ہفتہ وار کالمز

مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا!

دریائے چناب کے کنارے بستی منگلے خاں،موضع حیات ماچھی سیلاب کی اچانک یلغار سے مکمل طور پر پانی میں ڈوب گئی ۔ بستی کے مکینوں کو سنبھلنے اور کچھ بچانے اٹھانے کا موقع بھی نہیں ملا،بس اپنی اپنی جان بچا کر بھاگنا پڑا۔ بستی کے ہر طرح کے سامان سے بھرے گھر ابھی تک پانی میں ڈوبے پڑے ہیں۔جبکہ بستی منگلے خان کے مکین ترنڈہ کے مقام پر واقع ایک کالج کی عمارت میں مقیم ہیں۔یہ رحیم یار خان کے کسی ایک گاوں کا معاملہ نہیں، پورے جنوبی پنجاب کے گاؤں کے گاؤں اور زمینیں اسی طرح سے اچانک زیر آب آئیں۔ مظفر گڑھ کی تحصیل علی پور، رحیم یار خان کی تحصیل لیاقت پور اور ملتان کی تحصیل جلالپور پیر والا تند و تیز سیلاب کی زد میں آئیں، سیکڑوں سے متجاوز گاؤں ، کھڑی فصلیں، مال مویشی سب منہ زور سیلاب کی ستم گری کا شکار رہے ۔اچ شریف شہر کو بچانے کے لیے بھی ایک بند توڑ کر شہر کے عوض سیکڑوں دیہات کو بپھرے پانی کے حوالے کرنا پڑا۔ یہ ساری آبی غارت گری پنجاب کے دو خوابیدہ دریاؤں یعنی ستلج اور راوی ،جبکہ ایک بیدار دریا چناب کی وجہ سے ہوئی ۔ اور جنوبی پنجاب ہی کیا، سیالکوٹ ، اور گجرات میں ہونے والی آبی غارت گری کسے یاد نہیں۔انسانوں اور جانوروں کے لیے سب کچھ چھوڑ کر صرف اپنی جان بچانے کا راستہ باقی بچا تھا، سو جس حد تک ممکن تھا ، یہ راستہ اختیار کیا گیا۔دیہات کے لوگوں نے جلدی میں اپنے جانوروں کی رسیاں یا زنجیریں کھول دیں تاکہ وہ اپنے طور اپنی بقا کا سامان کر سکیں۔زندہ بچ رہنے والے لوگ اب بڑی سڑکوں کے کناروں اور پانی کی آفت سے بچ رہنے والے تعلیمی اداروں میں پناہ گزین ہیں۔یہ ہیں ایک ریاست کے یتیم لوگ ، یتیم ذرا سخت لفظ ہے لیکن جو ریاست نہ ماں جیسی ہو اور نہ باپ کی ذمہ داریاں پوری کرنے والی، تو اس کے شہری بے چارے مصیبت کے مارے کریں تو کیا کریں.میں نے ایک کالج کی عمارت میں پناہ گزین سے خیر خیریت دریافت کی، علم ہوا کہ؛ اشک صرف آنکھوں سے ہی نہیں ، تحریر میں بھی بہہ نکلتے ہیں ، جو جواب ملا اسے اب میں پانی میں ڈوبے جنوبی پنجاب کی آواز خیال کرتا ہوں ۔مجھے جواب ملا کہ؛ "ووٹ دینے والے مر گئے، ووٹ لینے والے بچ گئے” جنوبی پنجاب کے تمام تر منتخب نمائندے ، نسل بعد نسل بننے والے وزراء و مشیر ،موروثی سیاست دان ، پیر، مخدوم ، علماء و مشائخ غرض تمام تر مفت خور جرائم پیشہ گروہ اس وقت منظر سے غائب ہیں۔وہ ان بڑے شہروں کے محلات میں آرام فرما رہے ہیں ، جنہیں بچانے کے لیے جگہ جگہ دریاؤں کے بند توڑ دیئے گئے تھے، اور بغیر کسی ندامت کے گاوں کے گاؤں پانی میں ڈبو دیئے گئے۔جنوبی پنجاب کی سیاست کا کاروبار اور محرومیوں کا بیوپار کرنے والے یہ سیاست دان نما درندے کسی بھی قسم کے احساس جرم ، ندامت یا خجالت کے بغیر وقت آنے پر دوبارہ پانی کے ستم سے بچ رہنے والے عوام سے ووٹ مانگتے ہوئے ذرا بھی شرمندگی محسوس نہیں کریں گے ۔دراصل یہ پاکستان ہے ، یہ جنوبی پنجاب کے دیہی علاقے ہیں ،اگر یہاں انسان دوست حکومت ہوتی ،یا ایماندار اور چوکس انتظامیہ ہوتی، یا نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اپنے چیئرمین اور جملہ اہلکاروں سمیت بقید حیات ہوتی، تو سیلاب کی آفت میں پھنسے پاکستانیوں کو یوں بے بس اور بلیک میل نہ ہونا پڑتا ۔