ہفتہ وار کالمز

وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے !

کُلی طور پر اشارۂ ابرو کے ذریعے کام کرنے اور سر تن سے جدا کا بیانیہ رکھنے والی ایک تراشیدہ اور خوابیدہ جماعت کو چند روز پہلے غزہ پر اسرائیلی مظالم کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے خواب غفلت سے بیدار کیا گیا۔سارا ملک حیران تھا کہ ان نادانوں تک غزہ پر اسرائیلی مظالم کی خبر دو سال کی تاخیر سے کیوں پہنچی ہے؟ خواب خرگوش میں ڈوبی ٹی ایل پی کا اچانک انگڑائیاں لینا بہت سارے سوالات بھی پیدا کر رہا تھا ، سب جانتے ہیں کہ ٹی ایل پی کسی اشارے اور "اشاریئے ” کے بغیر اپنی کچھار سے باہر نہیں نکلتی ۔غزہ کے مسٔلہ پر دنیا بھر میں غیر مسلموں نے بے مثال احتجاجی مظاہرے کیئے،اور یہ سب انسان دوستی اور انصاف پرستی کی بنیاد پر کیا گیا۔ اس دوران نام نہاد ” ملت اسلامیہ ” کے متحرک ، متشدد ، ہمہ وقت بے چین اور فتوی باز مولوی مکمل طور پر لاتعلق اور خاموش رہے۔ وجہ شاید یہ تھی کہ ان کے لیے اس کام کے عوض ڈالر دستیاب نہیں تھے۔ اب جبکہ غزہ میں امن معاہدے کے نام سے ایک عارضی سا تعطل آیا تھا، تو اچانک ٹی ایل پی نے ہلنا جلنا شروع کر دیا ۔باقی کی کسر ہماری انتظامیہ اپنی خداداد ذہانت اور کنٹیر بازی سے پوری کر دیتی ہے۔ کام کا آغاز انگڑایئوں کے ساتھ لاہور سے ہوا تھا، لیکن کنٹینر بازی اور خندق سازی کا عمل اسلام آباد میں شروع کر دیا گیا۔ ایک بزدل وفاقی دارالحکومت ؛جہاں آئے روز حاضر سروس بادشاہ سلامت کی طرف سے اپنے کسی پالتو گروہ یا فالتو جتھے کو اشارہ کرکے لانگ مارچ کرتے ہوئے امریکی سفارت خانے کے سامنے احتجاج کرنے کا ٹاسک دے دیا جاتا ہے اور پھر ساتھ ہی شہر کے داخلی اور خارجی راستے کنٹینر لگا کر اور خندقیں کھود کر بند کر دیئے جاتے ہیں۔یہ شاید دنیا کا واحد وفاقی دارالحکومت ہے جہاں آئے روز انٹرنیٹ سروس بھی بند کر دی جاتی ہے۔ ڈرے سہمے ،اداس ، مایوس اور رنجیدہ شہریوں سے معمور اس وفاقی دارالحکومت کو اس ریاست کی علامت خیال کیا جا سکتا ہے ۔ میرا خیال ہے کہ یہ سب اندرون ملک خاص طرح کے اثرات پیدا کرنے کی ایک کوشش خیال کی جا سکتی ہے۔ خیر اشارہ ٔابروپر کلی اعتبار کرتے ہوئے یہ لوگ نکل کھڑے ہوئے ، یہ تصور کئے بغیر کہ ان کو عبرت کا نشان بنا کر مصر کے شہر شرم الشیخ میں شاباش حاصل کرنے کے لیے پیش کیا جا سکتا ہے۔پھر پنجاب میں ن لیگ کی حکومت اس جماعت سے اپنا پرانا حساب کتاب برابر کرنا کیسے بھول سکتی تھی؟ پنجاب کی منتقم مزاج خاتون وزیر اعلی اپنے چاچو شہباز شریف کی طویل وزارتِ اعلی کے دور میں ؛عدالتوں کو زحمت دیئے بغیر پولیس مقابلوں کے ذریعے صوبے میں امن و امان قائم رکھنے کے آزمودہ فارمولے پر عمل کر رہی ہے۔