ہفتہ وار کالمز

غزہ۔۔۔ ہا ر جیت کا فیصلہ!

کسی بھی جنگ میں ہار جیت کا فیصلہ اس بات پر ہوتا ہے کہ ہتھیار کس نے پھینکے اور اپنے بیان کردہ اہداف کس نے حاصل کئے۔جنگ بندی کے بعد اگر دونوں فریق جشن فتح منا رہے ہوں تو پھر یہ فیصلہ مشکل ہو جاتا ہے لیکن دستیاب حقائق کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔جو کچھ نظر آ رہا ہو اسے تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ اسرائیل کے وزیر اعظم بنجا من نتن یاہو جنگ بندی کے بعد اپنی فتح کا اعلان کر چکے ہیںاور حماس نے بھی Financial Times کی ایک رپورٹ کے مطابق غزہ میں کئی مقامات پر انتظامات سنبھال کر اپنی موجودگی کا ثبوت دے دیا ہے۔ دو سال کی اس طویل اور ہولناک جنگ میں حماس کے ہزاروں جنگجو ہلاک ہوئے ہیں مگر مذکورہ بالا رپورٹ کے مطابق اس وقت بھی اسکے باقی ماندہ مسلح افراد کی تعداد پندرہ ہزار سے زیادہ ہے۔ جنگ بندی کے فوراًبعد غزہ میں حماس کی قیادت نے اعلان کیا ہے کہ جب تک فلسطین کے حق خود ارادیت کا فیصلہ نہیںہوتا وہ اسوقت تک ہتھیار نہیں ڈالے گی۔
سات اکتوبر 2023 کو شروع ہونیوالی اس جنگ کے آغاز ہی میں نیتن یاہو نے کہہ دیا تھا کہ حماس کے مکمل خاتمے تک جنگ جاری رہے گی۔اس دوران میںنیتن یاہو کابینہ کے وزرا ءدو ملین فلسطینیوں کو دوسرے ممالک بھیجنے کے اعلانات کرتے رہے۔ اسرائیل کی وزارت دفاع نے ستمبر میں Voluntary Emigration Directorate قائم کیا۔ اسکا مقصد یہ تھا کہ بھوک‘ پیاس اور دربدری کے ستائے ہوے فلسطینی اپنی سرزمین چھوڑ کر جہاں بھی جانا چاہیں چلے جائیں۔اسرائیلی حکومت اس دوران اپنے عوام کو یہ خواب بھی دکھاتی رہی کہ غزہ کی ساحلی پٹی کو ایک خوبصورت سیاحتی مقام میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ ایک موقع پر صدر ٹرمپ نے بھی کہا تھا کہ امریکہ غزہ کو خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ نیتن یاہو حکومت نے اپنے عوام کو اس خوش فہمی میں بھی مبتلا کئے رکھا کہ مغربی کنارے کو بھی مکمل طور پر اسرائیل میں شامل کر لیا جائے گا اور فلسطینی اتھارٹی کا غزہ کے انتظامی معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ اب نیتن یاہو نے صدر ٹرمپ کے بیس نکاتی امن معاہدے پر دستخط کر کے ان تمام خوابوں کو دریا برد کر دیا ہے جو اس نے اپنے عوام کو دکھائے تھے۔ اپنے متعین کردہ اہداف کو حاصل نہ کر سکنے کے باوجود اگر نیتن یاہو جشن فتح منا رہے ہیں تو اسکا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس جنگ کے فاتح ہیں۔
