سفید پوشی کا بھرم اور ایک ڈکیت حکومت!
میر صاحب (خدائے سخن میر تقی میر) نے تو اللہ کی حاکمیت اعلی اور اس کے قادرِ مطلق ہونے کا احساس کرکے انسان کی رب کائنات کے سامنے بے بسی کا اظہار یوں کیا تھا:
؎ناحق ہم مجبوروں پر تہمت ہے مختاری کی
جو چاہیں سو آپ کرے ہیں ہم کو عبث بدنام کیا!
میر صاحب تو اپنی فاقہ مستی کو اللہ کی رضا مان کر صبر کر بیٹھے لیکن وہ چھٹ بھیے جو فوج کی قیادت پر قابض یزیدی ٹولہ کی پاکستانی عوام کے خلاف سازش کے نتیجہ میں ان پر مسلط کردئے گئے ہیں ان دو دو ٹکے کے ارضی خداؤں نے پاکستانی عوام کی زندگیوں کو عذاب بنادیا ہے۔غریب تو ہر حکومت کے دور میں فقر و فاقہ کی چکی میں پستے رہنے کے عادی ہوچکے ہیں لیکن ان بد بخت چھٹ بھیوں کے تیر ستم کا نشانہ وہ بنے ہیں جو نام کے شریف نہیں بلکہ واقعی شریف ہیں، نجیب ہیں اور اس طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں جسے سفید پوش کہا جاتا ہے۔
نئے بجٹ میں چھٹ بھیوں کی تیغِ ستم جن گردنوں پر گری ہے وہ گردنیں متوسط طبقہ کے سفید پوشوں کی ہیں۔ صاف نظر آرہا ہے کہ ڈکیت حکمرانوں اور ان کے ننگِ قوم سہولت کاروں کا شیطانی منصوبہ پاکستانی معاشرے سے متوسط طبقہ کے سفید پوشوں کا صفایا کرنے کا ہے۔
گذشتہ تین چار دہائیوں میں سفید پوشوں کا وہ طبقہ جسے دانشوروں کے نام سے پہچانا جاتا تھا زیادہ تر تو مغرب، خاص طور پہ امریکہ اور کینیڈا میں بس چکا ہے۔ یہ اس وجہ سے ہوا کہ بھٹو، زرداری اور نام کے شریفوں جیسے موروثی، چور و ڈکیت سیاستدانوں کے وردی پوش ڈکیت کی سربراہی اور معاونت سے ملک کی سیاست پر غلبہ نے دانشوروں کو آنے والے خطرہ کی خبر دے دی تھی۔ انہوں نے ہوا کا رخ دیکھ کے یہ جان لیا تھا کہ پاکستان میں سیاست لوٹ مار کا کاروبار بننے کے ساتھ ساتھ قوم کی اخلاقی اور تہذیبی پستی اور زوال کا پیش خیمہ بھی بننے جارہی تھی۔ دانشور اور صاحبانِ رائے اس زوال کے شرکاء نہیں بن سکتے تھے لہٰذا انہوں نے اسی میں اپنی عافیت جانی کہ ملک کو خیرباد کہہ کے سات سمندر پار وہاں جابسیں جہاں انسانی اقدار کو دولت کی ترازو میں نہیں بلکہ اخلاقیات کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔
جو سفید پوش بوجوہ ملک سے باہر نہیں جاسکے وہ ان ڈکیت اور بد تہذیب حکمرانوں اور ان کے سہولت کاروں کے تیروں کی زد پر آگئے اور نئے بجٹ میں ٹیکسوں کا جو بوجھ اس سفید پوش اور تنخواہ دار طبقہ پر لادا گیا ہے اس نے نہ صرف ان کی کمر توڑکے رکھدی ہے بلکہ انہیں یہ احساس بھی دلادیا ہے کہ نام نہاد اشرافیہ اور ان کے وردی پوش غنڈہ جرنیلوں کا اصل ہدف وہی ہیں اور معیشت کی تباہ حالی اور بربادی کا، جس کے اصل ذمہ دار یہی ڈکیت اور ان کے سرپرست ہیں، تمام تر ملبہ سفید پوشوں پر ڈال دینے کی باقاعدہ سازش نظر آرہی ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے اور موقر روزنامہ، ڈان نے اپنی 29 جولائی کی اشاعت میں ایک تفصیلی رپورٹ اس تنخواہ دار اور سفید پوش طبقہ کی حالتِ زار پر شائع کی ہے جسے پڑھ کر ہمیں تو ان مجبوروں پر ترس آرہا ہے۔
