ہفتہ وار کالمز

استثنیٰ تو ابلیس کی سنت ہے !

فوج کے مفتوحہ پاکستان کی اس نام نہاد قومی اسمبلی نے جو پاکستانی عوام کی نمائندگی نہیں کرتی بلکہ اس یزیدی عسکری ٹولہ کے تابع فرمان ہے ، جس نے عمران خان کی حکومت کا ساڑھے تین سال پہلے سامراج کی خوشنودی کا تاج اپنے سر پہ سجانے کیلئے تختہ الٹا، اب اپنے آقاؤں کے حکم پر وہ قانون وضع کیا ہے جسے پاکستانی تاریخ کا بدترین قانون کہنے کے سوا اور کچھ نہیں کہا جاسکتا!
لیکن اس سے پہلے کہ اس کالے قانون کا تذکرہ کیا جائے جس نے پاکستان کی پیشانی پر ایک اور کلنک کا ٹیکہ لگا دیا ہے، اس پر بات ہوجائے کہ وہ فوجی جرنیلوں کے بے ضمیر مبلغین اور ترجمان جو سینہ ٹھونک کے اس کی تردید کیا کرتے تھے کہ عمران حکومت کا تختہ الٹنے میں سامراج کے ساتھ گٹھ جوڑ کا کوئی عمل دخل یا لینا دینا ہے ، انہیں اب اگر ان میں حیا یا شرم و غیرت کی کوئی رمق باقی ہے ڈوب کے مرجانا چاہئے اسلئے کہ ابھی امریکی کانگریس میں ڈیموکریٹک پارٹی کے اصرار پر رسوائے زمانہ بدکردار اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے جوزف اپسٹین کی اپنے دوستوں کے ساتھ گفتگو پر مبنی دستاویزات منظرِ عام پر آئی ہیں ان سے اس کی تصدیق، شک و شبہ سے قطعا” بالاتر، ہوجاتی ہے کہ سامراج اور اس کے کارندوں کو عمران خان کی طرف سے بہت خوف اور خطرہ تھا کہ وہ حریت پسند انسان اور قائد تھا جو اپنے ملک اور قوم کے مفادات کو سامراج کے پاکستان دشمن ایجنڈا پر قربان کرنے کیلئے کسی طور آمادہ نہیں تھا!
اپسٹین کی گفتگو کی جو دستاویزات سامنے آئی ہیں اس میں وہ بدکردار عمران خان کو روس کے صدر پیوتن اور چین کے رہنما شی جن پنگ سے زیادہ "خطرہ” قرار دے رہا ہے اور خطرہ سامراج کیلئے یوں عمران کو کہہ رہا ہے کہ عمران نہ سامراج کی چوکھٹ پر جھکنے کیلئے آمادہ تھا بلکہ وہ اپنی قوم کے مفادات کیلئے ہر طاقت سے ٹکرانے کیلئے بھی تیار تھا!
یاد رہے کہ اپسٹین صدر ٹرمپ کے جگری احباب میں شمار کیا جاتا تھا اسلئے کہ ان دونوں کے ذوق اور مشغلے ایک دوسرے سے بہت مطابقت رکھتے تھے اور صدر ٹرمپ نے حتی الامکان کوشش کی کہ ان کے قریبی دوست، جو اب اس دنیا میں نہیں رہا، کے کرتوت دنیا کے سامنے نہ آنے پائیں!
تو جب عمران کو اپنے ایجنڈا کیلئے خطرہ سمجھنے والا سامراج یہ قبول کرے کہ عمران ان کا دوست نہیں تھا، ان کا حلیف نہیں تھا تو یہ حقیقت آپ سے آپ سمجھ میں آجاتی ہے کہ پاکستان کے عسکری طالع آزما جو آج یا کل سے نہیں بلکہ گذشتہ سات دہائیوں سے، ستر برس سے زیادہ کے عرصہ سے، اپنی خدمات جان و دل سے سماراجی ایجنڈا کے فروغ کیلئے اور اس ملکِ پاکستان کے مفادات کے خلاف، جس کی حفاظت کا وہ آئینی حلف اٹھاتے ہیں لیکن پھر اس حلف کو یوں فراموش کرکے سامراج کی چاکری میں ہمہ تن مصروف ہوجاتے ہیں جیسے نہ ان کے حلف کی کوئی حیثیت ہو نہ پاکستان کے آئین کی، انہوں نے عمران کے خلاف سازش نہ صرف سامراج کے ساتھ مل کے تیار کی تھی بلکہ اس کی حکومت کو کمال عیاری، سفاکی اور مکاری کے ساتھ اس کے جمہوری حقِ حکمرانی سے بھی محروم کیا تھا!
