ہفتہ وار کالمز

میرؔ کیا سادہ ہیں……!

میر تقی میرؔ نے اپنی حالتِ زار کے بارے میں یہ شعر آج سے کوئی دھائی سو برس پہلے کہا تھا:
؎میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں!
لیکن آج شیوخِ عرب کی حالتِ زار دیکھ کے یہ یقین کرنے کو جی چاہتا ہے کہ میر صاحب نے یہ شعر آج کے عرب سربراہان کیلئے کہا تھا!
منگل، 9 ستمبر کو صیہونی اسرائیل نے قطر کے صدر مقام دوحہ کے مضافات میں ان عمارتوں کو اپنے میزائلوں کا نشانہ بنایا جہاں حریت پرست فلسطینی تنظیم، حماس کے سرکردہ اراکین غزہ میں جنگ بندی کے اس منصوبے کے رموز و نکات پر غور کرنے کیلئے جمع تھے جو اسرائیل کے اتحادی، امریکہ کے صدر ٹرمپ نے اپنی روایتی لفاظی کے ساتھ بڑے طمطراق سے پیش کیا تھا۔ اسرائیل کا حماس کی لیڈرشپ کو نشانہ بنانے کا جنون اس حد تک تکبر اور اپنی عسکری طاقت کے نشہ سے سرشار ہے کہ اسرائیل کے جنگجو وزیر اعظم ، نیتن یاہو جن کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف فلسطینی، عرب اور اسلام دشمنی سے معنون ہے، نے ان حماس کے رہنماؤں کو ہلاک کرنا چاہا جو ٹرمپ کے امن منصوبہ پر غور کرنے کیلئے وہاں اپنا اجلاس کر رہے تھے۔ نیتن یاہو کا تکبر دنیا کو معلوم ہے اور اس کے جنگی جنون کے پیشِ نظر انٹرنیشنل کرمنل کورٹ آج سے ایک برس پہلے اس کے جنگی جرائم کے خلاف وارنٹِ گرفتاری پیش کرچکا ہے جس سے دنیا کے ہر ملک پہ لازم ہوجاتا ہے کہ نیتن یاہو جہاں ان کے ہاتھ لگے وہ اسے گرفتار کرکے عالمی عدالت کے حوالے کردیں۔ لیکن اس وارنٹِ گرفتاری پر آج تک اس لئے عمل نہیں ہوسکا کہ مغرب کے بیشتر ممالک اسرائیل کے جرائم میں پوری طرح اس کے شریک ہیں، اور ان اسرائیل نواز ممالک کا سرخیل امریکہ ہے!
ظاہر ہے کہ اسرائیل کے بزدلانہ حملے میں اس کا حلیف امریکہ برابر کا شریک رہا ہوگا۔ امریکہ- اسرائیل گٹھ جوڑ دنیا پر اظہر من الشمس ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ امریکہ اور اسرائیل ایک سکے کے دو رخ ہیں اور اسی گٹھ جوڑ کی بنیاد پر اسرائیل کی صیہونی ریاست غزہ اور مقبوضہ فلسطین کے مظلوموں پر پچھلےدو برس سے وہ مظالم ڈھاتی آئی ہے جنکی دنیا کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی! قطر کی حکومت نے اسرائیل کی اس بربریت اور شیطانیت کے جواب میں زبانی کلامی اس کی جو مذمت کی وہ سمجھ میں آتی ہے۔ ظاہر ہے کہ قطر کی حاکمیت پر اسرائیل نے حملہ کیا تھا جو سراسر بین الاقوامی قانون کی دھجیاں اڑانے کے مترادف تھا۔ لیکن اس کے بعد قطر کے وزیرِ اعظم نے رخ کیا تو کہاں کا؟ واشنگٹن کا۔ جس پر ہمیں بے ساختہ میر صاحب یاد آگئے کہ جس نے ارتکابِ قتل کیا تھا یا قتل کرنے والے کی ہر طرح سے تائید اور امداد کی تھی اسی سے اپنے زخموں کی چارہ گری چاہ رہے تھے!
