خلیجی ممالک کی بے بسی!

پیر کے روز دوحہ میں ہونے والی کانفرنس کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس میں مسلم ممالک کے سربراہوں نے اسرائیل کی خوب سرزنش کی اور اسکی جارحیت کے خلاف سفارتی کوششیں کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ منگل سولہ ستمبر کے نیو یارک ٹائمز نے اس سمٹ پر تبصرہ کرتے ہوے لکھا ہے” Several leaders called on one another to move beyond talks and take tangiblle actions against Israel.” ترجمہ: بہت سے لیڈروں نے ایک دوسرے سے کہا کہ وہ بات چیت سے آگے بڑھ کر
ا سرائیل کے خلاف ٹھوس اقدامات اٹھائیں۔ ان ٹھوس اقدامات کی وضاحت کانفرنس کے اختتام پر جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں یوں کی گئی ہے ـ ’’ فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کی جارحیت کے مقابلے کے لیے مسلم ریاستوں کو تمام قانونی اور مؤثر اقدامات کرنے چاہئیں۔ ‘‘ صحافیوں کے پوچھنے پر عرب لیگ کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل حسام ذکی نے کہا ’’ یہ ایک لازم وملزوم پیراگراف نہیں ہے بلکہ ممبر ریاستوں کو ایک مشورہ ہے کہ وہ اگر چاہیں تو اپنی مرضی کے مطابق ضروری اقدامات کریں۔ ‘‘ اس وضاحت کا اسکے علاوہ اور کیا مطلب ہو سکتا ہے کہ عرب لیگ کسی ممبر ریاست کو اسرائیل کے خلاف کاروائی کرنے کا حکم نہیں دے سکتی۔ اس بیان میں حسام ذکی نے عرب لیگ کے ممبران اور دیگر مسلم ممالک کی اس بے بسی کو تسلیم کیا ہے کہ وہ سب مل جل کر تو دشمن کے خلاف کوئی عملی قدم نہیں اٹھا سکتے اس لیے انہیں انفرادی سطح پر ہی کچھ کرنا ہو گا۔
مسلم ممالک کے سربراہوں کا یہ اجلاس نو ستمبر کو دوحہ کے ایک رہائشی علاقے پر اسرائیل کے بیلسٹک میزائلوںکے حملے کا جواب دینے کے لیے بلایا گیا تھا۔ اس حملے میں حماس کے نچلی سطح کے پانچ رہنما اور قطر کی سیکیورٹی فورس کا ایک کارکن ہلاک ہوا تھا۔ اس حملے کے بعد قطر کی وزارت خارجہ اور حماس نے الگ الگ بیانات میں کہا کہ حماس کے صف اول کے رہنما ہلاک نہیں ہوئے۔ قطر‘ امریکہ اور اسرائیل کے باہمی تعلقات آجکل کافی الجھائو کا شکار ہیں۔ ان تینوں ممالک کے درمیان ہونیوالی گفتگو زیادہ تر صیغۂ راز ہی میں رہتی ہے۔ اس لیے قیاس آرائیوں کا بازار گرم رہتا ہے۔ اس حملے کے بارے میں گردش کرنے والی ایک خبر یہ بھی ہے کہ امریکہ نے وقت سے پہلے قطر کو خبر دار کر دیا تھا کہ حملہ ہونیوالا ہے اس لیے احتیاط لازم ہے۔ یہ غیر مصدقہ خبر اس لیے بھی اہم ہے کہ ایک تو صدر امریکہ نے اس حملے پر برہمی کا اظہار کیا ہے اور دوسرا یہ کہ وائٹ ہائوس کی ترجمان