پنجاب میں اس کے قائم کردہ کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ نے چھوٹے موٹے اخلاقی مجرموں کے جنسی اعضاء پر پستول چلا کر ٹک ٹاک پر داد طلبی کا چلن بھی اپنا رکھا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس جماعت کو لاہور ہی میں روکنے کی بجائے شہر سے باہر نکلنے دیا گیا ۔حالانکہ؛ مریدکے کے مقام پر دو روز رک کر مذاکرات کی بھیک مانگنے والوں کو لاہور کے اندر بھی روکا جا سکتا تھا پھر شاہدرہ پل پر منتشر کیا جا سکتا تھا، کالا شاہ کاکو کے مقام پر بھی وہ سب کچھ کیا جا سکتا تھا ،جو مریدکے کے مقام پر کیا گیا۔یہ وہی مریدکے ہے ، جہاں پر انڈیا نے چھ اور سات مئی کی درمیانی رات میزائل حملہ کرکے یہ دعوی کیا تھا کہ یہاں دہشتگردوں کے تربیتی مراکز تباہ کر دیئے گئے ہیں۔ لیگ کی حکومت نے اس مقام پر ایک مذہبی تنظیم پر تباہ کن اور سخت گیر حملے کر کے ایک طرح سے اپنے کندھے انڈین منصوبہ سازوں کے کندھوں کے ساتھ ملا لئے ہیں۔دوسری طرف ذرا تصور کریں کہ غزہ پر اسرائیلی مظالم کے خلاف احتجاجی لانگ مارچ کرنے والوں کو نشانِ عبرت بنانے کی ویڈیوز اور خبروں کی تفصیل سے ڈونلڈ ٹرمپ اور نیتن یاہو کو کتنا زیادہ خوش کر دیا ہوگا۔جسم انسانی کے مختلف حصوں کو چھو چھو کر گفتگو کرنے والا پاکستانی وزیراعظم اب بجا طور آنکھیں گھما گھما اور مٹکا مٹکا کر داد بھی طلب کر سکتا ہے ۔ کیا ان واقعات کو شرم الشیخ کا تحفہ شمار کیا جا سکتا ہے۔؟ افسوس ناک اور تشویشناک امر یہ بھی ہے کہ اس وقت ملک اپنی حدود کے اندر بھی حالت جنگ کا شکار ہے۔ پاکستان کے فوجی جوان و افسران اپنے ہی ملک میں ایک بدترین جنگ کا سامنا کرتے ہوئے جان کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ایسے میں ہمارے فیصلہ سازوں کو پرائی جنگوں کے ٹھیکے لینے کی بجائے خود اپنے جوانوں اور جوان کمانڈروں کے تحفظ کو یقینی بنانے پر پوری توجہ مرکوز کرنی چاہیئے ۔ایک سال میں ہمارے فوجی جوانوں کی اندرون ملک شہادتیں تعداد کے اعتبار سے اتنی زیادہ ہیں کہ جو شاید دنیا کے کسی ملک کی دوسرے ملک سے باقاعدہ جنگ میں بھی نہ ہوئی ہوں۔ہمارے فیصلہ سازوں کو اپنی ساری ذہانت اندرون ملک اپنے افسروں اور جوانوں کی سلامتی کے بارے میں استعمال کرنی چاہیئے۔ ہمیں اپنی حد سے بڑھی ہوئی "بین الاقوامیت” کی بیماری کو لگام دیتے ہوئے اس کا دیسی علاج کروانے کی اشد ضرورت ہے ۔ میری تجویز ہے کہ "تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو” کو ہر فیصلہ ساز (میں نوسر باز نہیں کہہ رہا) کے دفتر میں جلی حروف میں لکھوا کر لٹکا دینا چاہیئے۔ یاد رہے کہ بہت سارے پیچیدہ مسائل "لٹکا دینے” سےبھی حل ہو جایا کرتے ہیں ۔ ہمارے از خود فیصلہ سازوں کو عرب ممالک سے قربت کے بہانے تلاش کرتے ہوئے، قرض خواہی کے لیے شرمناک حرکات و سکنات کرتے ہوئے ، یا ایک ایٹمی ملک ہوتے ہوئے بھی غیر واضح اور مستور دفاعی معاہدے کرنے سے پہلے خاص اپنے ملک کے مفادات کے تحفظ کا اہتمام کر لینا چاہیئے۔