عرب سربراہانِ مملکت کی یہ سادہ لوحی کہی جائے یا نادانی کہ اسرائیل، جس کے دئیے گئے اسلحہ اور دیگر سامانِ جنگ کے بل بوتے پر صیہونی ریاست فلسطینیوں کو گاجر مولی کی طرح دن رات کاٹ رہی ہے، اور اس کے جنگی جنون اور توسیع پسندی نے غزہ کو کھنڈر بنادیا ہے، ساٹھ ستر ہزار فلسطینی بے گناہ اسرائیل کے جنگی جنون اور بربریت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، بیس لاکھ غزہ کے معصوم شہری دربدر مارے مارے پھر رہے ہیں، اسی سرپرست اعلیٰ سے فریاد کرنے جارہے ہیں جس کی ہوسِ اقتدار یہاں تک ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ پوری عرب دنیا اسرائیل کو اپنا سرپرست تسلیم کرلے اور امریکہ کی عالمی توسیع پسندی میں یہ کلیدی عنصر ہے کہ اسرائیل امریکہ کا چوہدری بن کے اپنے عرب پڑوسیوں پر اپنی اور امریکہ چودہراہٹ کو دوام دے سکے! تو قطر کے وزیر اعظم کی واشنگٹن یاترا سے قطر کو کچھ حاصل نہیں ہوا سوائے اسکے کہ صدر ٹرمپ نے انہیں وہی خالی، بے معنی تسلیاں دے دیں جو جان چھڑانے کیلئے آزمودہ نسخہ کے طور پہ استعمال کی جاتی ہیں۔ اس سے اسرائیل کی جارحیت میں نہ کوئی کمی آئی نہ ہی امریکہ کی اسرائیل نوازی میں کوئی فرق پڑا۔ یاد رہے کہ اسرائیل کے حملہ کے بعد ٹرمپ نے جو بیان دیا تھا اس سے ہی یہ بھید آشکارا ہوگیا تھا کہ امریکہ اسرائیل کی اس ننگی جارحیت میں اس کا برابر کا شریک تھا۔ ٹرمپ نے صرف اس کی مذمت کی تھی اسرائیل کا نشانہ غلط جگہ پر تھا لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرمایا تھا کہ حماس کے قائدین کو نشانہ بنانا، ان کی دانست میں ایک قابلِ تحسین اقدام تھا! قطر کیا خلیج کے ہر ملک کی قیادت یا تو فہم و فراست سے قطعی محروم ہے یا پھر وہ امریکہ کے ایسے غلام ہیں کہ جو امریکہ ان کےجانی دشمن اسرائیل کے ہر قدم شانہ بشانہ ساتھ دے رہا ہے اسی امریکہ سے ستم کی داد پانے کی امید رکھتے ہیں! اسی قطر کی سرزمین پر امریکہ کا مشرقِ وسطی میں سب سے بڑا ہوائی اڈہ ہے، العدید، جہاں دس ہزار سے زائد امریکہ فوجی رہتے ہیں۔ اسی قطر کاصدر ٹرمپ نے تین ماہ پہلے جب دورہ کیا تھا تو قطر کے امیر نے حاتم طائی کو شرماتےہوئے ٹرمپ کو چار سو ملین ڈالر کا ایک جہاز تحفہ میں دیا تھا جسے دنیا نے فضا کے پرتعیش قلعہ کا نام دیا تھا! یہی قطر ہے جو امریکہ میں دو کھرب ڈالر سے زائد سرمایہ کاری کرچکا ہے اور مزید سرمایہ لگانے کا ٹرمپ سے وعدہ بھی کرچکا ہے!
عرب سربراہوں کی عقل یا خود ساختہ بے بسی پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ وہ اس ٹرمپ سے مدد کے خواہاں ہیں جس نے اپنے پہلے دورِ صدارت میں کمال تکبر سے یہ کہا تھا کہ یہ عرب سربراہان تو امریکہ کی سرپرستی کے بغیر چند ہفتے بھی اقتدار میں نہیں رہ سکتے! امریکہ کے بل بوتے پر نیتن یاہو قطر اور دیگر خلیجی ریاستوں کو برملا دھمکی دے رہا ہے کہ اگر انہوں نے، بقول اس کے، اگردہشت گردوںکو نہ روکا تو اسرائیل انہیں ہر جگہ نشانہ بنانے سے احتراز نہیں کرے گا! اور اسرائیل کا دہشت گرد وزیرِ سلامتی، بن گویر، اس جہازوں کے بیڑے کو جو امدادی سامان سے لدا پھنداغزہ کی سمت بڑھ رہا ہے دھمکی دے رہا ہے کہ سب جہازوں کو تباہ کردیا جائے گا اور ان پر سوار رضا کاروں کو، جو دنیا کے پچاس ممالک کی نمائندگی کر رہے ہیں، گرفتار کرلیا جائے گا کیونکہ وہ، اس کھلے دہشت گرد کی نگاہ میں دہشت گردہیں! عرب شیوخ بیان بازی کے ماہر ہیں۔ لفظوں کے تیر چلانے اور کاغذی گھوڑے دوڑانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔
تو قطر پر اسرائیلی جارحیت کے بعد سے عرب شیوخ تند و تیز بیان دینے اور اسرائیل کی زبانی کلامی مذمت کرنے میں ایک دوسرے کو پچھاڑنے کے عمل میں مصروف ہیں۔ قطر کے ساتھ ہمدردی کرنے کیلئے عرب سربراہوں کی دوحہ میں آمد کی قطار لگی ہوئی ہے۔ ہمارے کٹھ پتلی شہباز شریف بھی کہاں پیچھے رہ سکتے تھے۔ انہیں تو اپنے ٹبر کے ساتھ پاکستان سے باہر نکلنے کیلئے کوئی بہانہ چاہئے۔ زبانی جمع خرچ کی اس روش نے ہمیں یہ چار مصرعے کہنے پہ مجبور کردیا:
لفظوں کے تیر خوب چلاتے ہیں یہ شیوخ
کاغذ کے گھوڑے تیز دوڑاتے ہیں یہ شیوخ
مردانگی کا امتحاں درپیش جب بھی ہو
چوروں کی طرح منہ کو چھپاتے ہیں یہ شیوخ!
