قطر پر حملہ

اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی یہ مثل اس وقت کہی جاتی ہے جب کسی شخص سے کوئی بات صحیح سرزد نہ ہو جب کوئی بات کہے یا کام کرے تو اس میں کوئی نہ کوئی نقص موجود ہو، ہر چند کہ اونٹ کی کوئی کل سیدھی نہیں ہوتی مگر پھر بھی اونٹ صحرا کا جہاز تو ہے صحرا میں بہت تیز دوڑتا ہے، بار برداری کے کام آتا ہے ،مگر اونٹ جب صحرا سے نکلتا ہے شہروں میں آتا ہے تو اس کی ہیئت اور کار کردگی پر بہت سے سوال اٹھتے ہیں شہروں میں اونٹ کی نسبت گدھوں کی کارکردگی زیادہ بہتر ہے پہاڑی علاقوں میں جہاں گھوڑے کام نہیں آ سکتے وہاں گدھے استعمال ہوتے ہیں ، ہمارے ہاں اُلو بے وقوف ہونے کی علامت ہے مگر مغرب میں بات بالکل الٹ ہے انگریزی میں کہا جاتا ہے A Wise as an owl ، مجھے کچھ خفت کا سامنا کرنا پڑا جب ایک بار دوستوں کے درمیان ہم نے یہ کہہ دیا کہ اُلو ایک خوبصورت پرندہ ہے یہ عجیب بات ہے ہم اُلو کو بے وقوف ہونے کے ساتھ بدصورت بھی سمجھتے ہیں ، بات یہ ہے کہ ہم نے اپنے خول سے نکل کر باہر جھانکنے کی کوشش نہیں کی ، ورنہ ہمیں اپنے آپ کو بدلنے کا موقع ضرورمل جاتا، چند دن پہلے ہی ایک محفل میں جب ہم نے سوال کیا کہ جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوم ہندوستان کے بہت قریب لڑی گئیں تو ان دو بڑی جنگوں کا ہندوستان پر کیا اثر پڑا، ہمیں بتایا گیا کہ جب جنگیں ہندوستان سے باہرلڑی گئیں تو ہندوستان کا ان جنگوں سے کیا لینا دینا یہ بھی کہا گیا کہ دوسری جنگ عظیم کا اثر ہندوستان کی آزادی کی صورت میں نکلا برطانیہ اتنا کمزور ہو چکا تھا کہ اسے ہندوستان چھوڑ نا پڑا ہمارا خیال یہ ہے کہ برطانیہ کے ہاتھوں میں اقتدار ایسٹ انڈیا کمپنی سے ملا تو برطانیہ نے ہندوستان میں سیاسی جماعت بھی قائم کر دی سیاسی عمل بھی شروع ہو گیا ہمارے خیال میں یہ باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ انگریز کا ہندوستان میں رکنے کا کوئی ارادہ نہ تھا یہ ضرور ہوا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد اس عمل میں بہت تیزی آگئی ، جنگ عظیم اول اور دوم نے ساری دنیا پر اثرات چھوڑے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ان دو بڑی جنگوں کے اثرات ہندوستان پر نہ پڑے ہوں ، اثرات مرتب ہوئے مگر سیاسی معاشرتی اور سماجی اثرات بہت خاموشی سے کسی معاشرے میں ظہور پذیر ہوتے ہیں البتہ معاشی اثرات فوری طور پر نظر آنے لگتے ہیں ہندوستان میں مسلمانوں کی ہزار سال کی حکومت نے عوام کو رعیت رہنے کی ایسی عادت ہوئی کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کو ہندوستان کے لوگوں کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی ہزاروں لوگ ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج میں شامل ہو گئے اور وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے وفادار بھی تھے۔ اب آیئے سلطنت عثمانیہ کی تحلیل کی جانب ، وہ سلطنت جو تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی وہ صرف ساٹھ برسوں میں صرف ترکی تک محدود ہوگئی اس پر مسلم مورخ نے کبھی غور نہیں کیا یہ کیسے ہوا کہ سلطنت عثمانیہ تحلیل ہوئی اور اس میں سے اڑتالیس ممالک نے اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا امت منہ دیکھتی رہ گئی NATIONALISM امت کو ہڑپ کر گیا اسی میں سے ایک ریاست سعودی عرب کی بھی تھی جس کے شریف مکہ نے ترکوں کے خلاف بغاوت کر دی تھی اگر اسرائیل کی ریاست امریکہ اور برطانیہ نے بنائی تو سعودی ریاست بھی انگریزوں نے ہی بنا کر دی تھی خلیجی ریاستیں بھی انہی کی دین ہیں تاریخ جھوٹ نہیں بولتی کل کی بات ہے کہ عرب ہندوستان آتے تھے اور ان کی مسجد میں پنکھوں کے لئے ہندوستان میں چندہ کیا جا تا تھا تیل نکل آنے کے بعد دولت کی ریل پیل کا ہو جانا ایک فطری عمل ہے امارات کا ایک شہزادہ امریکہ تعلیم حاصل کرنے گیا