ڈان کی رپورٹ میں تفصیلی حوالہ ہے گلوبل انڈیکس کی ایک ریسرچ یا تحقیقات کا جس کے مطابق پاکستان کا تنخواہ دار طبقہ آمدنی کے لحاظ سے دنیا کے 96 ممالک کی فہرست میں 94 نمبر پر آتا ہے اور صرف دو ممالک، مصر اور کیوبا اس کے نیچے ہیں۔
پاکستان میں انکم ٹیکس کی ادائیگی کے بعد تنخواہ دار کی اوسط آمدنی صرف 184 امریکی ڈالر ہے جبکہ بھارت میں یہ اوسط آمدنی 620 ڈالر بنتی ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ تنخواہ سے آمدنی سوئٹزرلینڈ میں ہے جہاں اوسط تقریبا” 6800 ڈالر بنتی ہے۔
ستم بالائے ستم یہ ہے جس پر ہمیں وہ پرانا مقولہ یاد آگیا کہ مرے کو مارے شاہ مدار، کہ پاکستان کی اپنی بزنس کونسل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا تنخواہ دار طبقہ بھارت کے مقابلہ میں تین گنا زیادہ ٹیکس ادا کرتا ہے!
ٹیکس محض آمدنی پر ہی نہیں ہے، جسے عرفِ عام میں انکم ٹیکس کہا جاتا ہے اور جوتنخواہ پانے والے ادا کرنے پہ مجبور ہیں کہ ان کی تنخواہ سے پہلے یہ ٹیکس کاٹا جاتا ہے پھر جو بچتا ہے وہ انہیں آمدنی کے طور پہ دے دیا جاتاہے۔
انکم ٹیکس کے علاوہ پاکستان میں ستر دیگر ٹیکس ہیں جن سے شرفاء کا بچنا محال ہے۔ یہ ٹیکس بجلی کے بلوں سے لیکر ریل کے کرایوں تک، ہر چھوٹی بڑی چیز پر وصول کئے جاتے ہیں جن سے مفر محال ہے۔
ہاں اگر ٹیکس نہیں دیتے تو جاگیردار اور بڑی بڑی ملوں کے مالکان جو یا خود یا ان کے نمائندے اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں اور ان کا کام یہی ہے کہ نہ زراعت پر ٹیکس لگے نہ جائیداد کی خرید فروخت پر۔
زرعی ٹیکس تو یوں نہیں لگتا کہ پاکستان میں زراعت سے وابستہ یا تو جاگیردار اور زمیندار ہیں یا وہ جرنیل جو ملک کو اپنے باپ دادا کی میراث سمجھ کر دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔
بہت سے قارئین کو یہ علم نہیں ہوگا کہ فوج کے ہر جرنیل، چاہے وہ ایک ستارے والا ہو یا تین،یا چار ستاروں والا اسے زرعی زمینیں مفت دی جاتی ہیں اور وہ زمینیں دی جاتی ہیں جو بارانی پانی کے رحم و کرم پہ نہیں بلکہ جنہیں نہروں کے پانی سے بارہ مہینے سیراب کیا جاتا ہے۔
رہا پراپرٹی کا لین دین تو اس کاروبار پر تو جرنیل برسہا برس سے چھائے ہوئے ہیں۔
پاکستان کا کونسا بڑا شہر ہے جہاں ڈیفنس ہاؤسنگ کالونی نہیں ہے، ایک نہیں کتنی ہی کالونیاں ہیں جن کی جائیداد پراپرٹی ٹیکس سے مبرا ہے اور جائیداد کی خرید فروخت پر بھی، جو تمام کا تمام وردی والے کرتے ہیں، کوئی ٹیکس نہیں لگتا۔
وردی کا چمتکار تو یہی ہے کہ ہلدی لگے نہ پھٹکری پر رنگ چوکھا آئے۔