یہ نہیں کہ ان عرب شیوخ کے پاس وہ وسیلے نہیں ہیں کہ جن سے یہ اسرائیل اور اس کے حلیف اور حمایتی مغربی ممالک کو دن میں تارے دکھلاسکتے ہیں اور گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ تیل کا ایک ہتھیار جو ان عربوں کے پاس ہے اسے اگر موثر طور پہ استعمال کیا جائے تو اسرائیل اور مغربی ممالک کی چیں نکلوائی جاسکتی ہے۔ خلیج کے تیل پیدا کرنے والے ممالک وہ ہیں جو دنیا کا چالیس (40) فیصد تیل پیدا کرتے ہیں۔ لیکن امریکہ نے پچاس برس پہلے، سعودی عرب کے شاہ فیصل کو قتل کرواکے عرب سربراہوں کے دلوں میں ایسی دہشت پیدا کردی ہے، ایسا خوف پیدا کردیا ہے کہ کسی عرب سربراہ کی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ شاہ فیصل کی تقلید کرنے کی جسارت کرے جنہوں نے 1973ء میں مغربی ممالک کو اسرائیل نوازی کے جرم میں سزا دینے کیلئے تیل کی ترسیل پر پابندی لگادی تھی جس کے جواب میں امریکہ نے ان کے اپنے ہی بھتیجے کے ہاتھوں انہیں قتل کروادیا!
وہ عرب ممالک جنہوں نے ٹرمپ کی خوشنودی کیلئے ابراہام سمجھوتے کو خوش آمدید کہتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کئے تھے وہ کم از کم اتنا تو کرسکتے ہیں کہ ان سفارتی تعلقات کو منقطع نہ سہی اس وقت تک کے لئے جب تک اسرائیل کی غزہ کے مظلوموں کے خلاف خوں ریزی بند نہیں ہوتی منجمد ہی کردیں! لیکن آج تک کسی ایسے عرب ملک کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ غزہ کے مظلوموں کی حمایت میں یہ قدم بھی اٹھاسکے! امریکہ کی غلامی کا خمیر ایسا قوی ہے کہ وہ آڑے آجاتا ہے!
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات!
اس کے برعکس بے حسی کا یہ عالم ہے کہ بحرین کی حکومت نے اسرائیل کے نئے سفیر کا پرتپاک خیرمقدم کرکے اپنے عوام کو مجبور کردیا کہ وہ اس اقدام کی مذمت میں مظاہرے کریں! یہ سطور 14 ستمبر کو لکھی جارہی ہیں اور دوحہ میں اب سے چند گھنٹوں بعد عرب اور اسلامی تنظیم کے رکن ممالک کا ایک سربراہی اجلاس ہونے والا ہے جس کے متعلق یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ تند و تیز بیانات کی بارش ہوگی، یقیناًہوگی، لیکن اگر کوئی ٹھوس اقدام نہ اٹھایا گیا یا اسرائیل کا سفارتی اور اقتصادی مقاطعہ کرنے کی کوئی کارروائی اس سربراہی اجلاس نے منظور نہ کی تو پھر وہی ہوگا جس کیلئے یہ پرانی کہاوت صادق ہوگی کہ
نشستن، گفتن، برخاستن یعنی ، آسان لفظوں میں بس زبانی جمع خرچ اور اس کے بعد ٹائیں ٹائیں فش!
ہم بھی انتظار کرتے ہیں آپ بھی کیجئے کہ اس سربراہی اجلاس سے کیا نکلتا ہے، تیریا تکہ ؟! ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button