اثرات

اثرات

ابھی بجلی کی ازحد گرانی کا ،بلوں میں درج بیجا ٹیکسوں کا شور پوری طاقت سے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر حکومتی زیادتیوں پر سراپا احتجاج ہے مگر حکومت پاکستان کی ٹرپل سی پلس ریٹنگ ہونے پر بھنگڑے ڈال رہی ہے اور اسے اپنی قربانیوں کا ثمر قرار دے رہی ہے کاش کہ معاشی درجہ بندی کرنے والا ادارہ فچ ذرا غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والوںاور ان کی آمدن و اخراجات کا تناسب بھی دیکھ لیتا تو شاید حقائق کو دیکھتے ہوئے ٹرپل سی ریٹنگ سے اجتناب برتتا ۔جس ملک میں غریب لوگ ،چھوٹے گھروں کے مکیں اپنی سائیکلیں اور موٹر سائیکلیں بیچ کر بجلی کے بل جمع کرائیں وہاں کیسے معاشی خوشحالی ممکن ہے ؟حکومت عام آدمی کی یا کسی چھوٹے تنخواہ دار کی آمدنی کے حوالے سے اُس کی روزمرہ زندگی کی بنیادی ضروریات کا حساب کرے تو موجودہ معاشی صورت ِ حال کے آئینے میں انھیں معیشت غرباء کا خون چوستی نظر آئیگی فی کس آمدنی میں بھارت ،بنگلہ دیش سے پیچھے رہنے والے نہ جانے کیوں خوش فہمیوں میں مبتلا رہتے ہیں آئی پی پیز کے چالیس خاندان قوم کومعاشی طور پر مفلوج کر رہے ہیں اور مسند نشین اپنی قصیدہ گوئی سے فارغ نہیں ہو رہے ہیں ایسے اذہان کو دیکھتا ہوں تو بخدا دل خوش ہوتا ہے جب سٹیبلشمنٹ ان کے کاموں میں مداخلت کرتی ہے پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ ہمارے ہاں سیاسی زعماء کمسن بچوں کی طرح ہیں جنھیں سٹیبلشمنٹ کی سرپرستی کے بغیر نہیں چھوڑا جا سکتا اہلیت سے خالی یہ لوگ صرف ذاتی مفادات کو انا کی چادر میں لپیٹنا جانتے ہیں یہ سوال ضرور ذہن میں گردش کرتا ہے کہ اگر چند خاندان مقتدر قوتوں کی موجودگی میں ،اُن کی سرپرستی میں قوم پر مہنگی ترین بجلی بیچ رہے ہیں تویہ د فاع کے ضامن ان کے خلاف کاروائی سے گریزاں کیوں ہیں ؟اس یکطرفہ مفاد والے معائدے کوابھی تک جلایا کیوں گیا جس کے نفاذ سے پورا وطن جل رہا ہے ؟لیکن جماعت ِ اسلامی کے احتجاج و دھرنے سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ان دیکھی طاقتوں کو بھی بے بس عوام کا معاشی قتل ِ عام منظور نہیں ہے مجھے امیر ِ جماعت ِ اسلامی کا کسی دوسری سیاسی جماعت سے احتجاجی اکٹھ کرنے سے انکار پر اس مذکورہ خیال کو تقویت ملتی ہے گو کہ چند روزہ احتجاج سے غریبی یا عوامی لوٹ مار کے اثرات کم نہیں ہونے لہٰذا گزارش ہے محبان ِ وطن سے کہ احتجاج کو عملی طور پر کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے ہر شہری بلا غرض و غایت اس میں دامے درمے سخنے اپنا حصہ ڈالے یہ وقت سیاسی وفاداریاں نبھانے کا نہیں ملک و قوم سے وفا کرنے کا وقت ہے اور ہاں فلسطین کے مسلمانوں سے زبانی نہیں عملی یکجہتی کر کے اسرائیل کے مقاصد کو زیرو کرنا انتہائی ناگزیر ہے آج ایران کو اسرائیل نے جس طرح غیر محفوظ قرار دیتے ہوئے اسماعیل ہنیہ کی شہادت کی ہے دوسرے لفظوں میں اسرائیل نے مسلم اُمہ کو اپنی طاقت کے بل بوتے پر ،امریکہ کی سرپرستی کی وجہ سے کمزور اور غیر محفوظ سمجھ لیا ہے اب وہ مسلم خطے میں بغیر کسی سفارتی آداب کو خاطر میں لائے جو چاہے گا وہ کرے گا اگر مسلم اُمہ موجودہ روش کے تحت بٹی رہی تو فلسطین کی جنگ اپنی دنیا سے اپنے حدود و اربع سے نکل کر دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے کچھ نہیں تو امن کے لئے ہی اقدامات کرنا لازمی امر ہے تاکہ جنگ کے اثرات سے امن متاثر ہونے سے بچ جائے عوام کے ووٹ لیکر اُن سے غریبی مٹانے کے وعدے کر کے اقتدار پہ بیٹھے یہ حکمران کیوں نہیں بجلی گیس ،پٹرول و دیگر اشیائے خوردو نوش کی قیمتوں کو کم کرتے ؟ کسی بھی چیز کی قیمتیں بڑھا کر پھر دو چار روپے کم کرنا شعبدے بازی ہے یہ طرز ِ عمل معاشی بہتری نہیں کہلاتا ہے ان حالات کے پیش ِ نظر اور قحط الرجالی کے اس دور ِ حکومت میں سٹیبلشمنٹ کا ریاستی مسائل کے حوالے سے مداخلت کے ساتھ ساتھ درست سمت متعین کرنا ثواب ِ دارین ہو گا کیونکہ عوام الناس کو مختلف قسم کے مافیاز سے نجات دلانا ۔اُنھیں معاشی آسودگی دینا اور ریاستی لین دین کو سود کی غلاظت سے پاک کرنا عبادت کا درجہ رکھتی ہے جسے کسی دوسرے پر چھوڑنے کی بجائے جنرل عاصم منیر صاحب خود انجام دے دیں تو یہ اُمور بھی عبادت سے کم کا در جہ نہیں رکھتے اس کے دورس اثرات معاشرے پر پڑیں گے تو مصنوعی بحران بشمول آئی پی پیز کے زمیں بوس ہو جائیں گے مقصد یہ نہیں کہ جمہوری نظام کو تیغ و بالا کیا جائے اسی نظام میں رہتے ہوئے صرف سیاست کا قبلہ درست کرنا ہے تا کہ آنے والی نسلوں کو اچھے اثرات ملیں ۔

kamran