صوابی کا جلسہ اور حسینہ کا تختہ! دونوں میں کوئی قدرِ مشترک ہے؟

صوابی کا جلسہ اور حسینہ کا تختہ! دونوں میں کوئی قدرِ مشترک ہے؟

اس ہفتے پانچ اگست کو تین اہم واقعات رونما ہوئے جن سے عوامی رائے عامہ کے رجحان کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں ہے۔ پہلا واقعہ جو ہوا وہ پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ سابقہ مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش میں 1971ء کی علیحدگی کے بعد ان ہی بنگالیوں نے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔بنگلہ دیشی فوج کی آشیرباد کے ساتھ قائم شیخ حسینہ کی ڈکٹیرانہ حکومت کا آخر کار بنگلہ دیشی طلبہ نے چار ہفتوں کی جدوجہد کے بعد تختہ الٹ دیا۔ عوام کے غیظ و غضب کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے بنگلہ دیشی آرمی چیف نے فوجی کٹھ پتلی اور فاشسٹ ڈکٹیٹر شیخ حسینہ کو45 منٹ کا نوٹس دے کر ملک بدر کر دیا۔ ان کے فرار کے بعد آرمی نے اعلان کیا کہ سیاسی پارٹیوں پر مشتمل ایک مخلوط پرو آرمی حکومت بنائی جائے گی۔ آرمی چیف کا خیال تھا کہ ان کے اس اقدام سے طلباء خوش ہو کر گھروں کو واپس چلے جائیں گے مگر ان کی امیدوں پر اس وقت پانی پھر گیا جب انہوں نے اعلان کیا کہ وہ کسی بھی پرو فوجی غیر نمائندہ فاشسٹ حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے۔ فوج اس عمل سے دو رہے اور نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس نئی عبوری حکومت کے سربراہ ہونگے۔ اس وقت بنگلہ دیشی طلباء ملک کا نظام چلارہے ہیں۔ بنگلہ دیشی صدر شہاب الدین نے طلباء کے مطالبے کو مانتے ہوئے پارلیمنٹ تحلیل کر دی ہے، ہزار سے زائد طلباء کو رہا کر دیا ہے، گزشتہ چھ سال سے گرفتار سابق وزیراعظم خالدہ ضیاء کو رہا کر دیا ہے اور دیگر معاملات میں صدر فوج کے بجائے طلبا سے ہدایت لے رہے ہیں۔ بنگلہ دیشی سافٹ انقلاب کے بعد گزشتہ 53سالوں کے انڈین اثرات کا بھی خاتمہ ہو گیا ہے۔ ڈھاکہ میں انڈین کلچر سینٹر کو آگ لگا دی گئی اور انڈین ایمبولینسز کو بھی تباہ کر دیا گیا۔ تمام مظاہروں میں عوام بھارتی حکومت کے خلاف نعرے بھی لگاتے رہے۔
دوسرا واقعہ صوابی میں ہوا جہاں پی ٹی آئی کے بانی، سابق چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے ایک سال مکمل ہونے پر لاکھوں افراد نے جمع ہو کر آزادی اور انقلاب کے نعرے بلند کئے۔ فوجی کٹھ پتلی حکومت نے اس لاکھوں کے جلسے کی ایک جھلک بھی کسی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر نہ آنے دی مگر پھر بھی ساری دنیا کے میڈیا پر وہی ویڈیوز، تصاویر اور خبریں چلتی رہیں۔ عملی طور سے اس وقت پاکستان میں غیر اعلانیہ مارشل لاء لگا ہوا ہے، بنگلہ دیش کی طرح شخصی آزادیاں سلب ہیں اور ایک گھٹن کا ماحول ہے۔ صوابی جلسے میں اعلان کیا گیا ہے کہ اگلا جلسہ اسلام آباد میں ہو گا اور حکومت پریشان ہے۔ اب آتے ہیں کہ بنگلہ دیش کی بغاوت اور پاکستان میں جاری نیم بغاوت کی چند مماثلتوں کی طرف:
٭ بنگلہ دیش کے نوجوان طلبہ کی طرف سے انقلاب لانے کے بعد پاکستان میں بھی کروڑوں پاکستانی نوجوانوں عمران خان کے حق میں بے چین کھڑے ہیں۔
٭بنگلہ دیش کے عوام کی طرح پاکستانی عوام کی اکثریت بھی فوجی جرنیلوں اور ملک کی سیاست میں فوج کے ملوث ہونے اور مداخلت کے خلاف ہے۔
٭شیخ حسینہ نے لاکھوں عوام کو دہشت گرد قرار دیا تھا، اس ہفتے فوج کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی کروڑوں پاکستانیوں کو ڈیجیٹل دہشت گرد اور بلوچ راہ نما ماہ نور بلوچ اور ان کے ساتھیوں کو دہشت گرد قرار دیا ہے۔
٭ شیخ حسینہ نے بھی بنگلہ دیش کے سپریم کورٹ اور عدلیہ میں اپنی مرضی کے ججز لگائے تھے اور پاکستان میں بھی فوجی جرنیلوں اور کٹھ پتلی حکومت نے قاضی فائز عیسیٰ اور عامر فاروق کو خریدا ہوا ہے اور اپنی مرضی کے فیصلے کرواتے ہیں۔
٭بنگلہ دیش میں فوج نے اپنی مرضی سے چلنے والی شیخ حسینہ کی نام نہاد حکومت قائم کی ہوئی تھی اور پاکستان میں بھی چند جرنیلوں نے فارم 47 کے ذریعے زرداری اور شہباز کی فیک، جعلی، کٹھ پتلی ھکومت قائم کی ہوئی ہے۔
٭بنگلہ دیش میں کوٹہ سسٹم کی وجہ سے عام عوام شدید غصے میں آگئے تھے۔
پاکستان میں بھی لوگ گیس، پٹرول، بجلی اور مہنگائی کی وجہ سے عالم غیظ و غضب میں ہیں اب آتے ہیں پانچ اگست کے دن ہونے والے تیسرے واقع کی طرف۔ پانچ اگست کو پاکستان آرمی کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل احمد چودھری کی سرکاری پریس کانفرنس ہوئی جس میں انہوں نے پی ٹی آئی سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ جنرل عاصم منیر بھی بنگلہ آرمی چیف کی طرح اپنی بیستی کرانے پر تلے ہوئے ہیں کچھ لوگ دوسرے کے تجربے سے دیکھتے ہیں اور کچھ لوگ خود کو برباد کر کے سیکھتے ہیں۔

kamran