عمران کی دشمنی جو ان یزیدی جرنیلوں کیلئے زندگی اور موت کا سوال بن چکی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ نہیں کہ عمران ریاست اور سیاست کے معاملات سے ان یزیدیوں کو بیدخل کرنا چاہتا ہے۔ اصل جو سب سے بڑی وجہ ہے وہ یہ کہ یہ جو کاروباری مافیا بن چکے ہیں اور 80 سے زیادہ صنعتیں اور دنیا بھر کے کاروبار چلارہے ہیں، جن میں ڈیری فارم سے لیکر کپڑے اور شکر کے کارخانے سبھی کچھ شامل ہے، عمران کی سیاست سے انہیں یہ مافیا ایمپائر ڈولتی اور ڈوبتی نظر آرہی ہے اور اسی لئے یزیدی ٹولہ یہ چاہتا ہے کہ عمران جیل سے باہر نہ آنے پائے۔
لیکن یزیدیوں کے زوال کے نقارہ پر چوٹ پڑچکی ہے اور بیرکوں میں واپسی کا بگل بج گیا ہے۔
جماعتِ اسلامی جو پاکستان کی سب سے منظم سیاسی جماعت ہے اس نے راولپنڈی میں بجلی کے بلوں میں ہوشربا اضافہ اور مہنگائی کے خلاف کئی دن سے دھرنا دیا ہوا ہے جس نے یزید عاصم منیر اور اس کے ہمراہیوں کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں لیکن یک نہ شد دو شد کے مصداق اب عمران کی تحریکِ انصاف کے سرکردہ اراکین نے بھی عندیہ دے دیا ہے کہ وہ اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دینے والے ہیں اور یہ دھرنا اس وقت تک جاری رہے گا جب تک عمران خان کو رہا نہیں کردیا جاتا۔
جماعتِ اسلامی نے بھی یہ اشارہ دے دیا ہے کہ وہ اپنے دھرنے کو بھی وہیں لیجائینگے جہاں اسلام آباد کے ڈی-چوک میں تحریکِ انصاف کا دھرنا ہوگا۔
تو ملک کی ان دو سب سے مقبول، سب سے بڑی اور منظم جماعتوں کے اشتراک نے یزیدی ٹولہ کی چولیں ہلادی ہیں۔ یزیدیوں کے سیاسی گماشتے، ن-لیگ کے چھٹ بھیے اور عطا تارڑ جیسے بھانڈ گیدڑ بھبکیاں تو دے رہے ہیں لیکن اس سے زیادہ ان نوسربازوں کی اوقات بھی نہیں۔ یہ تو ہز ماسٹر وائس کے لوگو یا کاروباری نشان پر بیٹھنے والے اس کتے کی مانند ہیں جو بھونک تو سکتا ہے کاٹ نہیں سکتا۔
میر صاحب بیچارے تو اپنی غربت اور کسمپرسی کو اوڑھ کر لکھنؤ کی سرزمین میں سو رہے لیکن زندہء جاوید ہوگئے اپنے شعری سرمائے کی بدولت۔
پاکستان کے سفید پوش اب عمران خان اور تحریکِ انصاف کی طرف دیکھ رہے ہیں جو نہ صرف ان کی سفید پوشی کا بھرم رکھ لے بلکہ انہیں اور پوری قوم کو اس یزیدی ٹولہ کی غلامی سے بھی نجات دلوا سکے جو پاکستان کو مفتوحہ سرزمین کی مانند لوٹنے کے عادی ہوچکے ہیں۔
لیکن اب، بہت جلد، اللہ نے چاہا تو اس ملک دشمن ٹولہ کا بھی وہی شرمناک انجام ہوگا جو چوہے ٹائیگر نیازی اور اس کے بے غیرت اور بے حمیت جرنیلی ٹولہ کا ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہوا تھا !
پاکستان کی بقا اور سالمیت کیلئے یزید عاصم منیر اور اس کے جرنیلی ٹولہ سے نجات ناگزیر ہوچکی ہے ورنہ، میرے منہ میں خاک، پاکستان کے وجود پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان مسلط رہے گا!