شور برپا ہے خانۂ دل میں

بے ہنگم اور شعور سے بیزار معاشرے میں خاموشی اور سکون کی فضاء کے قیام کے لئے اکثر شور مچا کرشور کو ختم کرتے ہوئے سکون کا ماحول قائم کیا جاتا ہے شور گو کہ زندگی کی روانی کا تاثر لئے ہوئے ہوتا ہے مگر حد سے بڑھتی ہوئی چیخ و پکار سماعتوں پر تیربرساتے گزرتی ہے موسم نے اس بار آنکھیں بھی بڑی بے مروتی سے بدلی ہیں کہ زمین پر بسے بندگان ِ خدا نے ماضی میں ایسے بارشیں اور بارشوں کی وجہ سے پانچ دریائوں کا انسانی آبادی کی جانب اُمڈ آنے سے ملکی نظام بھی جل تھل ہو کے رہ گیا سیلاب کی یہ موجودہ طاقت پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی احتیاطی تدابیر اپنانے کے باوجود بھی اجتماعی طور پر لوگوں کے مال مویشی ،مکانات ،گاڑیاں سیلاب کے پانی کی نذر ہوئیں اور ابھی تک پنجاب کے بڑے بڑے شہروں کی شاہراہیں ،گلی محلے تک دریا کے مناظر پیش کر رہے ہیں سیلابی آفات کا شور اس قدر ہے کہ کوئی ذی شعور حکومتی اداروں سے یہ نہیں پوچھتا کہ کئی سالوں سے یہ سیلاب زیادہ تر پنجاب میں تباہیاں مچاتا آ رہا ہے کسی بھی حکومت نے یا موجودہ حکومت نے سیلابی آفات سے بچنے کے اقدامات کیوں نہیں کئے صرف بھارت پر زیادہ پانی چھوڑنے کا الزام لگا شور مچار کر اپنی جانب سے کی گئیں کوہتائیوں پر بسا اوقات پردہ ڈالنے کی کوشش لگتی ہے بھارت نے تو ہر دفعہ پاکستان کو اذیت دینے کے لئے آبی جارحیت کے مظاہرے کئے مگر ہم نے کیوں نہیں اس دشمن ملک کی مذموم جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے آپ کو محفوظ کر سکے اب شور کرنا اور ایمر جنسی کا نفاذ کر کے اپنی نظراندازیوں کو چھپایا نہیں جا سکتا بھارتی جارحیت کاجواب اگر اُس کے 6طیارے گرا کر دیا جا سکتا ہے تو ان آبی حملوں کا جواب بھی دیا جا سکتا ہے سوال یہ اُٹھتا ہے کہ فوج کے علاوہ وطن ِ عزیز کا کوئی ادارہ بھی دشمن ملک کی کاروائیوں کا جواب دینے کی انتظامی صلاحیت نہیں رکھتا سیلاب سے زمینی رابطے منقطع ہونے کی صورت میں پاک فوج کے جوان ہی لوگوں کو مدد دیتے ہوئے انھیں محفوظ مقامات پر پہنچا رہے ہیں ایک کہاوت ہے کہ دریا ایک سانپ ہے اور پتھر اُس کے انڈے ،اور دریا 100سال بعد بھی اپنے انڈوں کو سینکنے آ سکتا ہے ۔یہ ہماری کوہتایاں ہیں کہ ہم آبی گزر گاہوں پر قبضہ جماتے ہوئے دریا کے راستے میں بیٹھ جاتے ہیں دریا ہماری حدود میں داخل نہیں ہوتے بلکہ ہم دریا کی گزرگاہ میں داخل ہو جاتے ہیں اور ہمیں اس کا ادراک اُس وقت ہوتا ہے جب دریا واپس اپنی ملکیت جتلانے ہمارے سروں پر پہنچ جاتا ہے آبی گزر گاہوں پر موجود آبادی کو ہٹانے کی کاروائیاں ایک لازمی امر ہے تا کہ دشمنوں کی اذیت میں مبتلا کرنے والی حسرت دل میں ہی رہ جائے سوئے ضمیر کو جگانے کی کاوشیں شور برپاکر کے اہل دل ،حساس ذہنیت کے انسان کرتے رہتے ہیں مگر ہم نظراندازی کے مرض میں مبتلاء لوگ وقتی طور پر دکھاوے کے لئے اس کا اثر لیتے ہیں جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہم جمعے کے دن نماز کی تیاری ایسے کرتے ہیں کہ جیسے ہم سے بڑا کوئی صوم صلواۃ کا پابند ہے ہی نہیں مگر نماز جمعہ کی تکمیل کے بعد عصر کے وقت نمازیوں کی گنی چنی تعداد دیکھ ہمیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ ہم روایتی نماز والے نمازی ہیں پانچ وقت کے نمازی انتہائی محدود ہیں اللہ کی ناراضگی کے کام کرنے کے باوجود اللہ کی مہربانیوں سے جھولیاں بھرنے والے کب اللہ کی بیشمار نعمتوں کی عطا پر اُس کے سامنے سجدہ ریز ہوں گے اس بارے میں پیشنگوئی مجھ محدود علم والے کو نہیں کہ اللہ پاک کی محبتوں کا شور ہم مسلمانوں کے خانۂ دل میں برپا ہو گا اور ہم کب اپنے کشمیر و غزہ کے نہتے مسلمانوں کے ساتھ عملی یکجہتی کا مظاہرہ کریں گے سیلاب کے یہ ریلے اپنا راستہ بناتے ہوئے گزر جائیں گے مگر ہم جس حسد و بغض ،لسانی تعصب ،صوبائی نا اتفاقیوں کے سیلاب میں ڈوبے ایک دوسرے کے سر پر سوار ہونے کی کوشش میں ہیں یہ تخریبی عمل کسی کو بھی باہر نکلنے نہیں دے گا اوراسی دھینگا مشتی کا شور برپا ہے خانۂ دل میں جسے محسوس کرنے کی اور کنارے لگنے کی سعی کی اشد ضرورت ہے ۔