گنڈاپور سے آفریدی تک!

آخر کار وہ خبر آہی گئی جس کا لوگوں کو بے چینی کے ساتھ انتظار تھا، اس ہفتے بانی چیئرمین تحریک انصاف اور سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان نے خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کو ہٹا کر ایک نئے اور ینگ پی ٹی آئی ورکر سہیل خان آفریدی کو خیبرپختونخوا کا نیا وزیراعلیٰ بنا دیا، ایک لحاظ سے علی امین گنڈاپور کے ہٹائے جانے سے تو لوگوں کو زیادہ حیرانی نہیں ہوئی مگر ینگ سہیل خان آفریدی کے نام پر کچھ حیرت ہوئی۔ خیبرپختونخوا میں پچھلے دو ڈھائی سالوں سے مسلسل دہشت گردی کے واقعات ہورہے تھے جس میں نہ صرف سویلین بلکہ ہمارے فوجی جوان بھی مارے جارہے تھے۔ عمران خان مسلسل علی امین گنڈاپور سے کہتے رہے کہ وہ فوجی آپریشن کو علاقے میں بند کرائیں مگر وہ اس میں ناکام رہے۔ معاملہ اس وقت کلائیمکس پر پہنچا جب اس ہفتے اورکزئی ایجنسی میں دہشت گردی کا ایک واقعہ ہوا جس میں کم از کم اٹھارہ جوان اور افسران شہید ہو گئے جن میں ایک میجر اور ایک کرنل بھی شامل ہیں۔اس بات کا ذکر عمران خان نے اڈیالہ میں اپنے ٹرائل کے دوران موجود وکیلوں کے ذریعے کیاتو اس ہولناک حادثے کا بھی ذکر کیا، اب کچھ لوگ مختلف کہانیاں بھی بنارہے ہیں کہ اس فیصلے کی بنیاد عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان تھیں جن کے خلاف اس ہفتے علی امین گنڈاپور نے اپنی ایک ویڈیو میں الزام لگایا تھا کہ علیمہ خان پاکستان کے خفیہ ادارے ایم آئی کی ایجنٹ ہیں۔ ہمارے خیال میں صرف علیمہ خان کا واقعہ ہی اس کے استعفے کا باعث نہیں بنا بلکہ ایک لمبی لسٹ ہے 26نومبر کے خونی واقعے سے لیکر آئی ایس آئی کیساتھ ملاقاتیں ہونے تک۔ پاکستان کی مختلف خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ ان روابط کی اس وقت بھی تصدیق ہو گئی جب فوج کے ادارے آئی ایس پی آر نے سارے ٹی وی نیوز چینلز پر یہ خبریں اور ٹکرز چلوائے کہ علی امین گنڈاپور کی تنزلی کی خبر ایک فیک نیوز ہے اور عمران خان نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا، حقیقت تویہ ہے کہ تحریک انصاف میں صرف عمران خان کو چھوڑ کر کوئی ایسا رہنما نہیں بچا ہے جو کہ کمپرومائز نہیں ہوا ہے۔ اس بات کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب عمران خان نے تحریک انصاف کے سارے رہنمائوں سے کہا کہ ان کے سارے ٹوئیٹس وہ اپنے اپنے ایکس اکائونٹس پر ری ٹوئٹ کریں تو چند لوگوں کو چھوڑ کر کسی نے بھی ایسا نہیں کیا، اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ وہ عمران خان کو اپنا لیڈر نہیں مانتے یا وہ تحریک انصاف کے ساتھ نہیں رہے بلکہ اس کی بنیادی وجہ جنرل عاصم منیر کی طرف سے دی گئی ہدایات کے مطابق جب فوج کے اہلکار گمنام افراد کی شکل میں لوگوں کے گھروں پر چھاپے مارتے ہیں تو وہ سب لوگ اپنے اور اپنے خاندان کو بربریت سے بچانے کیلئے کمپرومائز ہو جاتے ہیں، ہم اس صورت حال اور عمل کو تقیہ کہتے ہیں جیسا ہارون الرشید اور مامون الرشید کے زمانے میں اہل بیت نے کیا تھا۔