تو اب ان ہی سیاسی گماشتوں اور کٹھ پتلیوں نے ، جنہیں ملک و قوم پر عمران و اقتدار سے محروم کرنے کے بعد مسلط کیا گیا ہے، اپنے عسکری آقاؤں کے حکم پر سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے وہ کالا قانون منظور کیا ہے جس نے پاکستان کو جگ ہنسائی کا ہدف بنادیا اور اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت کو رسوائے زمانہ بنانا (کیلا) ری پبلک سے بھی بدتر روپ میں پیش کیا ہے!
ستائیسویں (27ویں) آئینی ترمیم بھی نام نہاد قومی اسمبلی، لیکن اصل میں جس کی حیثیت شطرنج کی بساط پر ایک معمولی مہرہ کی بھی نہیں ہے، سے اسی عجلت سے منظور کروائی گئی جس سرعت سے چھبیسویں (26ویں) آئینی ترمیم منظور کروائی گئی تھی اور رسوائے زمانہ صدر زرداری جو تُلے بیٹھے تھے کہ وہ اپنے دستخط اس ترمیم پر ثبت کرکے اسے قانون کا درجہ دے دیں، انہوں نے گھڑی کی چوتھائی میں اسے قانون بنادیا!زرداری نے اس سیاہ آئینی ترمیم کو یوں قانون بنانے میں کوئی دیر نہیں لگائی کہ اس کے تحت انہیں تا حیات پاکستان کے کسی قانون یا مواخذہ یا احتساب سے استثنیٰ دے دیا گیا ہے! اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں۔ تو اس استثنیٰ نے زرداری جیسے نامی چور اور ڈکیت کو یہ استحقاق بخش دیا ہے کہ اس نے اپنی سیاسی زندگی میں جس طرح دونوں ہاتھوں سے پاکستان کو لوٹا اور اس بیدردی اور سفاکی سے لوٹا کہ اس کے سیاہ کرتوت اورکارنامے مغربی دنیا کے مدارس میں بچوں کو اس عنوان سے پڑھائے اور بتائے جاتے ہیں کہ دیکھو، تیسری یا ترقی پذیر دنیا کے نام نہاد رہنما اور خود ساختہ قائدین کس طرح ا پنے ملک کو لوٹتے اور کنگال کرتے ہیں!لیکن ڈکیت زرداری کے ساتھ ساتھ حافظ جی کو بھی تا حیات استثنیٰ دے دیا گیا ہے!سوشل میڈیا پاکستان کے فی زمانہ بے تاج بادشاہ اور خود ساختہ فیلڈ (یا فراڈ؟) مارشل ۔ عاصم منیر کو حافظ جی کے نام سے یاد کرتا ہے۔تو حافظ جی کو بھی وہی پاکستان کے قانون کے ضمن میں وہی مرتبہ اور مراعات حاصل ہونگی، اس ترمیم کے تحت، جو ان کے پسندیدہ صدر زرداری کا حق ہونگی! حافظ جی خود بھی یہ سوچ سوچ کے پھولے نہیں سماتے کہ وہ صدر ٹرمپ کے پسندیدہ فیلڈ مارشل ہیں اسلئے کہ انہوں نے ٹرمپ کے توسیعی منصوبہ کو آگے بڑھانے کا جو وعدہ ۔ یا بقول شخصے وچن دیا ہے، وہ ٹرمپ جیسے بیوپاری کے دل کو بھاگیا ہے!تو اب اس کالے قانون کی رو سے حافظ جی نہ صرف تا حیات فیلڈ مارشل رہینگے، اس عہدہ سے ملحق تمام تر مراعات کے ساتھ، بلکہ انہیں تا حیات ہر قانون اور قانونی احتساب سے بھی استثنیٰ حاصل رہے گا!
اس کو کہتے ہیں پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں!
حافظ جی کو یہ بھی زعم ہے کہ وہ حافظِ قرآن ہیں۔ ہم مان لیتے ہیں کہ وہ حافظ، قرآن ہیں لیکن ان کا عمل تو یہ کہہ رہا ہے، اور بہ بانگِ دہل اس کی گواہی دے رہا ہے، کہ وہ تارکِ قرآن بھی ہیں!
حافظ جی نے ممکن ہے کہ طوطے کی طرح قرآن کو رٹ لیا ہو لیکن اس کے معنی و مفہوم پر شاید ان کی نظر نہیں ہے! اگر ہوتی تو وہ جانتے کہ استثنیٰ مانگنے والا تو کائنات کی تاریخ میں سب سے پہلے ابلیس تھا!
قرآن کے ساتویں سورۃ، سوارتہ الاعراف میں کائنات کے مالک نے بتایا ہے کہ کس طرح ابلیس نے، جو جن ہونے کے باوجود فرشتوں کی صف میں شامل تھا، آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کیا، اللہ کے حکم کی نافرمانی کی اسلئے کہ اس کا زعم تھا کہ آدم کو مٹی سے بنایا گیا ہے جبکہ اس کی تخلیق آگ سے ہوئی تھی۔ اللہ نے اس کے تکبر پر اسے راندہء درگاہ قراد دیا جس پر اس نے اللہ سے استثنیٰ مانگا، اور اللہ نے اسے قیامت تک کی مہلت عطا کردی لیکن ساتھ ہی یہ فرمایا کہ اس کی سنت پر چلنے والا نارِ جہنم کا حقدار ہوگا!
