ہفتہ وار کالمز

کالم سہیل وڑائچ کا

وہ مشرف کا دور تھا امریکہ کا بہت دباؤ تھا پاکستان پر ، امریکی میڈیا کہہ رہا تھا کہ مشرف ڈبل گیم کھیل رہا ہے امریکہ سے پیسے لیتا ہے اور امریکہ کے خلاف کام کرتا ہے، مشرف نے وعدہ کیا کہ وہ امریکہ کے مطالبات پورے کر دے گا اس وقت سہیل وڑائچ امریکہ کے دورے پر آئے ہوئے تھے ، پاکستان پوسٹ کے آفاق فاروقی سے ان کے مراسم تھے وہ پاکستان پوسٹ میں کالم بھی لکھنے لگے تھے، مشرف نے جب امریکہ کو یقین دلایا کہ وہ امریکہ کے مطالبات پورے کر دے گا تو اس وقت سہیل وڑائچ نے کالم لکھا تھا اور مشرف کو مشورہ دیا تھا کہ اب کی دودھ میں مینگنیاں ڈال کر نہ دینا، اسی دوران سہیل وڑائچ سے ہماری بھی مختصر ملاقات ہو ئی تو ہم نے ان سے پوچھا تھا پاکستان امریکہ کے احکامات پر سر تسلیم خم کیوں کرے تو شافی جواب نہ مل سکا وجہ شائد یہ تھی کہ میزبان کا دستر خوان بہت وسیع تھا اور تمام انواع و اقسام کے کھانوں کی خوشبو بے تحاشا اپنی طرف کھینچ رہی تھی ہم سمجھ گئے کہ سہیل وڑائچ کا جھکاؤ امریکہ کی جانب ہے، پھر کچھ عرصہ بعد بے نظیر کا قتل ہو گیا، بڑا سانحہ تھا مگر گتھی سلجھ نہیں رہی تھی تحقیقات اقوام متحدہ نے بھی کرا دی مگر سرا نہ مل سکا بہت سے لوگوں نے اپنی اپنی رائے قائم کر لی، جیکسن ہائیٹس پر منصور بک ڈپو ہوا کرتا تھا وہاں اکثر آنا جانا ہوتا تھا وہیں مجھے سہیل وڑائچ کی کتاب ’قاتل کون ‘نظر آئی وہ کتاب میں نے خرید لی، نو سو صفحے کی فل اسکیپ کتاب پہلی فرصت میں کتاب ختم کی مگر قاتل نہ مجھے مل سکا اورمیںسہیل وڑائچ کو سمجھ گیا کہ سہیل وڑائچ کو وقت سے فائدہ اٹھانا خوب آتاہے، کتاب خوب بکی، قارئین کی دلچسپی کے لئے یہ بات بتانا بھی ضروری ہے کہ جیو نیوز نے ایک پروگرام GOLDEN GIRLS کے نام سے شروع کیا تھا اس پروگرام میں ایک خاتون وکیل کے ساتھ تین اور خواتین بھی شامل تھیں ان کا ریسرچ ورک بہت اچھا ہوتا تھا ، ان خواتین نے سہیل وڑائچ کا انٹرویو کیا سہیل وڑائچ کے معاشقوں، تھیڑ کی ایک رقاصہ کے ساتھ سہیل وڑائچ کا رقص، مالی معاملات کو کھول کر رکھ دیا اور سہیل وڑائچ وہاں سے پانی پانی ہو کر اٹھے، سہیل وڑائچ با رسوخ صحافی ہیں شنید یہی ہے کہ موصوف نے اپنے اثر و رسوخ سے وہ پروگرام بند کرا دیا، میں بلا جھجھک یہ اعتراف کرتا ہوں کہ سہیل وڑائچ میری نظر میں CREDIBLE صحافی نہیں ،بولنا سہیل وڑائچ کو بھی آتا ہے بولنا صدیق جان کو بھی آتا ہے، سہیل وڑائچ کا پاکستان کی سیاسی تاریخ پر عبور حاصل ہے تاہم حامد میر کا خارجی مطالعہ متاثر کن ہے سہیل وڑائچ نے چند دن پہلے فیلڈ مارشل عاصم منیر کا انٹر ویو کیا اور پھر دو طویل کالم تحریر کئے جیو نیوز کے پاس جب تک اعزاز سید عمر چیمہ ، جیسے لوگ موجود ہیں سہیل وڑائچ، شہزاد اقبال اور سلیم صافی کو خام مال فراہم کیا جاتا رہے گا