیمپ الشاطی میں پیدا ہوے تھے۔ انکے والدین 1948 میں الشاطی سے پچاس میل جنوب کی طرف واقع ایک ساحلی قصبے عسقلان سے ہجرت کر کے یہاں آئے تھے۔ اسوقت عسقلان کی تمام آبادی مسلمانوں اور عیسائیوں پر مشتمل تھی۔ آ ج یہاں صرف یہودی آباد ہیں۔ اسماعیل ہنیہ کی زندگی جانگسل مسافتوں اورنا تمام ہجرتوں کی ایک دلگداز داستان ہے۔ لیکن ایسا صرف دیکھنے والوں کو نظر آتا ہے۔ ارض فلسطین کے اس بطلِ حریت نے اپنی زندگی کو نہ صرف ایک اچھوتے انداز سے دیکھا بلکہ اس نے اسے بسر بھی بڑے مختلف طریقے سے کیا۔ اسکا تصورِ حیات عام لوگوں سے بہت مختلف تھا۔ وہ دنیا بھر میں اپنے وطن کی ایک ممتاز اور مقبول عسکری تنظیم حماس کا چہرہ اور اسکی پہچان تھا ۔ اسکا یہ ولولہ انگیز قول پوری مسلم دنیا میں اسکی شناخت بن گیا۔ اس نے کہا تھا ’’ ہم وہ لوگ ہیں جو موت سے اسی طرح پیار کرتے ہیں جیسے ہمارے دشمن زندگی سے پیار کرتے ہیں۔‘‘ چند ماہ پہلے عیدالفطر کے موقع پر جب اسکے تین نوجوان بیٹوں کو اسرائیل نے ایک فضائی حملے میں شہید کر دیا تو اس نے کہا ’’ یہ تعزیت کی نہیں مبارک کی خبر ہے‘ غزہ کے سب نوجوان میرے بیٹے ہیں۔‘‘ گذشتہ دس ماہ میں اسکے خاندان کے ستر افراد شہید ہوئے ہیں۔ وہ کئی برسوں سے اپنے فرائض کی بجا آوری کے لیے قطر اور ترکی میں رہائش پذیر تھا ۔ وہ اگر چاہتا تو اپنے بیٹوں کو غزہ کے دہکتے ا لائو سے کہیں دور رکھ سکتا تھا لیکن اسے اپنی دھرتی اور اپنے لوگ اپنی جان اور بچوں سے زیادہ عزیز تھے۔ چند روز پہلے جام شہادت نوش کر کے وہ ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا۔ اب اسکا نام جنگ آزادی فلسطین کے نا قابل فراموش مجاہدوں کیساتھ لکھا جائیگا۔
اسماعیل ہنیہ نے 2009 میں غزہ کی اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی۔ وہ جوانی میں ایک شعلہ بیان مقرر تھا اور آخری ایام میں خاموشی‘ تحمل اور بردباری کا استعارہ۔وہ زندگی بھر فلسطین کی آزادی کی جنگ لڑتا رہا۔اس جہد مسلسل نے اسے ایسے مقا م و مرتبے پر متمکن کر دیا تھا جو بہت کم لوگوں کو ملتا ہے۔غزہ میں گذشتہ دس ماہ میں اسرائیل کی بربریت کے نتیجے میں چالیس ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ غزہ کی پٹی پر آباد نو لاکھ فلسطینیوں کا مقدمہ لڑنے کے لیے مذاکرات کاری کا فریضہ اسماعیل ہنیہ کو سونپا گیا تھا ۔ اب اسکی شہادت کے بعد پوچھا جا رہا ہے کہ کیا مشرق وسطیٰ کی سیاست میں کوئی جوہری تبدیلی آ جائیگی۔اسکا انحصار ایران کے رد عمل پر ہے۔ اسماعیل ہنیہ کو بدھ کی شب دو بجے کے قریب ایک ریموٹ کنٹرول ڈیوائس کے ذریعے تہران کی ایک ایسی عمارت میں شہید کیا گیا جو پاسداران انقلاب کے زیر انتظام تھی۔ اس لحاظ سے فلسطینی مہمان کی شہادت نے ایران کی سیکیورٹی ایجنسیوں کی کارکردگی پر کئی سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ اس المناک واقعے نے بلا شبہ ایران کی ساکھ کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ اب ایک دنیا منتظر ہے کہ ایران ‘ اسرائیل کی اس دیدہ درہنی کا کیا جواب دیتا ہے۔ تین جنوری 2020 کو جب امریکہ نے پاسداران انقلاب کے کمانڈر قاسم سلیمانی کو بغداد ایئر پورٹ پر ایک ڈرون حملے میں شہید کیا تو اسکے جواب میں ایران نے عراق میں امریکی فوج کے ایک کیمپ پر چند میزائل داغ کر اپنی رائے عامہ کو مطمئن کر دیا تھا۔ رواں سال اپریل کے مہینے میں اسرائیل نے دمشق میں ایران کے سفارتخانے پر حملہ کر کے پاسداران انقلاب کے بارہ کمانڈر شہید کر دئے تھے۔ اسکے جواب میں ایران نے اسرائیل کی سرحدوں کے اندراسکی فوجی تنصیبات کو ڈرون حملوں کا نشانہ بنایا تھا۔اس معرکے میں امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے تین سو سے زیادہ ڈرون طیارے تباہ کر دئے تھے۔ اسرائیل کے نقصانات اتنے خفیف تھے کہ اس نے اسکے جواب میں اصفہان شہر پر ایک معمولی حملہ کر کے معاملہ رفع دفع کر دیا تھاْ۔
اب یہ بات قابل توجہ ہے کہ کیا اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد بھی ایران کسی علامتی حملے پر ہی اکتفا کریگا۔ اگر تہران کی سیاسی قیادت اسرائیل پر کسی بڑے حملے کا فیصلہ کرتی ہے تو ظاہر ہے کہ پھر جوابی حملہ بھی خطرناک اور تباہ کن ہو گا۔ لگتا ہے کہ ایران اس سرخ لکیر کو اس وقت تک عبور نہیں کریگا جب تک وہ ایک ایٹمی طاقت نہیں بن جاتا۔
اس لیے جب تہران میں ایک فلسطینی مہمان کی شہادت کے نتیجے میں اٹھنے والی گرد بیٹھ جائیگی تو اسرائیل کو بار دگر غزہ میں سو سے زیادہ یہودی حماس کے قبضے میں نظر آئیں گے۔ ارض فلسطین پر حماس ایک ناقابل شکست عسکری طاقت کے طور پر موجود ہو گی۔اسرائیل کی شمالی سرحدوں پر حزب اللہ اسے للکار رہا ہو گا۔خلیج عدن میں حوثی جنگجو تجارتی جہازوں پر گولے برسا رہے ہوں گے۔ مشرق وسطیٰ ویسا ہی ہو گا جیسے وہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت سے پہلے تھا۔ یہ میدان حرب و ضرب اگر یاسر عرفات کے بعد سرد نہیں ہوا تو اب بھی یہ ایک الائو کی طرح دہکتا ہی رہے گا۔ارض فلسطین سے اٹھنے والی آزادی کی تحریکیں اسوقت تک اسرائیل کو بے چین‘ بیقرار اور بے سکون رکھیں گی جب تک فلسطین کے بیٹے غلامی کی زنجیریں توڑ نہیں دیتے۔ جب تک آزادی کا سورج طلوع نہیں ہوتا یاسر عرفات اور اسماعیل ہنیہ پیدا ہوتے رہیں گے۔