ایسا نہ ہو کہ کوئی ملک پاکستان پر حملہ آور ہو جائے اور دفاعی معاہدے کے نکاح نامے میں بندھے عرب ملک حسب عادت اور حسب معمول ناک میں انگلی پھیرتے رہیں۔یا زیادہ سے زیادہ دونوں ملکوں کو صبر و تحمل سے کام لینے کی تلقین کرکے اپنے غیر موجود ضمیر کو مطمئن کر لیں ۔ان عرب ممالک نے امریکہ اور اسرائیل کی دور رس راہنمائی اور تلقین پر ہمارے جیسے ملکوں میں خاص طرح اور جدا طرز کے ریلیجیس اسکول قائم کئے تھے، انہیں فنڈز دیئے، اور پھر اس انتہا پسند اسلام کو فروغ دینے کی کوشش کی ،جس کا یہ خود اپنے ملک میں تصور تک نہیں سکتے ۔برصغیر میں تو خیر انگریز اپنے دوررس مفادات کو پورا کرنے والے ریلیجیس اسکول اور "علمائے کرام ” تیار کر کے نقد فوائد سمیٹ چکا تھا اور اب امریکہ کو بھی اسی راہ پر لگا چکا ہے۔اب وقت آ گیا ہے کہ ؛ بلاامتیاز کارروائی کرتے ہوئے اس مصیبت سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ ہمیں ایک بار ہمت کر کے سارے ریلیجیس اسکول بلاامتیاز 30 سال کے لیے بند کر دینے چاہیئں ۔ان کی عمارات کو سرکاری تحویل میں لے کر ان کو عام اور یکساں معیار کے تعلیمی اداروں میں تبدیل کر دینا چاہیئے۔ان مدرسوں کے نصاب اور اسناد پر مکمل پابندی لگانا ہو گی ۔یہ نصابات انگریز سرکار نے اپنے مستقبل کے سیاسی منصوبوں کی تکمیل اور ان میں مذہب اسلام کو ایندھن کے طور پر استعمال کرنے کے لیے تیار کروائے تھے۔ہم نے آج تک اپنے مقدس علماء کے حقیقی احوال و اعمال کا گہرا مطالعہ نہیں کیا۔بہرحال اس وقت پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی اکثریت ان مدرسوں میں پڑھتی ہے ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ؛ اس وقت مختلف قسم کے اور جدا جدا رتبے کے تالی بان پاکستانی مدرسوں ہی کے فارغ التحصیل ہیں۔گویا فساد کی مینوفیکچرنگ فیکٹریاں تو پاکستان میں آج بھی پوری استعداد کے ساتھ کام کر رہی ہیں ۔پھر دوسروں سے گلے شکوے کیوں؟ لیکن ساتھ ساتھ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ان مدرسوں کو ایک "اثاثے” کے طور پر نہ صرف باقی رکھا جائے گا ،بلکہ ان کا تحفظ بھی کیا جائے گا ۔وجہ یہ ہے کہ ان مدرسوں کے ذریعے اسلام کی حقیقی بصیرت کو چھپا کر ،ان سے امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کا تحفظ کرانا مقصود و مطلوب ہے ، جیسا کہ یہ شروع سے کرتے آرہے ہیں ۔پاکستان کو خطرہ نہ ان مدرسوں سے ہے اور نہ ہی ان کے تیار کردہ "تالی بان” سے ، پاکستان کو اصل خطرہ ان مدارس اور ان کی پیداوار کو اپنی اسٹرٹیجک حماقتوں اور سودے بازیوں کے لیے استعمال کرنے والے بالائے قانون و آئین لوگوں سے ہے۔ایسے تمام لوگوں کو علامہ اقبال نے پیشگی طور پر متوجہ کر رکھا ہے کہ؛
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button