مایوسی گناہ ہے!

مایوسی گناہ ہے!

پاکستانیوں، آپ برُی برُی خبریں پڑھ کر، نہیں، دیکھ کر،( کیوں کہ پاکستان میں کتابیں اور اخبار پڑھنا کبھی سے متروک ہو چکا ہے) تنگ آ چکے ہیں، جن میں بجلی کے دل دکھانے والے بل تو سونے پر سہاگہ ہیں، کیوں نہ یہ راقم ان خبروں کے مثبت پہلو دکھائے ۔یا یہ کہ بجائے ان بری خبروں پر مرچ مصالحہ لگانے کے، اور دہشت ناک سرخیاں لگانے کے ، کوئی مثبت پہلو ڈھونڈ نکالے؟کبھی کبھی اپنی مصیبتوں پر ہنسا بھی توجا سکتا ہے؟
پہلی خبر یہ ہے، سال ہا سال بجلی کے روز افزوں بڑھتے بلوں سے یہ راز آشکار ہوا ہے کہ ہمارے پیارے قائدین ، یعنی نواز شریف، شہباز شریف، زرداری، کچھ اشرافیہ کے ارکان اور عسکری قیادت کے سابق افسران نے بیرونی کمپنیوں کے تعاون سے بجلی بنانے کے جوکارخانے لگائے تھے، ان کو جو ادائیگیاں کی جاتی ہیں،خواہ وہ بجلی بنائیں یا نہ بنائیں ، ان کو برابر بھاری رقوم دی جاتی ہیں، جو بعد میں ان پاکستانی مالکوں کو منافع کی شکل میں مل جاتی ہیں۔ اور وہ تمام ادائیگیاں بجلی کے بلوں کے توسط سے سب صارفین سے وصول کی جاتی ہیں۔اب چونکہ یہ راز افشاء ہو چکا ہے، اور پبلک سب جا ن گئی ہے، تو بجلی کے بلوں میںاس بے جا اضافے کے کاٹے جانے کا امکان پیدا ہو گیا ہے کہ آئندہ سے یہ ادائیگی بند ہو جائے گی یا وصول کنندگان اس کا مطالبہ نہیں کریں گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ حکومت ان کی جایدادیں نیلام کر کے ان بجلی گھروں کی رقوم واپس کرے؟ یہ دن انشاللہ جلد آئے گا۔تسلی رکھیں۔ جب تک اپنا گھر کا سامان، قیمتی زیورات، اور دیگر اشیاء کی فروخت کو روک رکھیں۔اور خود کشی کا تو خیال تک دل میں نہ لائیں۔اور اگر خود کشی سے باز نہیں رہ سکتے تو کسی ایسے زر پرست کی جان لیکر مریں جس نے ہمارا جینا حرام کر رکھا ہے۔
پاکستان کی معیشت کو ان نواز لیگیوں اور زرداریوں نے ایسی جگہ پہنچا دیا ہے کہ ان کو اب کوئی ملک قرضہ دینے کو بھی تیار نہیں۔ یہ بہت اچھی خبر ہے۔ ورنہ یہ حکومتیں ہمیشہ اپنا بجٹ خسارے کا بناتی رہی ہیں۔ اس کا مطلب کہ آمدن کم اور خرچے زیادہ۔ ان خرچوں کو پورا کرنے کے لیے، جن میں سب سے بڑا خرچہ قرضوں کی اور ان پر سود کی واپسی، قومی دفاع کا خرچہ جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے ضروری ہوتا ہے، اور حکمرانوں کا پُر تعیش انداز زندگی، نوکر شاہی، اور سیاستدانوں کے گُل چھرے، شامل ہیں۔ ان اخراجات میںتعلیم اور صحت کے شعبوں پر خرچنے کے موجودہ ڈھانچہ کو برقرار رکھنے کے لیے بھی نا کافی ہوتا ہے۔اس میں اچھی خبر یہ ہے کہ جب پاکستان کو کہیں سے بھی کوئی دوست قرضہ دینے پر تیار نہیں ہو گا، تو لا محالہ پاکستانی سیاستدانوں کو سوچنا پڑے گا کو وہ کس طرح محکمہ مال کے افسروں سے پیچھا چھڑائیں اور ملکی خزانہ کو بڑھائیں؟ بجائے ملکی اثاثے بیچنے کے، اپنی عیاشی کو ختم کریں ورنہ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔اب انہوں نے خبر اڑائی ہے کہ آئی ایم ایف انہیں سات ارب ڈالر کا قرضہ دے گا۔