Karoline Levittنے بعد از خرابیٔ بسیار یہ اعتراف کیا ہے کہ امریکہ کو اس حملے سے صرف پچاس منٹ پہلے اسکی اطلاع ملی تھی۔ لگتا ہے کہ ان پچاس منٹوں میں امریکہ قطر کی جتنی مددکر سکتا تھا وہ اس نے کر دی۔ اور وہ مدد یہی تھی کہ حماس کے چوٹی کے رہنمائوں کو بچا لیا گیا۔مگر امریکہ کو اس اِتمام ِحجت کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ظاہر ہے صدر امریکہ مئی کے مہینے جب خلیجی ممالک کے دورے پر گئے تھے تو ان پر ڈالروں کی ایسی برکھا برسائی گئی کہ ایک دنیا انگشت بدنداں رہ گئی تھی۔اس موقع پر سعودی عرب نے امریکہ کیساتھ چھ سو ارب ڈالرز کے دفاعی معاہدے کئے۔ قطر نے صدر ٹرمپ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے 243ارب ڈالرز کے تجارتی اور 38ارب ڈالرز کے دفاعی معاہدے کئے ۔ اسکے علاوہ قطر کی جس فیاضی کا تذکرہ تا دیر امریکی میڈیا میں ہوتا رہا وہ یہ تھی کہ شیخ محمد بن عبدلرحمان الثانی نے صدر ٹرمپ کو 400 ملین ڈالرز کا ایک 747جیٹ لائنر تحفے میں دیا تھا۔
صدر ٹرمپ کے اس کامیاب دورے کے بعد خلیجی ممالک نے سکھ کا سانس لیا تھا کہ انہوں نے امریکی صدر سے دوستانہ ہی نہیں بلکہ برادرانہ تعلقات بھی استوار کر لیے ہیں۔ خلیجی ممالک اور امریکہ کے تعلقات صدر ٹرمپ کے اس دورے سے پہلے بھی نہایت قریبی اور گہرے تھے۔مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی سب سے بڑی Military Base قطر ہی میں واقع ہے۔اسکے علاوہ ایران دشمنی میں عرب ممالک امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے جس حد تک جا سکتے تھے گئے۔ ان حالات میںتمام عرب سربراہ سکھ اور چین کی زندگی گذار رہے تھے کہ امریکہ انکے ہر دشمن کے سامنے ڈھال بن جا ئے گااور پھرچشم فلک نے یہ تماشہ بھی دیکھا کہ اسرائیل نے دن دھاڑے امریکہ کے ایک عرب اتحادی پر میزائل برسا کر بہ آواز بلند یہ اعلان کر دیا کہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا صرف ایک اتحادی ہے اور اسکا نام اسرائیل ہے۔ باقی ممالک اپنی تسلی کے لیے امریکی چھتری استعمال کر سکتے ہیں مگر یہ صرف بارش ہی میں کام آ سکتی ہے ۔ اب اس حملے کے بعد خلیجی حکمران امریکہ سے دوستی کے بارے میں یہی کہہ سکتے ہیںکہ
بوئے گل‘ نالۂ دل ‘ دودِ چراغ ِمحفل۔۔۔۔۔جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا!
اس پریشانی اور اضطراب کے عالم میں قطر کے امیر شیخ عبدلرحمان الثانی تیرہ ستمبر کو صدر ٹرمپ سے ملاقات کرنے امریکہ آئے۔ یہاں انکی اتنی پذیرائی ہوئی جو کم ہی کسی سربراہ مملکت کی ہوتی ہے۔ پہلے تو وائٹ ہائوس میں نائب صدر جے ڈی وینس اور سیکرٹری آف سٹیٹ مارکو روبیو نے ان سے طویل ملاقات کی اسکے بعد صدر ٹرمپ نے انہیں نیویارک میں اپنی مشہور زمانہ رہائش گاہ اور کاروباری دفاتر کی بلند و بالا عمارت ٹرمپ ٹاورز میں دوسرے زعما کے ہمراہ ایک پر تکلف ظہرانہ دیا۔ یہ سب کچھ اتنا زیادہ تھا کہ اسکے بعد قطر کے سربراہ نے اپنے ملک اور امریکہ کی پرانی اور پائیدار دوستی کے بارے میں طویل بیانات دیئے اور یہ بھی کہہ دیا کہ وہ امن کے قیام کے لیے اپنی ثالثی جاری رکھیں گے۔ اسکے بعد دوحہ میں مسلم ممالک کے سربراہوں کے ایک نحیف و نزار اجلاس کی کیا ضرورت رہ گئی تھی۔ اس سمٹ کے جو نتائج ہیں وہ ہمارے سامنے ہیں اب اسکے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے،
گر مصیبت تھی تو غربت میں اٹھا لیتے اسدؔ۔۔۔۔۔۔میری دہلی ہی میں ہونی تھی یہ خواری ہائے ہائے!!