ہفتہ وار کالمز

جنرل عاصم منیر ایک ذہنی مریض ہے! حیات اور صحت مند عمران خان کاایک ماہ کی گمشدگی کے بعد پہلا بیان!

ایک ماہ تک سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی صحت اور زندگی کے حوالے سے پوری دنیا میں جاری چہ مگوئیوں اور خدشات کی رپورٹس کے بعدآخر کار عالمی دبائو کے آگے جنرل عاصم منیر نے گھٹنے ٹیک دئیے اور عمران خان کی ہمشیرہ ڈاکٹر عظمیٰ بخاری کی بیس منٹ کی ملاقات کرا دی۔ دوسری وجہ ملاقات کرانے کی وہ ہزاروںافراد کا اڈیالہ جیل کے اطراف مجموعہ تھا جو تمام تر رکاوٹوں اور دفعہ 144کے نفاذ کے باوجود وہاں موجود تھا۔ اچھی بات یہ ہے کہ پولیس اور رینجرز نے چھبیس نومبر کی طرح ان لوگوں کے سروں پر سیدھی گولیاں نہیں چلائیں۔ ڈاکٹر عظمیٰ خان کی عمران خان کیساتھ بیس منٹ کی ملاقات کے بعد آخر وہی ہوا جس کا جیل میں بیٹھے جنرل عاصم کے کرنیل کو تھا کہ کہیں ملاقات کے بعد عمران خان کی طرف سے کوئی جارحانہ بیان نہ آجائے۔ پہلی بات جو ڈاکٹر عظمیٰ خان نے باہر آ کر کہی وہ یہ تھی کہ عمران خان نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے وہ عاصم منیر کرا رہا ہے، جنرل عاصم منیر ایک ذہنی مریض ہے۔ عمران خان نے کہا کہ جنرل عاصم منیر کے حکم پر ہی ان پر اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو مسلسل قید تنہائی میں رکھا جا رہا ہے اور ذہنی طور پر ٹارچر کیا جا رہا ہے جو اس شخص کے گھٹیا پن کا مظاہرہ ہے۔ عظمیٰ خان نے بتایا کہ عمران خان ملکی حالات پر بہت اپ سیٹ اور غصے میں تھے۔ اس ملاقات کے بعد حسب توقع عمران خان کے آفیشل ایکس اکائونٹ پر تفصیلی ٹوئٹ آگیا ہے جو بخود ایک واضح اسٹیٹمنٹ کا درجہ رکھتا ہے۔ ایک غصہ ور عمران خان نے پارٹی کے میر جعفروں اور میر صادقوں سے لیکر پاک۔ افغان تعلقات پر سہیل آفریدی کو فرنٹ فٹ پر کھیلنے کا مشورہ دینے تک، شاہد خٹک کے پارلیمانی لیڈر نامزد کرنے سے لیکر این۔ ڈی۔ یو کی ورکشاپ تک، ڈاکٹر یاسمین راشد سے لیکرشاہ محمود قریشی تک، پھر بھی عمران خان ایک مربوط اور کمپوز لیڈر نظر آیا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک شخص جو ڈھائی سالوں سے اڈیالہ جیل میں قید تنہائی کاٹ رہا ہے، جسے بار بار آفرز دی جاتی ہیں کہ یا تو باہر چلے جائو یا پھر بنی گالہ چلے جائو مگر وہ اپنی جگہ پر استقامت کے ساتھ کھڑا ہے، غصے میں ہے مگر کمپوزڈ ہے اور پورے پاکستان کو اپنے گرد گھمائے ہوئے ہے۔ اب آپ دوسری طرف دیکھئے، صاحب اقتدار لوگوں کے پاس دنیا بھر کی طاقت بھی ہے، اقتدار بھی ہے اور اسلحہ بھی ہے۔ مگر وہ آخری خبریں آنے تک خود بھی بکھرا ہوا ہے۔ اس وقت پاکستان میں چیف آف آرمی اسٹاف کون ہے؟، نہیں معلوم۔ اس وقت نئی آسامی بنانے کے بعد ملک کی افواج کا کمانڈر آف ڈیفنس فورسز کون ہے، نہیں معلوم۔ اس وقت ملک کانیشنل سکیورٹی ایڈوائزر کون ہے، نہیں معلوم؟۔ اس وقت ڈائریکٹر جنرل آف آئی ایس پی آر کون ہے نہیں معلوم۔ صرف اتنا معلوم ہے کہ اس وقت فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر ہے جو گزشتہ ماہ کی 27تاریخ کو ریٹائر ہو چکا ہے۔ معاملات وائس آف چیف آف آرمی اسٹاف پر اٹکا ہوا ہے۔ پچھلے ایک ہفتے سے ملک ایک طرح سے خلاء میں چل رہا ہے۔ اگر افغانستان کی طرف سے یا ہندوستان کی طرف سے پاکستان پر کوئی اٹیک کیا جاتا ہے تو ملک میں سکیورٹی فورسز کی چین آف کمانڈ کیا ہے، کچھ معلوم نہیں ہے؟۔ جنرل عاصم منیر کی ایک ڈی فیکٹو فیلڈ مارشل کی حیثیت سے ہے۔ فوج میں اس قدر خاموشی ہے کہ لگ رہا ہے کہ کوئی نیا طوفان نہ آجائے۔ مختلف عہدوں کیلئے ندیم انجم، نعمان زکریا اور عاصم ملک جیسے اعلیٰ فوجی افسران کے نام فلوٹ کررہے ہیں۔ نواز حکومت جنرل عاصم منیر کے نام کی تقریر کا نوٹیفکیشن جاری کرنے سے گریز کررہی ہے اور عاصم منیر کی حالت اس وقت اُس دولہا کی جیسی ہے جس سے عین نکاح سے پہلے لڑکی والوں کی طرف سے حق مہر اور نئی نئی ڈیمانڈ دی جارہی ہیں۔ یعنی نہ جائے رفتن، نہ پائے رفتن۔ اس غیر معمولی اور غیر یقینی ملکی صورت حال میں غیر ملکی بھی اپنے اپنے گھوڑے دوڑا رہے ہیں۔ اسلام آباد میں غیر ملکی سفارت کار بہت متحرک ہیں۔ پشاور میں امریکی سفیر نے خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی سے ملاقات کی ہے۔ دوسری طرف اڈیالہ میں عمران خان کی ہمشیرہ ڈاکٹر عظمیٰ خان کی ملاقات بھی کرادی گئی ہے جس کے پیچھے بھی کہا جارہا ہے کہ غیر ملکی دبائو کار فرما ہے۔ اس ملاقات کے موقع پر جمع ہونے والے ہزاروں کارکنوں پر بھی سکیورٹی فورسز نے کوئی مار دھاڑ اور لاٹھی چارج اور طاقت کا استعمال نہیں کیا ہے بلکہ دفعہ 144 کی موجودگی کے باعث بھی پولیس اور رینجرز خاموشی سے دیکھتے رہے۔ ایک بات ذہن میں رہے کہ جب بھی کسی ملک میں اندرونی صورت حال کمزور ہوتی ہے تو غیر ملکی طاقتوں کا مداخلت کا زیادہ امکان ہو جاتا ہے۔ پچھلے چھ دن گزر چکے ہیں اور پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ ایک ہفتے سے پاکستان کی فوج کا کوئی قانونی سربراہ موجود نہیں ہے۔ کیا دلچسپ صورت حال ہے کہ سسٹم کے ہاتھوں خود سسٹم یرغمال بنا ہوا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button