صدر ٹرمپ کے منصوبے کے مطابق فلسطینیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی کہ وہ اپنے گھروں میں رہیں اور اپنی بستیوں کو آباد کریں۔ اس معاہدے کے تحت غزہ اور مغربی کنارے پر یہودی آباد کاروں کوزمین پر قبضہ کرنے اور مکانات بنانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ اس معاہدے نے بنجامن نیتن یاہو کے وژن کومسترد ہی نہیں کیا بلکہ اسے مکمل طور پر ناقابل عمل قرار دے دیا ہے۔ جمعے کے روز اسرائیلی پارلیمنٹ Kenessett سے خطاب کرتے ہوے نتن یاہو کی لیکوڈجماعت کے ایک سینئر رکن امیت حلیوی نے کہا کہ’’ ہمیں لوگوں کو سچ بتا دینا چاہیئے اور اپنے سر جھکا کر بڑے دکھ اور عاجزی کے ساتھ تسلیم کر لینا چاہیئے کہ ہمیں شکست ہو چکی ہے۔‘‘ امیت حلیوی نے اس معاہدے کی مخالفت کرتے ہوے کہا ’’ ہم نے ان شرائط کو تسلیم کر کے اپنے آبائو اجداد کی سرزمین پر ترکی اور قطر جیسے دشمنوں کو قدم جمانے کی اجازت دے دی ہے۔اب حماس کا وجود بر قرار رہے گا اور سینکروں کی تعداد میں رہا ہونے والے اسرائیلیوں کے قاتل اسکی طاقت میںمزید اضافے کا باعث بنیں گے۔‘‘ اسکے برعکس حکومتی اراکین نے یہ مؤقف پیش کیا کہ اسرائیل کی فوج غزہ کے ایک بڑے حصے میں موجود رہے گی اور کسی بھی خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے اسے جوابی کاروائی کا اختیار حاصل ہو گا۔
اسرائیل اور امریکہ دونوں ممالک میں کیا کھویااورکیا پایا کی بحث شروع ہو چکی ہے۔ امریکی تھنک ٹینک RAND کے دانشور Shira Efron نے کہا ہے” Reality has demolished nearly every promise.” یعنی حقیقت نے تمام وعدوں کو ملیا میٹ کر دیا ہے۔ شیرا افرون کی رائے میں اس پورے معاہدے میں کہیں بھی حماس کے مکمل خاتمے کی بات نہیں کی گئی صرف اتنا کہا گیا ہے کہ وہ ہتھیار پھینک دے گی۔
نتن یاہو جو بھی کہیں یہ حقیقت واضح ہے کہ وہ اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ تو کیا اسے حماس کی فتح کہا جا سکتا ہے۔ یہ اس لیے درست نہیں کہ لبنان میں حزب اللہ کا زور ٹوٹ چکا۔ شام میں بشارلاسد کی حکومت ختم ہوگئی۔ایران کے رابظے بھی حماس سے منقطع ہو چکے۔ غزہ میں یکہ و تنہا حماس کی زیر زمین سرنگوں کا نیٹ ورک بھی تباہ ہو چکا۔ قطر سے ملنے والی مالی امداد بھی نہ رہی۔ اس معاہدے کے تحت اسرائیلی فوج بھی نہ جانے کب تک غزہ میں رہے گی۔ صدر ٹرمپ نے پیر کے روز مصر کے شہر شرم الشیخ میں عالمی رہنمائوں سے خطاب کرتے ہوے کہا کہ حماس نے اگر ہتھیار نہ پھینکے تو ہم انہیں چھین لیں گے۔ اس تناظر میں اس جنگ کے دو بڑے جنگباز‘ اسرائیل اور حماس‘ بہت کچھ کھونے کے بعد اپنے زخم چاٹ رہے ہیں۔ مگر اس بات کو مؤرخ نظر انداز نہ کر سکیں گے حماس نے ایک گوریلا تنظیم ہوتے ہوئے اسرائیل جیسی نیوکلیئر طاقت جسے امریکہ جیسی سپر پاور کی مکمل تائید و حمایت حاصل تھی کے دانت کھٹے کر دیئے۔ اس حقیقت کو اسرائیل کے علاوہ امریکہ میں بھی تسلیم کر لیا گیا ہے کہ Hamas is not going anywhere. ۔۔۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button