تعلیم مکمل کی اور واپس آکر اس نے دبئی کو ایک جدید شہر بنا دیا جس کی دیکھا دیکھی سعودیہ کے شاہ فیصل نے سعودیہ کوکسی حد تک بدل دیا پھر محمد بن سلمان نے 2030 MISSION کی بنیا د رکھی جدید شہر تو بن گئے مگر کسی کو اپنے ملک کے دفاع کا خیال نہیں آیااور اس کا نتیجہ اس وقت قطر پر اسرائیل کا حملہ ہے، قطر کا دفاع مضبوط ہوتا تو اسرائیل کبھی قطر پر حملہ نہ کرتا، قطر میں امریکی اڈے کے ہونے کا ہرگز مطلب یہ نہیں کی امریکی فوج قطر کا دفاع کرے گی امارات کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات بھی ہیں سفارتی تعلق تو پاکستان کے ہندوستان سے بھی ہیں مگر اس کے باوجود پاکستان اور ہندوستان دو جنگیں لڑ چکے ہیں اور دشمنی اپنی جگہ ہے اسی انالوجی پر قطر پر اسرائیل کے حملے کو بھی دیکھا جاسکتا ہے مگر اہم بات یہ ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تو دشمنی ہے مگر اسرائیل اور قطر کے درمیان کوئی دشمنی نہیں تھی مگر قطر میں حماس کا قیام اسرائیل کو ضرور کھٹکتا ہوگا چونکہ ایک پلان کے تحت غزہ کو تباہ کیا گیا اور اس پلان کو جلد از جلد Execute کرنا ہے ۔لہٰذ ا قطر پر حملہ ضروری سمجھا گیا اور اسرائیل کو معلوم تھا کہ قطر جوابی کاروائی نہیں کرے گا یہ ممکن ہی نہیں کہ حملہ امریکہ کی منظوری کے بغیر کیا گیا ہوامریکہ بھی جانتا تھا کہ قطر کچھ نہ کر پائے گا اب ظاہر ہے کہ ایک واویلا ہے، سلامتی کونسل کا اجلاس بھی بلایا گیا ہے وہی مذمت اور احتجاج ، قطر اس کو سفارتی حملہ بھی قرار دے رہا ہے دوحہ کا نفرنس بھی منعقد ہوئی اس کو عرب اسلامی کانفرنس کا نام دیا گیا ہے کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ اس کا نفرنس میں عرب ممالک اور اسلامی ممالک شریک ہوئے ہیں شہباز شریف نے بہت اچھی تقریر کی اعلامیہ کا انتظار ہے ایک ٹاسک فورس کی باتیں ہو رہی ہیں او آئی سی کا اجلاس بھی ہوگا اسرائیل اور امریکہ جب سلامتی کونسل کی قرار دادوں کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں تو او آئی سی یا دوحہ کانفرنس کی قرار دادوں سے کیا ہوگا، ہمارا خیال ہے کہ شاید اس کا نفرنس سے دل کی بھڑاس نکال لی جائے اس سے زیادہ کچھ نہ ہوگا قطر کبھی اسرائیل سے اس حملے کا بدلہ نہ لے سکے گا مگر عربوں کو عقل آجانی چاہیے ہر چند کہ خلیجی ممالک کی ترقی میں مغرب اور امریکہ کا ہاتھ ہے ان ممالک میں جو کچھ بھی امریکہ اور مغرب نے بنایا ہے اس کی قیمت وہ وصول کر چکے مگر امریکہ اور مغرب جانتے ہیں کہ عرب ممالک کا دفاع نہ ہونے کے برابر ہے اس لئے یہ سارے ممالک مل کر بھی اسرائیل کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے اور اگر کوئی ایسا مرحلہ آہی گیا تو کیا خلیجی ممالک کو بہت بڑی تباہی دیکھنی ہوگی امریکہ سے جو بھی vibes آرہے ہیں اس سے تو اندازہ یہی ہورہا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل ہر صورت میں غزہ میں وہی کرینگے جو ان کا پلان ہے اور دنیا میں ہزار ریلیاں نکالی جائیں اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا ، ایسی صورت میں کیا کیا جاسکتا ہے عرب کو ایک ایسی umbrella چاہئے جو اس کو محفوظ بنادے یہ کام فوری طور پر نہیں ہوسکتا، چین اور روس بہت کھل کر سامنے نہیں آئے فی الحال بات مذمت تک ہی محدود ہے اگر وہ کھل کر سامنے آتے ہیں تو تیسری عالمی جنگ کو کوئی نہیں روک سکتا ، ہمارا خیال ہے کہ sanity should prevail کوئی درمیان کا راستہ جو مشرق وسطی کو آگ سے بچا سکے ، ان دنیا میں اصول و انصاف کی بات نہیں ہو سکتی صرف طاقت سے ہی کام لیا جارہا ہے اور دنیا کے پاس امریکی طاقت کو روکنے کے لئے طاقت نہیں ، پلوں سے پانی گزر جانے دیں اسوقت کا انتظار کریں جب ہاتھی سو جائے یورپ کی دوغلی پالیسی افسوسناک ہے فلسطین کی ریاست شاید نہ بنے پاکستان کو بھی جذباتی فیصلے نہیں کرنے چاہیے ورنہ نقصان سے دو چار ہونا پڑے گا۔