ہفتہ وار کالمز

غزہ امن معاہدہ

فلسطین کا مسئلہ بہت پرانا ہے اس وقت سے جب نو آبادیاتی نظام ختم ہوا اور برطانیہ کی مدد سے اسرائیل کی حکومت قائم ہوئی اور یورپ کی دیگر حکومتوں نے برطانیہ کا ساتھ دیااور ساری دنیا سے یہودی اس علاقے میں آکر آباد ہوئے۔کچھ مورخین کا خیال ہے کہ اس زمانے میں یہودیوں نے زمین کی اچھی قیمت کی پیش کش کی اور فلسطینیوں نے اس وقت سے فائدہ اٹھایا اور زمینیں بیچ دیں کچھ Independent Historians نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے چونکہ یہ سارے مورخین مغرب سے ہیں اس لئے فلسطینی یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ سارے مورخین متعصب ہیں اور یہ اسی نکتۂ نظر کی حمائت کرتے ہیںجو مغرب کا ہے مگر یہ بات بھی ہے کہ اس موضوع پر کسی عرب مورخ کی کوئی تاریخ نہیں ملتی اور نہ ہی کسی فلسطینی مورخ نے ہی حقائق سے پردہ اٹھایا ہے کچھ انفرادی قصے کہانیاں ملتی ہیں ۔ان کی کوئی حیثیت نہیں اور جب سے سوشل میڈیا کا زمانہ آیا ہے اس پر بھی انفرادی رائے ملتی ہے وکی پیڈیا پر بھی کچھ آرٹیکلز ملتے ہیں جو پاکستانی،فلسطینی اور عربوں نے لکھے ہیں مگر ان کی بھی تصدیق نہیں ہوتی،مگر یہ سچ ہے کہ یہودی ریاست مغرب نے اپنے خاص مقاصد کے لئے بنائی اس وقت قائد اعظم نے کہا تھا کہ اسرائیل مغرب کا ناجائز بچہ ہے ہم اب بھی قائد اعظم کے اس بیان کو دہراتے ہیںاور ذہن نشین کراتے ہیںاس بات سے عوام کو تشفی ہوتی ہے کہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جائے گااس کے علاوہ ایک ضعیف حدیث بھی مولوی بیان کر دیتے ہیںبہر حال اس ریاست کے قیام سے مسلم دنیا میں یہودیوں کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا مگر یہ بات کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ دنیا میں یہودیوں کے ساتھ برا سلوک ہوا اور ہالوکاسٹ میں چھ لاکھ یہودیوں کو مار دیا گیا یہ افسوسناک تھا لیکن یہ بات اسرائیل کو اس بات کا لائسنس نہیں دیتی کہ وہ غزہ میں ستر ہزار سے زائد فلسطینوں کو مار دیں اور ان کی نسل کشی کریں 7,October 2023 سے قبل مشرق وسطی میں سکون تھا اور عرب ریاستیں اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کر رہی تھیں اور بہت قریب تھا کہ سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کر لیتامگر اس سے قبل حماس نے اسرائیل پر اچانک حملہ کر دیاراکٹوں کی بارش کردی اور ان کے سو سے زیادہ شہری یرغمال بنا لئے اس موقع پر امریکہ کے ایک معروف ٹی وی چینل MNBSCنے کہا تھا کہ حماس نے یہ حملہ اس لئے کیا ہے کہ سعودی عرب کو اسرائیل کو تسلیم کرنے سے روکا جائے اور حماس کو یہ بھی امید تھی کہ اس حملے کے نتیجے میں مشرقِ وسطٰی کی دو ایک ریاستوں کی حکومتیں گر جائیں گی،سعودی عرب نے تو اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم نہیں کئے مگر مشرق وسطٰی کی کوئی حکومت نہیں گری،حماس کے اس اقدام کا رد عمل تو آنا ہی تھا وہ رد عمل آیا اور شدید رد عمل آیا کہ اسرائیل نے غزہ کے ستر ہزار فلسطینی مار دئے جن میں خواتین ،بچے ، جوان ،بوڑھےوڈاکٹر، صحافی، سوشل ورکرزاور ریڈ کراس کے کارکن بھی شامل تھے،اسرائیل نے غزہ کے لوگوں کے لئے امدادی سامان بھی غزہ میں داخل نہیں ہونے دیا،اشیائے خوردونوش بھی نایاب ہو گئیں اور قحط کی سی کیفیت پیدا ہو گئی مگر اسرائیل نے اپنے حملے جاری رکھے اور غزہ میں کوئی عمارت سلامت نہ چھوڑی،اسرائیل نے اس دوران چھ ممالک پر حملے کئے جن میں ایران،یمن، اردن،شام ،قطر اور لبنان شامل ہیں ایران نے اسرائیلی حملوں کا ڈٹ کرمقابلہ کیااس دوران اسرائیل
نے مسلمانوں کے چشمے سے چیزیں ہمیشہ مختلف نظر آئیں گی ،اس میں ہمیشہ ہمارا تعصب موجود ہوتا ہے سلطنت عثمانیہ کوزوال آیا تو محمد علی جوہر نے ہندوستان میں تحریک خلافت شروع کر دی اور مذاق یہ ہوا کہ گاندھی جی نے اس تحریک کی حمایت بھی کر دی،میرے بزرگوں نے کبھی نہیں سوچا کہ تین برآعظموں پر پھیلی سلطنت صرف ساٹھ سال کے عرصے میں تحلیل کیسے ہو گئی یعنی کبھی زوال کے پہلوؤں پر غور نہیں کیابس آہ و فغان کہ سلطنت عثمانیہ انگریزوں نے توڑ دی ایک کھوکھلی عمارت تیز ہوا کا دباؤ برداشت نہیں کر سکتی ریت کے گھروندے دریا کی ایک چھوٹی سی لہر سے گر جاتے ہیں سلطنت عثمانیہ کے ساتھ بھی یہی ہوا اور اگلا سوال تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سلطنت عثمانیہ نے تین بر اعظموں کو کیا دیا بالکل اسی طرح فلسطین کے علاقے میں فلسطینی آباد تھے ان کی کوئی باضابطہ حکومت تو تھی نہیں جہاں سلطنت عثمانیہ کے ٹوٹنے کے بعد درجنوں دیگر ممالک Nationalism کے فلسفے پر معارضِ وجود میں آگئے فلسطین کو بھی اسی اصول پر آزادی سے بہرہ ور ہو جانا چاہیئے تھا ،کمزور لوگ، کمزور سوچ،یہودی اس علاقے میں آکر بسنے لگے اور کوئی مضبوط آواز نہیں گونجی ۔یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کے بعد فلسطینیوں سے مہنگے داموں ان کی زمینیں خرید لیںایک بیچارے مفتیٔ فلسطین آواز اٹھاتے رہے یا قائد اعظم کا ایک جملہ کہ اسرائیل مغرب کا ناجائز بچہ ہے ۔اب مسلمانوں کی کوئی مضبوط آواز موجود ہی نہیں تھی تو برطانیہ نے اس کمزوری کا فائدہ اٹھایا اور اسرائیل بنا دیاآپ نے دیکھا کہ فاک لینڈ ایک چھوٹا سا جزیرہ مگر برطانیہ نے بزور طاقت اس جزیرے کو دشمن کے ہاتھ سے چھین لیااقتدار باقی رکھنے کے لئے تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے طاقت، پیسہ اور عقل مسلمان کسی خطے کے ہوں ان تینوں چیزوں سے خالی عربوں کے پاس پیسہ تو آگیا مگر طاقت اور عقل کہاں سے خریدتے؟غزہ جنگ میں حماس کا کردار بہت مشکوک رہا،چند ہزار جنگجوؤں پر مشتمل چھوٹا سا جتھا جو کبھی سعودی عرب کی پراکسی تھا سعودی عرب نے ہاتھ کھینچا تو ایران کی پراکسی بن گیا اگر حماس ایک مزاحمتی تحریک ہوتا تو اس کے رنگ ڈھنگ مختلف ہوتے مگر حماس بہت عیش و آرام کی زندگی بسر کرتے رہے قطر کے محلوں میں ان کا قیام اور دعویٰ یہ کہ وہ فلسطین کی آزادی چاہتے ہیں ہوا یوں کہ 7th October 2023 کو اسرائیل پر احمقانہ حملے کے بعد اسرائیل نے در،عمل ظاہر کیا تو ایرانی قیادت ماری گئی ایران کے جوہری سائنس دان مارے گئے حزب اللہ کی قیادت کا قتل ہواخود حماس کی