ہفتہ وار کالمز

ان بارشوں سے دوستی اچھی نہیں فراز!

باران ِرحمت جب اپنی رحمتوں کا دامن سمیٹ لے تو یہ عذاب ِ زحمت بن کر کسی بھی بستی پر اپنا نزول کر دیتی ہے جس کے عذاب سے اللہ بچائے تو بچائے مگر کوئی دوسرا یہ طاقت نہیں رکھتا کہ اللہ کی مرضی کے بغیر اسے روک سکے بونیر وملک کے دیگر اضلاع میں حالیہ بارشوں سے جو ناگہانی آفت بارش کی صورت میں نازل ہوئی اس میں لوگوں کی اموات ،بچوں کی اموات پر رونا افسوس کرنا ایک فطری عمل ہے لیکن زیادہ تر آفت زدہ مقامی رہائشیوں کے دل میں استغفار کے ورد جاری ہو گئے جب انھوں نے باران ِ رحمت کو یکا یک عذاب ِ زحمت میں بدلتے دیکھا ان المناک واقعات پہ دل رنجیدہ ہر انسان کا ہے صوبائی و وفاقی حکومتیں بھی اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اُن علاقوں میں امدادی سرگرمیاںاُن لوگوں کے لئے جاری رکھے ہوئے جو بپھرتے دریا کے بہائو کی نذر ہو گئے دل کا المناک ہونا فطری عمل سہی لیکن بعض مقامات پر ہونے والے حادثات دیکھ کر آنسو اپنی حدوں کو عبور کرتے ہوئے دامن میں سما گئے جب ایک آٹھ سالہ بچی راولپنڈی کے قریب ہاشمی چوک میں ڈوبی رات گئے تک اُس کی تلاش جاری رہی مگر اُس کی لاش نہیں ملی اور سولہ سالہ لڑکے کی لاش نالہ لئی سے مل گئی یہ بات ایمان کی پختگی کے ساتھ طے ہے کہ قدرتی آفات سے بچنا کسی کے لئے بھی ممکن نہیں ہوتا مگر انسان اپنے تئیں اُس سے بچنے کی یا کسی کو بچانے کی سعی کرتا ہے ایسے موسموں کے آنے سے پہلے ہی حفاظتی اقدامات پر عمل شروع کر دیا جاتا ہے نیشنل ڈیزارسٹ کا محکمہ اسی غرض و غایت سے اور محکمہ موسمیات موسموں کی پیشگی اطلاعات کے لئے ہی قائم کیا گیا تا کہ حفاظتی اقدامات حادثات کے رونما ہونے سے پہلے ہی پایہ تکمیل تک پہنچ جائیں اس دور اندیشی کے سبب حکومت ان اداروں سے وابستہ لوگوں کو ماہانہ معاوضہ و مراعات اُس قومی خزانے سے دیتی ہے جو عوامی ٹیکسوں اور غیر ملکی سودی قرضوں سے بھرا ہوتا ہے لیکن حیرت یہ ہے کہ ایسے حادثات کا قدرتی آفات کی صورت رونما ہونے پر ان متذکرہ محکموں نے اپنے کسی لازمی اُمور ہنگامی صورت سے پہلے کارگر نہیں کیا یوں نظر اندازی و لا پرواہی سے چادر اوڑھ کر سوتے رہے رہے انھیں ہوش اُس وقت آیا جب پانی سر سے نہیں پوری بستی سے گزر چکا تھا یہ نیشنل ڈیزارسٹ کا محکمہ جن میں ذہین ترین لوگوں کو بھرتی کر کے قومی خزانے سے ماہانہ مشاہرہ پر رکھا گیا ہے کیا یہ اُن افسران کی ذمہ داری نہیں بنتی تھی کہ وہ اُن مافیاز کو پابند سلاسل کریں جو پہاڑوں سے درختوں کو کاٹ کر ،بڑے بڑے پتھروں کو توڑ کر اُن سے ماربل کے ٹکرے نکال کر رہائشی بنگلوں کی زینت بناتے آ رہے ہیں کئی دہائیوں سے جاری یہ جنگلات سے درختوں کی چوری کسی قانون والے کی نظر میں کیوں نہیں آ رہی ہے پہاڑوں پر رہنے والے رہائشی اس بات کا شکوہ بھی کرتے رہے مگر