ہفتہ وار کالمز

بیس سالہ انیس ستی کا براہ راست قاتل۔ جنرل عاصم منیر!

چھبیس نومبر 2024ء کی کی ایک کھنکتی صبح، ایک ماں اپنے بیس سالہ خوبرو نوجوان بیٹے انیس شہزاد ستی کو قائل کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ بیٹا تم اتنے نازک جسم کے مالک ہو کہیں لوگوں کے ہجوم میں زخمی نہ ہو جانا، نہ جائو آج ڈی چوک اسلام آباد، انیس جواب دیتا ہے نہیں ماں مجھے ڈی چوک اسلام آباد ضرور جانا ہے، ماں ایک اور بہلاوہ دیتی ہے کہ چلو ٹھیک ہے اگلی مرتبہ چلے جانا، بیٹا جواب دیتا ہے کہ نہیں پیاری ماں یہ عمران خان کی آخری کال ہے اگر اب میں نہ گیا تو پھر اگلی دفعہ تھوڑا ہی کوئی اور کال ہو گی۔ آخر کار پریشان حال ماں اپنے بیٹے کی طرف سے متفکرہتھیار ڈال دیتی ہے اور انیس تیار ہو کر اپنے بھائی کے ہمراہ ڈی چوک کی طرف روانہ ہو جاتا ہے۔ ڈی چوک اسلام آباد کے ایریا میں جب سب لوگ جمع ہورہے تھے تو انیس بھی ایک سبزہ زار پر انتظار کرنے کیلئے بیٹھ گیا۔ دوسری طرف انیس ستی کے والد بھی جائزہ لے رہے تھے کہ جنرل عاصم منیر نے احتجاج اور دھرنے کو کچلنے کیلئے کیا اقدامات اٹھا رکھے ہیں۔ اچانک ان کی نگاہ سڑک کی دوسری جانب بلند و قامت اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کی بلڈنگ کی چھت پر گئی۔ ملٹری پیراشوٹرز، اسنائپرز الرٹ کھڑے ہوئے تھے، اب دن کا وقت تھا اور مجمع جمع ہونا شروع ہورہا تھا۔ انیس ستی کے والد کو قدرے حیرانی ہوئی کہ فوج نے نہ صرف کھلے عام بلکہ چھپ چھپا کر بھی خاصے انتظامات کئے ہوئے ہیں۔ وہ کہہ کر گئے کہ میں ابھی آتا ہوں تم دونوں بھائی ایک دوسرے کا خیال رکھنا۔ ایسے میں انیس نے دیکھا کہ تحریک انصاف کا ایک کارکن پارٹی کے جھنڈے پر بنی قد آور عمران خان کی تصویر کے ساتھ وہاں سے گزرا تو اس نے اس سے درخواست کی کہ اگر میں اس تصویر کیساتھ سامنے کھڑے ہو کر اپنی ایک تصویر بنوالوں، تصویر بنانے کے بعد وہ کارکن آگے کی طرف روانہ ہو گیا اور ستی اپنے فون پر لی گئی تصویر دیکھنے میں محو ہو گیا، ابھی اس کا دل بھی نہیں بھراہو گا کہ اسٹیٹ لائف انشورنس کی بلڈنگ کی چھت پر سے ایک سنائپر نے نشانہ تاک کر انیس ستی پر گولی چلا دی۔ گولی سیدھی انیس ستی کے گردے کو چیرتی ہوئی گزر گئی۔ باپ اور بھائی جیسے تیسے کر کے ایک موٹر بائیک پر لخت جگر کو لے کر اسلام آباد پولی کلینک پہنچے جہاںانیس ستی کو ڈیڈ ڈکلیئرڈ کر دیا گیا۔
ایک شخص جو ایک ذہنی مریض اور معذور کے نام سے جانا جاتا ہے اس جنرل عاصم منیر نے اپنی ذاتی دشمنی اور بربریت میں فسطائیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انیس ستی جیسے بے شمار بے گناہ نوجوانوں کے سروں میں سیدھی گولیاں مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ظلم کے بعد مزیدظلم یہ ہے کہ اس شخص نے حکم دیا کہ مرنے والے نوجوانوں کی لاشوں کو ٹرکوں میں ڈال کر گم کر دیا جائے۔ پوری دنیا کے میڈیا نے اس سانحہ ڈی چوک پر رپورٹنگ کی مگر جنرل حافظ سید عاصم منیر کے وفاقی وزیر کہتے ہیں کہ 26نومبر کو کسی کو گولی نہیں لگی، اگر ثبوت ہے کہ لاشیں دکھائو، پچھلے سال 26 نومبر کے سانحہ نے تو جلیانوالہ باغ کے سانحے کو بھی بھلا دیا جب ایک انگریز جنرل کے حکم پر چاروں طرف سے سکھ مظاہرین کو گھیر کر گولیوں سے بھون دیا گیا تھا۔ اس قسم کے جنگی اور سویلین جرائم کیسز میں اب تک نہ صرف حکم دینے والے کو بلکہ غیر قانونی حکم پر عملدرآمد کرنے والوں کو بھی عدالتوں نے موت کی سزائیں دی ہیں۔ جنرل عاصم منیر اپنے لئے چاہے جتنے بھی استثنیٰ حاصل کر لے مگر خود اس کے سب آرڈینیٹ ہی آ کر اس کے خلاف گواہی دیں گے۔ ویسے بھی 26نومبر کے دوسرے دن میڈیا پر آ کر جعلی وزیراعظم شہباز شریف نے اعلان کیا تھا کہ کل 26نومبر کو ہونے والی PTIکی بغاوت کوکچلنے میں صرف اور صرف جنرل عاصم منیر کو کریڈٹ جاتا ہے وہ بیان تاریخ کا حصہ ہے اور ویب پر موجود ہے۔ نہ صرف 26 والا سانحہ بلکہ 9 مئی کو فوج کی طرف سے کی گئی خون ریزی اور اب حالیہ مریدکے میں تحریک لبیک کے لوگوں کے قتل عام کا ذمہ دار بھی براہ راست جنرل عاصم منیر ہے، خود اس ذہنی طور پر معذور شخص کو بھی اس بات کا علم ہے ایسے ہی نہیں وہ اپنے لئے استثنیٰ اور عمر بھر کی پروٹیکشن حاصل کررہا ہے۔ بنگلہ دیش میں سابق وزیراعظم حسینہ شیخ کو پھانسی کی سزا دئیے جانے کے پیچھے خود حسینہ شیخ کے اپنے وعدہ معاف گواہ تھے جن کی بنیاد پر پھانسی کی سزا دی گئی۔ نہ صرف حسینہ واجد کو بلکہ اس کے احکامات بجا لانے والے فوجیوں اور پولیس والوں کو بھی سزائے موت دی گئی توعاصم منیر، بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button