اور صحافت کی دکان چلتی رہے گی، ہوا یوں کہ ایک ماہ قبل اعزاز سید نے سوشل میڈیا پر ایک خبر پھینک دی کہ زرداری کو صدارت سے ہٹایا جا رہا ہے یہ خبر دے کر اعزاز سید غالباً ملک سے باہر چلے گئے ، سات بجے کے بعد جو اینکر دکان سجا کر بیٹھ جاتے ہیں ان کو بات کرنے کا حیلہ مل گیا، سوال تو یہی تھا کہ زرداری کو کون ہٹائے گا اور سب کی نظریں عاصم منیر کی طرف اٹھ گئیں پھر گرد جمنے لگی تب شوشہ چھوڑا گیا کہ محسن نقوی کو وزیر اعظم بنا دیا جائیگا اس کا مطلب یہ تھا کہ مسلم لیگ میں کھلبلی مچ جائے پہلا وار پی پی پی پر دوسرا وار مسلم لیگ پر، یہ کام کمال مہارت سے ہوا، دس پندرہ بڑے چینلز کے کسی اینکر نے سوال نہیں کیا کہ خبر کے ذرائع کیا ہیں سب ایک ہی قبیلے کے ، اب کہ گنگا الٹی بہائی گئی پہلے یہ ہوتا تھا کہ حکومت کسی پالیسی کو لانے سے پہلے کسی ذریعہ سے خبر لیک کراتی تھی تاکہ پبلک کے موڈ کا اندازہ ہو اسے ہم JOURNALISM کی زبان میں FEELERS کہتے ہیں اب کے یہ FEELERS میڈیا کی طرف سے آئے، جھانکنا تھا دلوں میں ، ڈھائی سال ہو گئے ہیں کہیں ماضی کی طرح فوج کا موڈ تو نہیں بدل رہا ہے کسی میں ہمت تو تھی نہیں کہ کوئی عاصم منیر سے کہتا کہ جو میٹنگ ٹرمپ سے ہوئی ہے اس کی بریفنگ دیں، پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیں فیلڈ مارشل کو دوبارہ CHANGE OF COMMAND کی تقریب میں بلایا گیا کون پوچھتا فیلڈ مارشل سے حضور کچھ تو بتائیے کیا بات چیت ہوئی مگر چھٹ بھیوں نے اندر کی خبر نکالنے کے لئے یکے بعد دیگرے دو خبروں کا سہارا لیا گیا سہیل وڑائچ ESTABLISHMENT کے آدمی ہیں حکومت کے بھی قریب ہیں اور اپوزیشن روز دعائیں مانگتی ہے کہ سہیل وڑائچ کوئی پھلجھڑی چھوڑ دیں اور سہیل وڑائچ نے پھلجھڑی چھوڑ دی اور ایک کالم میں عقاب چیتے اور لومڑی کی کہانی سنائی علامتی کہانی تھی اس کا مطلب نکالا جا سکتا تھا، سیدھی بات ہے کہ زرداری کو نکالا جاتا ہے تو زرداری مظلوم نہیں بن سکتے شہباز کو گھر بھیجا جاتا ہے تو شہباز مظلوم بن سکتے ہیں سوشل میڈیا پر ان خبروں پر شور مچا تو سہیل وڑائچ کے مزاج کی مناسبت سے فیلڈ مارشل سے انٹر ویو کا اہتمام کرایا گیا حکومت نے سہولت فراہم کی ہوگی وہ بھی جاننا چاہتے ہونگے کہ فیلڈ مارشل کے ذہن میں کیا ہے ڈی جی آئی ایس پی نے بھی مناسب سمجھا کہ انٹر ویو میں کوئی قباحت نہیں، شور تھم جانا چاہیئے کہ فیلڈ مارشل صدر نہیں بن رہے دو گھنٹے کا انٹرویو، اور اس میں سے محض چند باتیں سامنے آئیں، ایک تو یہ کہ فیلڈ مارشل کا صدر بننے کا کوئی ارادہ نہیں ، دوسرے مصالحت کے لئے صدق دل سے معافی مانگنی ہو گی، سوم یہ کہ چین اور امریکہ سے تعلقات میں توازن ہوگا پاکستان ایک دوست کو دوسرے دوست پر قربان نہیں کر سکتا، فیلڈ مارشل نے کہا دہشت گردوں کے لئے کوئی جگہ نہیں اور انہوں نے افغانستان اور بھارت کو سخت وارننگ جاری کی، اس انٹرویو کی خاص بات یہ ہے کہ اس بار لفظ مصالحت استعمال ہوا ہے ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل شریف چوہدری کے الفاظ کچھ اور تھے، مصالحت کا لفظ بہت نرم ہے، کیا فوج کوئی پیغام دے رہی ہے؟ سہیل وڑائچ پر یو ٹیوبر مطیع اللہ جان نے سخت تنقید کی ہے ان کے مضمون نکی جئی ہاں کو ایک لاکھ ساٹھ ہزار افراد نے پڑھا مطیع اللہ جان، بشیر ثاقب،اسد طور، عمران ریاض، حبیب اکرم صابر شاکر، عارف حمید بھٹی، صدیق جان سوشل میڈیا پر عمران کی محبت میں نہیں بیٹھے یہ سب ڈالرز کمانے میڈیا پر بیٹھے ہیں عمران اور عدلیہ سے ہٹ کر کوئی بھی موضوع ان کو روٹی نہیں دے سکتا ، سہیل وڑائچ سینئر صحافی ہیں ، مگر اتنا تو سمجھ سکتے ہیں کہ جس شخص کے اشارے پر صدر اور وزیر اعظم کو رنش بجا لائیں وہ صدر بن کر تنقید کیوں سہے گا ، سہیل وڑائچ نے روزنامہ جنگ کے پورے صفحے پر BAJWA DOCTRINE کے حوالے سے بات کی، اس کی ضرورت کیوں پیش آئی سہیل وڑائچ یہ سمجھانا چاہ رہے ہیں کہ BAJWA DOCTRINE ناکام ہوا اور موجودہ سیٹ اپ جو ایک ARRANGEMENT کے تحت آیا ہے وہ بہتر ہے بظاہر ایسا ہی ہے ایک اور کالم میں بھی سہیل وڑائچ نے عمران سے کہا ہے کہ وہ معافی مانگ لیں تاکہ نظام چلتا رہے، حالانکہ سہیل وڑائچ جانتے ہیں کہ فیلڈ مارشل نے امریکہ کے دو کامیاب دورے کئے ہیں وہ چین بھی گئے جنگ میں کامیابی کے بعد فیلڈ مارشل کو عوام میں بھی پذیرائی ملی ہے ان کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا بھی۔ سیاسی طور پر عمران بہت کمزور ہوئے ہیں سچ یہی ہے کہ اس وقت عمران کو میڈیا نے زندہ رکھا ہوا ہے، میرا خیال ہے کہ انٹر ویو سے فیلڈ مارشل کو فائدہ نہیں ہوا، عمران کو نقصان نہیں ہوا، نو مئی کے فیصلوں میں اتنی دیر ہو گئی کہ اب ان فیصلوں کی اہمیت کم ہو گئی ہے اور عمران IRRELEVENT نہیں ہو ر رہے اور مجھے نہیں معلوم ایک PERCEPTION یہی ہے کہ ESTABLISHMENT تھوڑا سا بیک فٹ پر جا چکی ہے، یہ کوئی بری بات نہیں ایسا لگتا ہے کہ سہیل وڑائچ نے انٹر ویو ایک انتظام کے تحت کیا اور مضامین بھی ایک خاص نیت سے لکھے یہ منصوبہ بندی لگتی ہے انٹر ویو چونکہ دو گھنٹے کا تھا تو لگتا ہے کہ انٹر ویو کے کچھ اور حصے آنے باقی ہیں ابھی سہیل وڑائچ کی زنبیل میں کچھ اور بھی ہے کہانی ابھی جاری ہے پی ٹی آئی نےپاکستان کی معیشت کو روک کر رکھا ہوا ہے جو ملک کے لئے نقصان دہ ہے میں سہیل وڑائچ کو اتنا CONCESSION ضرور دونگا کہ انہوں نے اپنی REPUTATION داؤ پر لگا کر اگر ایک عام شہری کی طرح چیزوں کو سدھارنے کی کوشش کی ہے تو اس کو تحسین کی نظر سے دیکھا جانا چاہیئے ، ملک سے زیادہ کوئی مقدم نہیں نہ عمران، نہ فیلڈ مارشل، نہ شہباز ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button