قہر درویش بجان درویش کے مصداق اُن کی بامقصد باتوں کو سمجھنے کے باوجود اختیارات کے حامل اداروں نے خود کو بہرہ کرلیا اور قانون نے آنکھوں پر پٹی باندھ لی یوں قومی وسائل کی ایک چوری نہیں کئی چوریاں مسلسل جاری ہیں جو دستیاب وسائل سے ملک کو قلاش کر رہی ہیں حکمران ہوں ، عدالتیں ہوں کہ معاشی ماہرین ہوں کوئی بھی ملک کی بہتری کے لئے اپنے فرائض منصبی کو حرکت میں نہیں لاتا اور نہ ہی جرم کرنے والے والوں کو قرار واقعی سزا دے کر عبرت کی مثال قائم کرتا ہے ہر ادارہ فرعونیت کی تلوار لئے صرف اور صرف محکوم عوام ، چھوٹے درجے کے عام ملازمین کے خون سے اپنی پیاس بجھانے کو فتح قرار دیتا ہے مگر بڑے بڑے مافیاز پر کبھی ہاتھ ڈالنے کی سبق آموز جرات سامنے نہیں آئی زندہ مثال تو اس وقت الائیڈ بنک کے پنشنروں کی ہے جو اپنی جائز پنشن کے حصول کے لئے عدالتی دروازوں پر دستک دیتے دیتے بغیر انصاف ملے اس دار ِ فانی سے کوچ کر چکے مگر انصاف کی آنکھوں پر بندھی کالی پٹی کی وجہ سے ان منصفوں کو ظالم اور مظلوم کی پہچان ہی نہیں ہو رہی ۔پاکستان میں یہ عذاب الہی ایسے ہی مظلوموں کی آہوں کی وجہ سے ہے بے شعور لوگ ایسے موقعوں پر امداد دے کر خود کو نیک لوگوں میں شمار کرنے لگتے ہیں جو کج فہمی کی بدترین مثال ہے کیا ان مافیاز کو جو درختوں کو اور پہاڑوں کو کاٹ کر ہر سال لوگوں کو زمینی کیڑے مکوڑوں کی طرح سیلاب کی نذر کرتے ہیں تو انھیں ان بے سہارا لوگوں کی چیخ و پکار کا اساطیری اظہار سمجھ نہیں آتاحکومت اور ان مافیاز کے اس اشتراکی جبر پر میرے ملک کے مقتدر ادارے حرکت میں کیوں نہیں آتے یہ سوال میرے جیسے طفل ِ مکتب کو یہ سمجھ دیتا ہے کہ یہ انداز ِ حکومت سرمائے اور محرومیوں کی اس وسیع جھیل کی مانندہے جس میں امارت نے نہیں کسمپرسی نے ڈوبنا ہے اغلاط کی پیروی گر طرز ِ حکومت رہا تو تو ایسا ہوتا رہے گا انسان کے اندر بیٹھا جانور جب تک انسانیت کے دائرے میں قید نہیں کیا جائے گا اُس وقت تک ہم میں سے کوئی نیک لوگوں کی صفوں میں کھڑا نہیں ہو سکتا اللہ اور رسول اللہﷺ کا بتایا ہوا نظام ِ سلطنت قائم نہیں ہوتا تو دنیا و آخرت کی بہتری ناممکن ہے بہتر ہو گا کہ ہم لوگ اب بارش کی دعائیں نہ مانگیں کیوں ہمارے مکان اسلامی عقائد کے لحاظ سے کچے ہیں اور چھتیں بھی ایمان کی طرح کمزور ہیں احمد فراز مرحوم کو اللہ مغفرت نصیب کرے بامقصد بات شعر کی صورت کہہ گئے ہیں ۔
ان بارشوں سے دوستی اچھی نہیں فراز
کچا تیرا مکان ہے کچھ تو خیال کر !
ملک کا خیال کرنا اسے صیح سمت کی جانب رواں کرنا حکومتوں کا ،اداروں کا کام ہے اللہ انھیں ہدایت دے اور عوام الناس کو شعور کی دولت سے مالا مال کرے تا کہ ملک کے طول و عرض میں پھیلے مافیاز کا خاتمہ یقینی ہو اور ہمارے ارض ِ پاک کو استحکام ملے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button