جب آپ کو فوجی رات کے اندھیرے میں اٹھانے کی دھمکی دیں گے، جب آپ کو یہ دھمکی دی جائے گی کہ تمہاری بیوی کو اغواء کر کے اس کی برہنہ ویڈیو انٹرنیٹ پر ڈال دیں گے، جب فوجی بھائی یہ کہیں گے کہ تمہارے بچوں کوسکولوں سے واپسی پر اغواء کر کے غائب کر دیں گے، جب آپ کویہ کہا جائے گا کہ تمہاری بہن کی آبرو ریزی کرنے کی ویڈیو انٹرنیٹ پر جاری کر دی جائے گی تو پھر ایسے میں انسان کے پاس کیا چارہ رہ جاتا ہے کہ وہ ان کی بات نہ مانیں، مشہور گلوکار ابرار الحق کو یہ پیغام دیا گیا تھا کہ اگر تم نے تحریک انصاف اور سیاست نہ چھوڑی تو اس کی برہنہ ویڈیو دیکھو گے، ابرار نے پی ٹی آئی چھوڑدی،جب شیریں مزاری کو دھمکی دی گئی کہ اگر تم نے پی ٹی آئی نہ چھوڑی تو تمہاری بیٹی ایمان مزاری کو اغواء کر کے اس کی عصمت دری کی جائے ویڈیو سوشل میڈیا پر ہم ڈال دیں گے تو شیریں مزاری نے پارٹی اور سیاست چھوڑ دی، جب ڈاکٹر معید پیرزادہ کو یہ دھمکی دی گئی کہ تمہاری بیٹی جس سکول میں پڑھتی ہے وہ کبھی گھر واپس نہیں آسکے گی تو ڈاکٹر معید پیرزادہ نے ملک کو ہی چھوڑ دیا، ایسے بے شمار واقعات ہیں اور فسطائیت کے حربے ہیں جو ہمارے جنرلوں نے کئے اور ہٹلر کو بھی شرمادیا، بیرون ملک خودساختہ جلاوطنی اختیار کرنے والوں کی ایک لمبی فہرست جس میں بے شمار صحافی، رپورٹرز اور اینکرزشامل ہیں مثال کے طور پر عمران ریاض خان، صابر شاکر، ڈاکٹرمعید پیرزادہ، ڈاکٹر شہباز گل، طحٰہ صدیقی ، احمد نورانی، وجاہت سعید خان، شاہین صہبائی، عادل راجہ، ایس احمد، گل بخاری، رضا رومی، نورالامین دانش، ارشد شریف شہید، آفتاب اقبال، عائشہ صدیقہ غرض ایک لمبی فہرست ہے جو فوجی بربریت اور فسطائیت سے خوفزدہ ہو کر بیرون ملک ٹھہرے ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ اس لسٹ میں وہ جرنلسٹس شامل نہیں ہیں جو پاکستان میں اب بھی مقیم ہیں مگر فوج کا ظلم سہہ رہے ہیں مثال کے طور پر کاشف عباسی کو اے آر وائے سے ہٹا دیا گیا جبکہ ان کے اور ان کی اہلیہ اینکر مہربخاری کے بنک اکائونٹس فریز کردئیے گئے ہیں۔ ہارون رشید اور صدیق جان کو نوکریوں سے نکلوا دیا گیا ہے۔ سید علی طور اور ایاز میر بیروزگار ہیں۔ اوریا مقبول جان اور سمیع ابرہیم کو بھی نکلوا دیا گیا ہے۔ یہ ثبوت بار بار ہم اس لئے بیان کرتے ہیں کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ سب جعلی کہانیاں ہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ یہ حربے طالع آزمائیاں تو کبھی ہٹلر اور گسٹاپو کے ذہن میں بھی نہیں آئی ہوں گی جو ہمارے جنرل عاصم منیر اور انکے حواری استعمال کرتے ہیں، کسی کے نازک اعضاء پر کرنٹ دوڑایا جاتا ہے تو کسی کے خصیوں پر اینٹیں باندھی جاتی ہیں، ڈاکٹر شہباز گل کی ایک ٹیبل پر الف برہنہ تصاویر اور وڈیوز تو آج بھی محفوظ ہیں جوان جنرلوں نے جاری کی تھیں، اس کے باوجود آپ کہتے ہیں کہ اس تمام فساد کی جڑ عاصم منیر کو کچھ نہ کہاجائے؟ ہمیں تو بس یہ فکر ہے کہ اس ایک بائی پولر ڈس آرڈر ذہنی مریض کی وجہ سے ہماری پیاری فوج بدنام ہورہی ہے۔