ہفتہ وار کالمز

گالی سوائے مجھ سے سخن مت کیا کرو!

ابھی تک ایسی کوئی مستند اور قابل اعتبار تحقیق سامنے نہیں آ سکی جس سے یہ علم ہو سکے کہ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ لمبی زبان کس کی ہے ؟ اگر زبان درازی کے معنی و مفہوم اوراطلا قی جہات کو پیش نظر رکھا جائے تو اس وقت عالمی منظر نامے میں ڈونلڈ ٹرمپ اور بنجمن نیتن یاہو کے نام اس حوالے سے نمایاں نظر آتے ہیں۔ستم ظریف ان دونوں کی زبان درازی اور واہی تباہی کو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک و مشروط قرار دیتا ہے ۔وہ کہتا ہے کہ نیتن یاہو اپنی زبان درازی کی ساری طاقت ڈونلڈ ٹرمپ کے لسانی اعصاب سے حاصل کرتا ہے ۔اس کے خیال میں اسرائیلی بد زبان نیتن یاہو امریکہ کی مخفی حکمت عملی کے عصری اظہار کے سوا اور کوئی حیثیت نہیں رکھتا، سب جانتے ہیں کہ وہ کسی بڑے غنڈے کی پشت پناہی پر چوری چکاری اور ٹھگ ماری کرنے والے تلنگے سے زیادہ اہمیت اور حیثیت کا مالک نہیں ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ستم ظریف حیران اور خاصا پریشان ہے ، دراصل وہ عرب ممالک ، بالخصوص قطر اور سعودی عرب کے عمل اور ردعمل پر بڑا اُداس اور مایوس ہوا ہے۔اُسے ان عرب ممالک کے حکمران دیہاتی شادیوں میں یا بچوں کے ختنے کی خوشی میں گلی میں ناچنے والے ہیجڑوں کی طرح دکھائی دے رہے ہیں۔اسے نیتن یاہو کی زٹل گوئی اور ڈونلڈ ٹرمپ کی ہزل بیانی پر مسکرانے والے عرب شیوخ کی حالت پر بھی طیش آتا ہے ،وہ میر تقی میر کے اس شعر ؛
گالی سوائے مجھ سے سخن مت کیا کرو
اچھی لگے ہیں مجھ کو تری بد زبانیاں!
کا حوالہ دیتے ہوئے قیاس کر رہا ہے کہ میر تقی میر کو پیشگی طور پر عرب شیوخ اور امریکی مداریوں کی باہم آشنائیوں اور ان کے نتائج کا ادراک تھا۔ میں ستم ظریف کی ان باتوں کو اہمیت نہیں دیتا،نہ ان پر یقین کرتا ہوں، بس سن لیتا ہوں ،وہ کہتا ہے کہ قطر پر اسرائیل کا بے فائدہ حملہ قطر کی حفظ وامان کے ذمہ دار امریکہ کی اطلاع ، شمولیت اور رضامندی سے ہوا تھا،اس حملے کے بعد قطر کو بالخصوص اور دیگر عرب ممالک کو بالعموم اتنی ہی آوازیں منہ سے نکالنے کی اجازت دی گئی تھی جتنی کہ کسی نئی نئی پورن اسٹار کو شروع شروع میں سکھائی اور بتائی جاتی ہے ۔ستم ظریف کا تجزیہ ہے کہ قطر پر اسرائیل کا حملہ اتنا اہم نہیں ،جتنا اہم اس حملے کے بعد نیتن یاہو کے وہ بیانات اور وہ جواز ہیں،جو اس نابکار نے اسرائیلی حملوں کے حوالے سے تراش کر دنیا کے سامنے پیش کیے ہیں ،اور جن میں اس نے پاکستان کی حدود کے اندر اسامہ بن لادن پر امریکیوں کے ڈرامائی اور سراسر ہوائی حملے کو مثال بنا کر دیئے تھے۔مشرق وسطی کے تنازعے میں اس طرح سے پاکستان کے حوالے کو اسرائیل کی طرف سے استعمال کرنا عقلمندوں کے لیے ایک بڑے اشارے کی حیثیت رکھتا ہے۔ہاں مگر عقل کے اندھوں کے لیے اسرائیلیوں کی ناپاک زبان پر پاکستان کا نام اور حوالہ آنا کوئی اہم اور خاص بات نہیں ہے۔ لیکن پھر اچانک یوں ہوتا ہے کہ ایٹمی صلاحیت کی حامل واحد مسلم ریاست پاکستان اچانک امریکی اتحادی سعودی عرب کے ساتھ ایک ملفوف دفاعی معاہدے پر دستخط کر کے اعلان کر دیتی ہے کہ دونوں ملک حملے کی صورت میں ایک دوسرے کا تحفظ کریں گے اور یہ کہ ایک پر حملہ دوسرے ملک پر حملہ تصور کیا جائے گا ۔اس معاہدے میں یہ تصریح شامل نہیں ہے کہ یمن اور سعودی عرب کے مابین پنگے بازی میں پاکستان کا کیا کردار رہے گا؟ نہ ہی یہ وضاحت نظر آرہی ہے کہ ؛ ہندوستان کی طرف سے پاکستان کے ساتھ شرارت ہونے کی صورت میں سعودی عرب کس چوغے یا جبے میں منہ چھپا کر بیٹھ رہے گا؟ ان تمام موشگافیوں کے پس منظر میں شرلی بے بنیاد کے جملہ گمان اب بدگمانیوں کی صورت اختیار کر چکے ہیں ۔اس کا تازہ گمان بلکہ بدگمانی یہ بھی ہے کہ یہ معاہدہ امریکہ اور اسرائیل کی براہ راست ہدایت اور رضا مندی سے ہوا ہے اور مقصد نیوکلیئر پاکستان کو مشرق وسطی کے تنازعات کا عملی حصہ بنا کر اس کے نیوکلیئر پروگرام کو انواع و اقسام کے طریقوں سے زبانی یا عملی طور پر نشانہ بنانے کی کوشش یا خواہش ہو سکتی ہے ۔وہ کہتا ہے کہ یہ معاہدہ پاکستان کو مشرق وسطی تنازعے میں براہ راست ملوث اور ماخوذ کرنے کی ابتداء ہے۔اور شاید اس میں اسرائیل کی منشا اور سہولت کاری شامل ہے۔لطیفہ یہ ہے کہ جن شیوخ کو اربوں ڈالرز کا اسلحہ بیچ کر بھی امریکہ تحفظ نہیں دے سکتا، ان کو قرض کی مئے پینے والا پاکستان کیا تحفظ دے پائے گا۔ہاں یمن سے لڑنے کے لیے سابق اور آزمودہ رائل برٹش آرمی پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے ۔انگریزوں نے یروشلم کو بھی اسی فوج کی بہادری سے فتح کیا تھا۔ میں شرلی بے بنیاد کے اس شرمناک شبے کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہوں کہ؛ اس معاہدے سے اسرائیل کے مفادات کا تحفظ ہونے جا رہا ہے۔ ایک ایٹمی طاقت کا حامل ملک سکیورٹی بزنس میں ملوث نہیں ہو سکتا ۔پاکستانی اپنا بجٹ ،اپنی تعلیم ،اپنی صحت اور اپنی ضروری سہولیات کی قربانی دے کر اپنی افواج کی ضروریات اس لیے پوری نہیں کرتے کہ پھر جوانوں کو کرائے کی جنگوں کا ایندھن بنایا جائے ؟ایک ایٹمی طاقت کا حامل ملک سکیورٹی بزنس میں ملوث نہیں ہو سکتا۔ شرلی کا خیال ہے کہ نئے شروع ہونے والے ڈرامے کا رخ قطر کے ذریعے پاکستان کو اسرائیل کے لیے ایک براہ راست خطرے کے طور پر سامنے لاتے ہوئے شکار کا نشانہ بنانے کی کوشش یا منصوبہ یا خواہش ہو سکتی ہے ۔ٹرمپ مکار اس کھیل میں شامل ہے اور اس کی ہر پندرہ منٹ بعد انڈیا کی بے عزتی کرنا بھی دھوکہ دہی کے اسی کھیل کا حصہ ہے۔ دوسری طرف دیکھئے تو پاکستان اندرون ملک اپنی نرم خو حکمت عملی اور اپنے آلتو پالتو ، گاہے کار آمد ، گاہے فالتو اثاثوں کی وجہ سے بدترین گوریلا جنگ کا شکار بنا ہوا ہے ۔روزانہ کی بنیاد پر جوانوں اور نوجوان کمانڈرز کی شہادتیں ہو رہی ہیں۔