شہرت کی دیوانی وزیر اعلی اگر باتصویر پوسٹر بازی کی لت میں مبتلا نہ ہوتی تو حکومت کے پاس لاہور سے باہر کے دیہی علاقوں کے مجبور لوگوں کی مدد کرنے کے لیے رقم دستیاب ہوتی ۔لیکن افسوس سیلاب میں پھنسے بے بس لوگ کشتی بانوں کے ظلم کے سامنے بے بس و لاچار ہیں ۔ افسوس کی بات تو یہ بھی ہے کہ دریاوں میں کشتیاں چلانے والے کشتی بان، جو سارا سال پانی سے کھیلتے ہیں، اور اب پانی کے آنکھیں پھیرتے ہی ظالم اور جفا جو منافع خور بن کر سامنے آئے ہیں۔(اچکے کہیں کے) چونکہ ان پر کوئی حکومت اور کوئی انتظامیہ نگران نہیں ہے ،اور چونکہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی بھی شاید سیلاب کے پانی میں ڈوب کر ہلاک یا بلاک ہو چکی ہے ،اس لیے پانی میں پھنسے بے بس لوگوں سے ہزاروں روپوں کے معاوضے کا مطالبہ کرنے والوں کو کسی کا خوف نہیں ہے ،یہاں تک کے خدا کا خوف بھی نہیں ، وجہ صاف ظاہر ہے ،یہ لوگ جانتے ہیں اور ان کو یہی سکھایا اور باور کرایا گیا ہے کہ ؛ وہ کسی شرپسند اور فرقہ باز مولوی کو چندہ دے کر یا کسی مزار پر رکھے آہنی صندوق کے تنگ سوراخ میں کچھ روپے ڈال کر خدا کو راضی اور اپنے حساب کو سیدھا کر سکتے ہیں۔ایسی قدرتی آفات اور بحران سیاسی اور سماجی قیادت کا امتحان ہوا کرتے ہیں۔لیکن ایسا تب ہوتا ہے جب حکومت کرنے کے اختیار کا تعلق عوام کے ووٹ یعنی اجتماعی عوامی رضا مندی سے مشروط ہو، پاکستان میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص حق حکمرانی ووٹ یعنی عوام کی اجتماعی رضا مندی کی بجائے ایک ادارے کے اشارہ ابرو کا مرہون منت ہوا کرتا ہے ۔تو پھر یہی وجہ ہے کہ پنجاب پر حکومت کرنے والی فرمائشی اور نمائشی وزیر اعلی سیلاب کی ابتلاء کو بھی اپنی ٹک ٹاک کا عنوان اور سامان بنانے سے آگے سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ایک خودپرست اور تشہیر پسند عورت کے بطور وزیر اعلیٰ تماشوں نے مقامی انتظامیہ کو بھی مفلوج کر رکھا ہے۔جنوبی پنجاب پانی میں ڈوبا پڑا ہے ۔ کسی کنٹرول روم میں بیٹھ کر پورے صوبے کی انتظامی مشنری کی رہنمائی اور نگرانی کرنے کی بجائے یہ جاہ پرست عورت اپنی سوشل میڈیا برگیڈ کے ساتھ ریڈ کارپٹ دورے لگا رہی ہے ۔ لاہور کے پرنٹنگ پریس دن رات میڈم کی پکچرز والے لفافے، تھیلے اور پینا فلیکس چھاپ رہے ہیں ۔اگر کوئی کام نہیں ہو رہا تو وہ آفت زدہ لوگوں کی موقع پر مدد ہے۔ ہمارے بے حمیت لیڈروں کو جب سے اس بات کا ادراک ہوا ہے کہ انہیں اقتدار میں آنے کے لیے عوام کے ووٹ کی بجائے کسی ادارے کی حمایت کی ضرورت ہوتی ہے ،انہوں نے سیلاب کی تباہ کاریوں سے آنکھیں چرانے کے لیے کثرت سے غیر ملکی دورے شروع کر رکھے ہیں۔یہ مشکل وقت بھی گزر ہی جائے گا ۔لیکن پنجاب کے غیور اور محنت کش لوگوں کے ساتھ ان "غلام” حکمرانوں نے جو سلوک روا رکھا ہے ،جس طرح سے پریشان حال عوام کو نظرانداز کیا ہے ۔میری آرزو ہے کہ لوگ اب اس مہنگے سبق کو یاد رکھیں اور خود کو اس مزاحمت کے لیے تیار کریں ،جس کے بغیر حکومت راہ راست پر نہیں آ سکتی۔جب تک یہ جدوجہد نتیجہ خیز نہیں ہوتی ، اس وقت تک حضرت میر تقی میر کی صدا کو غور و فکر کا عنوان بنائیں اور صورت حال کی المناکی کو سمجھنے کی کوشش کریں ؛
؎کن نیندوں اب تُوسوتی ہے ،اے چشم ِگریہ ناک
مژگاں تو کھول ،شہر کو سیلاب لے گیا!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button