اعلی قیادت ماری گئی آپ سمجھتے ہیں کہ یہ سب اسرائیلی intelligence تھی میرا خیال ہے کہ اس قتل و غارت گری میں حماس ایک کردار تھی بہت منصوبہ بندی کے ساتھ ایک calloboration موجود تھا انداززے یہ بھی ہیں کہ فلسطین کے ٹنٹے کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کے لئے ایک کھیل کھیلا گیا جس میں ایک کردار حماس کا بھی تھا وہ تین باتیں تو میں نے آپ کو بتا دیں جو مسلمانوں کے پاس نہیں ان کے علاوہ ایک اور چیز ہے جو مسلمانوں میںبہت عام ہے اور وہ ہے تھوڑی قیمت پرمسلمانوں کی قیادت کا بک جانا،سو کیا عجب کہ قیمت لگا دی گئی ہو اور فلسطین کاز کوٰۃہمیشہ کے لئے ختم کرنے کے لئے ایک اچھی قیمت دے دی گئی اور بیرونی دنیا کو یہ تاثر دیا جا رہا ہو کہ مزاحمت ہو رہی ہے آخر یاسر عرفات پر بھی تو الفتح نے یہ الزام لگا دیا تھاسی آئی اے اور پینٹاگون اپنے منصوبے عشروں پہلے بناتے ہیں اور بہت سائنسی انداز میں آگے بڑھتے ہیں اور پھرآخری ضرب لگاتے ہیں مگر عراق جنگ کے بعد یہ انداز بدل گئے شائد یہ سوچا جانے لگا ہو کہ منصوبوں کو پایہء تکمیل تک پہنچانے کے لئے دو چار عشروں تک انتظار کیوں کیا جائے جب دنیا کی بہترین فوج بہترین ہتھیار اور بہترین تکنیک ہمارے پاس موجود ہو،ٹرمپ اسرائیل کے آزمودہ دوست ہیں اور فلسطین کا قضیہ ختم کرنے کے لئے ٹرمپ کے اسی دور کا انتخاب کر لیا گیا ہویہ باتیں ذہن میں اس لئے آتی ہیں کہ ٹرمپ کے آتے ہی اس مبینہ منصوبے پر تیزی سے کام ہوا اور اقوام متحدہ کو بائی پاس کرکے وہ کام کر لئے گئے جو منصوبے کا حصہ تھے اور برطانیہ فرانس اور یورپ اس کے sleeping partners ہوں غزہ امن معاہدے پر تیزی سے کام ہوا بظاہر مصر ،ترکی، اور قطر نے تفضیلات طے کی ہوں مگر یہ ہو نہیں سکتا کہ امریکہ سمیت دیگر طاقتوں نے اپنا اِن پُٹ نہ دیا ہو ،بہرحال مصر کے شہر شرم الشیخ میں ایک تقریب ہوئی جس میں پاکستان سمیت بیس ممالک نے شرکت کی ٹرمپ بھی اس میں شریک ہوئے اور اس معاہدے پر دستخط کر دئے گئے دستخط کرنے والوں میں امریکہ،مصر،قطر،اور ترکی شامل تھے معاہدے کے تحت حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی دائمی ہے حماس کا غزہ کی Recontruction میں کوئی کردار نہیں ہوگاحماس کو اپنے ہتھیار پھینکنے ہونگے چند ریاستیں غزہ کی تعمیرِ نو کے لئے سرمایہ فراہم کریں گی انتظام ایک Board of Peace چلائے گا جس کے سربراہ صدر ٹرمپ ہونگے باقی اراکین یورپی ممالک سے لئے جائیں گے اس طرح حماس کی مدد سے فلسطین کا معاملہ ہمیشہ کے لئے طے کر لیا گیا عرب ممالک کی خاموشی بتا رہی ہے کہ وہ اس معاہدے پر خوش ہیں جنگ کے دوران ان کی رسمی مذمت آتی رہی،مگر یہ بات بہت واضح تھی کہ حماس حزب اللہ،القسام بریگیڈ کی وجہ سے مشرق وسطی بارود پر بیٹھا رہتا تھا کچھ کمزور ریاستوں کے گرنے کاخطرہ موجود رہتاجس کی وجہ سے پورا خطہ De-establizedہو جاتا تھا اب شائد مصیبت سے جان چھوٹ جائیگی اور عرب ممالک چین کا سانس لیں گے پاکستان میں بھی کچھ دینی جماعتوں کو اپنی ریلیاں کم کرنی پڑے۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button