ذرا سوچئے کہ اس قرضہ پر شرائط کیا ہوںگی؟ پہلی بات تو یہ کہ یہ ساری رقم ایک ساتھ تو ملے گی نہیں۔ دوسرا یہ کہ پاکستان پر اتنے بیرونی قرضے واجب الادا ہیں، کہ سات ارب ڈالر سے ان کو کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ آئی ایم ایف کو پاکستان پر ترس نہیں آرہا۔ اسے بڑی فکر اس بات کی ہے کہ کہیں پاکستان دیوالیہ ہونے کا اعلان نہ کر دے۔ اگر پاکستان دیوالیہ کا اعلان کر دیتا ہے، جو تقریباً پکا ہے، تو دنیا کی مالی حالت پتلی ہو جائے گی۔ سٹہ بازار میں کساد بازاری سے کروڑوں صارفین اور دولتمندوں کی تجوریاں خالی ہو جائیں گی۔دنیا کے کئی افریقہ اور جنوبی امریکہ کے ملک جو پاکستان کی طرح معاشی بد حالی کا شکار ہیں اور آئی ایم ایف کے قرضدار ہیں، وہ بھی لائین میں لگ جائیں گے اور دیوالیہ کا راگ الاپنا شروع کر دیں گے۔ پھر آپ سوچ نہیں سکتے کہ کیا سماں ہو گا۔کلُ جگ شاید اسے ہی کہتے ہیں۔
اب اس قدر بری خبر میں روشنی کی کرن کیا ہوئی؟ جی ہاں۔ روشنی کی کرن یہ ہے کہ دنیا کے وہ تمام ملک جہاں کورپشن کا راج ہے وہاں کے عوام اٹھ کھڑے ہوںگے۔ اور راشی سیاستدانوں کو تختہ دار پر لٹکا دیں گے۔ یہ اسی موقع کے لیے جناب فیض احمد فیض نے کہا تھا کہ:ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔ جب تاج اچھالے جائیں گے ہم دیکھیں گے۔۔۔اب اس ے اچھی خبر کیا ہو سکتی ہے۔ایک موہوم سی امید ہمیں بھی ہے کہ ہمارے پنجابی بھائی بہن بھی اٹھ کھڑے ہوں گے؟ مگر شاید؟
پاکستان میں نو ن لیگی اور پیپلز پارٹی کے گٹھ جوڑ نے جو رشوت اور لوٹ مار کا بازار گرم کیا ہے، اور سرکاری کارندوں کو زیادہ سے زیادہ مال اکٹھا کرنے پر لگا دیا ہے، اس سے پاکستان دن بدن کمزور ہو رہا ہے۔ اسکا خزانہ جس آمدنی سے بڑھتا ہے وہ آمدنی پہلے ہی غائب ہوجاتی ہے۔ایک چھوٹی یا موٹی سی مثال لے لیں۔ روزانہ ہزاروں ٹرک اور بسیں ایران سے بارڈر پار پاکستان آتی جاتی ہیں۔کچھ پٹرول سے بھرے ہوئے ٹرک اور کچھ اجناس سے۔ بارڈر پر کھڑے سکیورٹی افسران ان سے وزنی ہدیہ وصول کرتے ہیں اور روزآنہ ان بسوں اور ٹرکوں سے کروڑوں روپے کی آمدنی ہوتی ہے،وہ کہاں جاتی ہے؟ قومی خزانے میں تو نہیں جاتی۔یہ راز بھی اب زبان زد عام ہو گیا ہے۔اس لئے اس کا کچھ نہ کچھ اثر تو ہو گا؟ شاید؟یہ کہنے کا مقصد ہے کہ اگر حکومت پر بہت بوجھ پڑے تو شاید وہ ان راستوں کو بند کریں اور قومی خزانے کی طرف ان کا رُخ موڑیں؟ ۔
یہ تو چند باتیں تھیں معیشت کے حوالے سے۔ لیکن جو بلوچستان، پارا چنار اور بنوں میں ہوا یا ہو رہا ہے وہ نہ صرف افسوس ناک ہے بلکہ انتہائی فکر کا مقام بھی ہے۔ہماری سکیورٹی کے محافظ جو امن کی بحالی کے لیے کر رہے ہیں وہ در اصل ایسے طریقے سے کر رہے ہیںکہ وہ نرا ظلم اور ریاستی دہشت گردی لگتی ہے۔ پر امن شہریوں پر گولیاں برسانا، ان پر لاٹھی چارج اوربلا امتیاز زن و مرد، بچہ یا بزرگ ان پر وحشیانہ تشدد بالآخر ان با وردی افسران کی عزت و وقار کیا عوام کی نظروں میںکیا ان کی عزت خاک سے نہیں ملا دے گا؟ پاکستان میں ووٹرز کی اکثریت پہلے ہی اپنی فوج، عدالتوں، پولیس اور حاکموں کو ننگا دیکھ رہی ہے۔ان قومی اداروں کو عوام میں اپنی ساکھ بحال کرنے میںکئی دہائیاں لگ جائیں گی۔اس حکومت نے ایک مقبول عام، قانونی، اور اکثریتی سیاسی پارٹی بنام پاکستان تحریک انصاف کو کمزور کرنے، بلکہ سیاسی میدان سے ایک دم ہٹا دینے کے غیر جمہوری عمل شروع کیا ہے اس میںمعصوم کارکنوں، عورتوں اور بزرگوں کو بلا امتیاز جیلوںمیں ٹھونس دیا ہے اور سال گزر جانے کے بعد بھی ان کو عدالتوں میں پیش نہیں کیا گیا۔ کیا یہ سب ان کے محبوب قائد عمران خان سے ناک سے لکیریں نکلوانے کے لیے؟ایسی قوم کا کوئی کیا اعتبار کرے گا؟ کیوں قرضے دے گا اور ایسے ملک میں کیوں کوئی سرمایہ کاری کرے گا؟بھلا اس میں کون سی اچھی خبر چھُپی ہے؟ جی ہاں۔ اچھی خبر یہ ہے کہ جب اس حمام میں سب ننگے ہو گئے ہیں تو عوام اچھے برُے میں تمیز کر سکیں گے، اور پاکستان میں اچھے لوگ حکمران بنیں گے اور ہماری تقدیر بدل جائے گی۔ کیا خیال ہے آپ کا؟
بھائیو اور بہنوں۔ جب سے پاکستان میں گندم کی پیداوار اور کسانوں کے ساتھ اس حکومت نے کھلواڑ کیا ہے، کسان حضرات ناراض ہو گئے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ہم گندم کیوں اگائیں جب کہ اسے حکومت خریدتی ہی نہیں اور مارکیٹ میں قیمت اتنی کم ہو جاتی ہے کہ ہمیں بجائے فائدے کے نقصان ہوتا ہے۔اگر کسانوں کو حکومت نے کوئی اچھی حکمت عملی نہ دی تو آئندہ برس قحط کے لیے تیار ہو جائیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ دنیا میں کئی ممالک میں کسان اس قسم کے حالات سے نبٹنے کے لیے، اجناس کو سٹور کر لیتے ہیں جیسے بڑے بڑے مٹی کے گودام بنا کر ان میںگندم ، چاول، اور مکئی وغیرہ کو رکھ لیتے ہیں اور جیسے جیسے مارکیٹ میں ان اجناس کی قیمت بڑھتی ہے وہ اپنے ذخیرہ سے نکال نکال کر فروخت کرتے ہیں۔ یہ اکثر ایسے ملکوں میں ہوتا ہے جہاں حکومت اجناس نہیں خریدتی۔لیکن پاکستان جیسے ملک میں جہاں حکومت نے بجائے اپنے کسانوں سے گندم لینے کے یوکرین سے گھٹیا گندم ڈالر دیکر خریدی ۔ کیوں؟ ہو سکتا ہے امریکہ نے دباوٗ ڈالا ہو؟ یا ہمارے پیارے حکمرانوں کواس سودے میں بھاری کمیشن نظرآیا ہو؟ یا دونوں ہی باتیں ہوں۔ مگر نقصان تو پاکستان کا ہوا اور اس کے کسانوں کا۔کسانوں سے ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ و ہ بھی آئندہ فصل آنے سے پہلے اس کی بحفاظت سٹوریج کا بندو بست کرلیں اور گندم کو جہاں تک ممکن ہو تب تک مارکیٹ میں نہ لائیں جب تک اسکے نرخ مناسب نہیں ملتے۔اگر حکومت کا کوئی قانوں اس کام میں رکاوٹ ڈالے تو اس کو بدلوانے کے لیے احتجاج کریں، دھرنے کریں، جیسے کہ بھارتی کسانوں نے کیا۔ ان حالات میں اس سے اچھی خبر اور کوئی نہیں ہو سکتی۔البتہ گھریلو صارفین کیا کریں؟ وہ بھی کسی حد تک ذخیرہ اندازی کر سکتے ہیں، لیکن ان کو گندم اور دوسری اجناس کی زیادہ قیمت دینی ہو گی جو کہ حالات کا تقاضا ہے۔کم از کم گندم ملتی تورہے گی۔عوام اپنی آمدنی بڑھانے کے طریقوں پر بھی غور کریں۔سچ تو یہ ہے جب آپ کو معلوم ہو کہ کیسا وقت آنے والا ہے، تو آپ حفاظتی تدابیر اختیار کرتے ہیں۔اب چونکہ آپ کو آنے والے وقت کی سنگینی کا اندازہ دے دیا گیا ہے، تو آپ اس کا مقابلہ بہتر طریقے سے کر سکیں گے۔
پاکستانی شہروں میں حفظ عامہ کا مسئلہ سنگین ہے۔ ذرا بارش ہو تو گلی کوچہ تالاب بن جاتے ہیں حالانکہ انہیں بننا نہیں چاہیے۔اس لیے کہ اگر بارش کے پانی کی نکاس کی نالیاں صاف ہوتی رہیں اور بجلی کے پمپ اپنا کام کریں تو بارش کا پانی بہتا رہتا ہے اور زیادہ دیر تک سڑکوں پر جمع نہیں رہتا۔لیکن ہمارے شہروں میں اول تو ساکنین کو اتنا شعور نہیں کہ وہ کھلے گٹروں اورنالیوں میں ایسا کچرا نہ ڈالیں جو ان کوبند کر دے۔ دوسرے، جو میونسپلٹی اور کارپوریشن کے ملازمین ہیں، وہ اپنے فرائض ادا نہیں کرتے۔سنا جاتا ہے کہ یہ ملازمین بجائے سڑکوں اور نالیوں کی صفائی کرنے کے، اپنے افسروں کے گھروں میں کام کرتے ہیں، اور تنخواہ محکمے سے لیتے ہیں۔اور تیسری اہم وجہ آبادی کا بڑھنا ہے جس کے بڑھنے کی رفتار ،شہر کے ذرائع کے بڑھنے سے زیادہ ہوتی ہے۔ یہ وجوحات ایسی ہیں جن کو حل تو کیا جا سکتا ہے لیکن ارباب حل و عقد سمجھتے ہیں کہ بارش کا پانی قدرتی عمل سے ایک نہ ایک دن چلا ہی جائے گا، اس لیے کیوں پریشان ہوں۔لوگوں کا کیا ہے؟ لوگ کتنے بھی تنگ ہوں، وہ بھی بھول جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آپ کو بھی پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ اور ہر حال میں مسکراتے رہنا چاہیے۔
یاد رکھیں۔ اب پاکستان کوایک بھکاری ملک گنا جاتا ہے۔اس کی بیرونی دنیا میں ساکھ اب اتنی رہ گئی ہے کہ کوئی دوست ملک بھی اسے قرضہ دینے کو تیار نہیں۔ اور آئی ایم ایف ، ایک سود خور پٹھان کی طرح قرضہ تو دیتا ہے مگر رُلاکر۔پاکستان کی عدلیہ دنیا کی عدلیہ میں آخر سے ذرا اوپر گنی جاتی ہے۔البتہ دنیا کے کورپٹ ترین ملکوں میں ہمارا شمار اونچی سے اونچی جگہ پر کیا جاتا ہے۔ہماری آبادی کو سب سے کم پڑھی لکھی جانتے ہیں۔ ہمارے دو کروڑ بچے جنہیں سکول میں ہونا چاہیے وہ سکول سے باہر ہیں۔ خیر یہ تو تعلیم کی بات ہے۔ پاکستانی سوشل میڈیا پراکثر لکھا گیا ہے کہ تعلیم کوئی اتنی ضروری چیز بھی نہیں۔ان پڑھ لوگ بھی بہت دانائی کی باتیں کرتے ہیں۔ ویسے بھی دانا کہتے ہیں جنہوں نے پاکستان میں تعلیم حاصل کی انہوں نے کیا تیر مار لیا۔بی اے ایم اے سڑکوں پر جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں۔ کس نہ پرسد کہ بھیا کیستی۔اس لیے غم نہ کریں۔یاد رکھیں کہ دنیا میں ہم سے بد تر ملک بھی ہیں۔ خواہ تھوڑے سے سہی۔ ہم بھی اب اتنے بھی گئے گزرے نہیں۔بزرگوں نے کیا خوب ہی کہا ہے: مایوسی گناہ ہے۔

kamran