ایک جوان کی سلامتی کی ذمہ داری سپہ سالار کا اولین فرض ہوتا ہے ،یا ہونا چاہیئے۔لیکن دہشت گردوں کے غول کے غول افغانستان سے پاکستان کے اندر آ کر فساد کرتے اور واپس چلے جاتے ہیں۔ہمارے پالیسیاں بنانے والے اور قیادت کرنے والے عقل کے ناخن کیوں نہیں لے رہے؟؟؟ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان ایک ایٹمی ملک اور مضبوط فوجی طاقت کے طور پر کسی بھی قسم کے بین الاقوامی ڈراموں میں اپنا کردار خود منتخب کیا کرے۔ایسے انتخاب میں ملکی مفاد کو پیش نظر رکھنا شرط اول ہے۔ میں بغیر کسی قسم کہ ہچکچاہٹ کے ستم ظریف اور شرلی بے بنیاد جیسے عام تام پاکستانیوں کے دور ازکار خدشات اور ازخود تشکیل کردہ گمانوں کے بےمہار لشکروں کو مکمل طور پر نظر انداز بلکہ مسترد کرتا رہتا ہوں ۔ان کی بے سروپا باتیں صرف اس لیے پکا سا منہ بنا کر سن لیتا ہوں کہ ؛ ان معصوم پاکستانیوں کی بات اگر میرے جیسا بالکل ہی عام پاکستانی بھی نہیں سنے گا تو پھر پاکستان میں سماعت اور برداشت کی ثقافت دم توڑ جائے گی۔جہاں تک جہانی معاملات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی زود بیانی اور نیتن یاہو کی ڈھینچوں گوئی کا تعلق ہے ،اسے بجتے چراغوں کی آخری آخری لو اور لپک خیال کیا جا سکتا ہے ۔اسرائیل جان چکا ہے کہ دنیا اب ایک بدترین مذہبی اور نسل پرست ریاست کے مقابل ایک انسانی کمیونٹی فلسطین کے حق کو تسلیم کر رہی ہے ۔عرب ممالک نے بالخصوص اور دیگر مسلم ممالک نے بالعموم غزہ اور فلسطین کے شہریوں کے قتل عام بلکہ نسل کشی پر مکمل خاموشی بلکہ لاتعلقی اختیار کر کے دنیا کو یہ موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ مسلہ فلسطین اور مقتولین غزہ کے معاملے کو کسی مذہبی وابستگی کی بجائے محض انسانیت کے رشتے اور انسانی اخوت کی بنیاد پر دیکھنا اور محسوس کرنا شروع کریں۔ ایسے میں جہاں دنیا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی راہ پر چل نکلی ہے ،وہیں غزہ پر اسرائیلی مظالم اور ان کی پشت پر امریکی حمایت کو معاف یا درگزر کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آ رہی۔اقوام متحدہ کے اجلاس میں ڈونلڈ ٹرمپ کے متجاوز اور متکبر خطاب نے بھی امریکی بے بسی کو نمایاں کیا ہے ۔یوں بھی احوال عالم باور کرا رہے ہیں کہ،امریکی تفوق اور تصرف کا دور تمام ہوا چاہتا ہے۔ایسے میں ڈونلڈ ٹرمپ کی اندرونی تڑپ اور بے چینی کو سمجھنا مشکل نہیں رہا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ،اب امریکہ کے اشاروں پر دنیا کو نہیں، دنیا کے تیور دیکھ کر خود امریکہ کو تبدیل ہونے کی ضرورت ہے۔ٹرمپ کو اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہیئے کہ اب امریکہ پرانی شراب نہیں رہا،ہاں پرانی شراب کی خالی بوتل کہہ سکتے ہیں ،ایسی بوتل ڈیکوریشن پیس بن کر باقی رہے تو رہے ، ورنہ توڑ دی جاتی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button