حافظ جی نے بھی اپنے تابع فرمان اسمبلی سے استثنیٰ تکبر اور غرور کے ہاتھوں مغلوب ہوکے حاصل کیا ہے۔ ان کا زعم یہ ہے کہ وہ پاکستان کے ہر قانون سے بالاتر ہیں اور آئین ان کے نزدیک کم اوقات ہے اگر ان کی ذات کا سوال ہو! بھلا آئین کی کیا مجال ہے، کیا حیثیت ہے کہ وہ ان سے کوئی سوال کرے، ان کا احتساب کرنے کی جسارت کرے۔ آئین تو، بقول ان کے ایک پیشرو جنرل ضیا الحق کے محض ایک کاغذ کا پرزہ ہے جسے وہ، یا ان کا کوئی بھی جانشین، پھاڑ کے ردی کی ٹوکری میں پھینک سکتا ہے!اور گذشتہ ساتھ دہائیوں میں ہر عسکری طالع آزما نے یہی تو کیا ہے! آئین کی توہین اور تکذیب کی ہےاور اس حلف کی صریح خلاف ورزی جو پاکستان کی افواج میں شامل ہونے والا ہر افسر اٹھاتا ہے اور اقرار کرتا ہے کہ وہ سیاست سے کوئی واسطہ نہیں رکھے گااور پاکستان کے آئین کی پاسداری کرے گا! لیکن عمل کے اعتبار سے ہر طالع آزما نے پاکستان کے آئین کی دھجیاں بکھیرنے کا کارنامہ سرانجام دیا ہے!عاصم منیراپنے پیشرو کو اپنی کھلی فسطائیت اور تکبر سے میلوں پیچھے چھوڑ گیا ہے۔
لیکن عاصم منیر اپنے ہر پیشرو سےزیادہ بزدل بھی ہے اور اس کی بزدلی کی اساس وہ خوف ہے جو اسے عمران خان سے ہے!
عاصم منیر کو خوف ہے کہ عمران اگر جیل کی سلاخوں سے باہر آیا تو وہ اس بزدل اور کائر کے ساتھ وہی کرے گا جو یہ ملت فروش اس کے ساتھ کر رہا ہے اور کرتا آیا ہے!
لیکن عمران نہ کم ذات ہے نہ فطرت سے کمینہ! عمران اعلیٰ ظرف ہے اور جانتا ہے کہ عاصم منیر جیسے چھٹ بھئیے تاریخ کی وہ دھول ہوتے ہیں جنہیں وقت کی ہوا اڑا لے جاتی ہے اور پھر مورخ ان کے نام کے ساتھ صرف اور صرف سیاہی لکھتا ہے، انہیں اس قعرِ مذلت میں، اس پاتال میں گرا دیتا ہے جس کے وہ اپنے سیاہ کرتوت کی بنا پر حقدار ہوتے ہیں!
سو زرداری اور اس کے سہولت کار عاصم منیر کو کائنات کے پیدا کرنے والےکا یہ فیصلہ فراموش نہ کرنا چاہئے کہ ابلیس کی سنت پر چلنے والوں کے مقدر میں جہنم کی آگ کے سوا اور کچھ نہیں! اور ان جیسے شعبدہ گروں کو یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ مرنے کے بعد وہ اس منصفِ ازل کی عدالت میں پیش کئے جائینگے جہاں نہ انہیں کوئی استثنیٰ حاصل ہوگا نہ کوئی جھوٹی گواہی
ان کے حق میں دینے والا ملے گا!
شعر کا حسن یہ ہے کہ وہ سمندر کو کوزے میں سمیٹ لیتا ہے۔ تو اس کالم کے اختتام پر ہمارے یہ دو قطعات پڑھئے جن میں پاکستانی قوم کے سینے پر مونگ دلنے والے ابلیسی چیلوں کے کرتوت آپ کو پوری طرح سمجھ میں آجائینگے:
استثنیٰ کے طالب ہیں جو ابلیس کے چیلے
دن رات لگاتے ہیں جو طاغوت کے ڈیرے
استثنیٰ ہی ابلیس نے مانگا تھا خدا سے
ابلیس کی سنت پہ ہیں جرنیل وڈیرے!
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
عمران قید میں نہیں عاصم منیر ہے
اپنی ہوس کے ہاتھوں جو اپنا اسیر ہے
یہ کلبِ سامراج ہے، ملت فروش ہے
ناسورِ ملک و قوم خرد سے فقیر ہے!

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button