ہفتہ وار کالمز

اندھا بانٹے ریوڑی۔۔۔!

وہ عسکری طالع آزما جنہوں نے بابائے قوم، قائدِ اعظم کے فرمان کی سب سے پہلے نافرمانی کی اور قائد کے پاکستان کو دو لخت کیا، یوں لگتا ہے کہ اب بابائے قوم کا قوم کی یاد داشت سے نام بھی مٹادینا چاہتے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ قوم اپنے محسنِ اعظم کویکسر فراموش کردے اور یہ بھول جائے کہ بانیء پاکستان نے برِ صغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ مملکت کا حصول کرکے ان پر کیا احسانِ عظیم کیا ہے ! اس یومِ آزادی، یعنی 14 اگست، پر وہی سب کچھ ہوا جو برسہا برس سے، جب سے عسکری طالع آزما پاکستان کے قالب پر مسلط ہوئے ہیں اور ملت کے بدن سے یوں چپکے ہیں جیسے خون چوسنے والی جونکیں ہوتی ہیں، اس وقت سے یومِ آزادی فوجی پریڈ کے ساتھ یوں منایا جاتا ہے جیسے فوج نے ہی پاکستان کو دنیا کے نقشہ پر ایک آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت دلوائی ہو جبکہ اس بد نصیب قوم کی تاریخ یہ حقیقت بیان کرتی ہے کہ ان عسکری طالع آزماؤں نے نہ صرف ملک کو دو ٹکڑے کیا بلکہ یہی وہ جمہوریت کش جرنیل ہیں جنہوں نے آج تک جمہوریت کے پودے کو ملک کی زمین میں جڑ پکڑنے نہیں دیا اور جمہوریت کو اپنی فرعونیت اور یزیدیت سے کمزور کیا ہے!
لیکن اس بار اس عسکری ٹولہ نے جو خود ساختہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی قیادت میں ملک پر ایسا مسلط ہے کہ پاکستان کو مکمل طور پہ اس نے ایک پولیس اسٹیٹ، ایک استبدادی فسطائیت کے قالب میں ڈھال دیا ہے، وہ کام کیا جو آج سے پہلے کسی طالع آزما نے کرنے کی جسارت نہیں کی تھی۔ اس سال ہمیشہ کی طرح یومِ آزادی پر وزارتِ اطلاعات کی جانب سے جوسرکاری اشتہاریومِ آزادی پر جاری کیا جاتا ہے، اور جس پر ٹیکس دینے والے پاکستانیوں کی ایک خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے، اس میں قائدِ اعظم کی تصویر کا کہیں دور دور پتہ نہیں تھا۔ نہ بابائے قوم کی تصویر تھی نہ حکیم الامت علامہ اقبال کی۔ ان کی جگہ فیلڈ مارشل کے علاوہ تینوں دفاعی افواج کے سربرہان سرِ ورق براجمان تھے، یوں جیسے پاکستان اپنے وجود کیلئے، اپنی پیدائش کیلئے ان ملت فروشوں کا مرہونِ منت ہو!
ان کے علاوہ کٹھ پتلی صدر اور چوروں کا جو ٹولہ سویلین حکومت کے روپ میں قوم پر مسلط کردیا گیا ہے ان کی بھی تصاویر اشتہار میں نمایاں تھیں لیکن اپنے نہ ہونے سے جو نمایاں تھے وہ بابائے قوم اور حکیم الامت تھے۔ وہ دو زعماء جن کے احسانات کا بدلہ یہ قوم اس طرح چکارہی ہے کہ جو طالع آزما چاہتا ہے اپنی مرضی قوم پر مسلط کردیتا ہے اور قوم ایسی غافل ہے کہ لگتا ہے جیسے اسے سانپ سونگھ گیا ہو یا اس پر کسی فرعونی ساحر نے ایسا جادو پھونک دیا ہو کہ اس کی آنکھیں کھل کے نہیں دے رہیں۔ یہ وہ غفلت ہے کہ لگتا ہے اگر صور بھی پھونکا جائے گا تو یہ جاگ کے نہیں دے گی! اصل مسئلہ یہ ہے کہ مشرقی پاکستان کو جبری طور پہ پاکستان سے الگ ہونے کے بعد سے ہر طالع آزما نے چاروں صوبوں کے عوام کو ایک قوم نہیں ہونے دیا۔ یہ وہ عسکری طالع آزماء ہیں جن کا تمام تر رویہ پاکستانی قوم کے ساتھ وہ ہے جو برصغیر پر قابض ہونے والی ایسٹ انڈیا کمپنی کا تھا۔ ان کی کامیابی کا راز اس پالیسی میں تھا کہ بانٹو ، تقسیم کرو اور حکومت کرو۔انہوں نے ہندوستان میں آباد متنوع اقوام کو مختلف حیلے بہانوں اور عیاری کے ساتھ خانوں میں بانٹا، اختلاف کو ہوا دی اور اپنے وفادار دیسیوں، یعنی ہندوستانیوں کے کندھے پر بندوق رکھ کر برصغیر پر حکومت کی۔ فرنگی راج جاتے جاتے جو روایات اور رویے چھوڑ کر گیا تھا اس کی ہر طرح سے پاسداری ہمارے جرنیلوں نے کی۔ نہ صرف پاسداری کی بلکہ ان رویوں اور تقسیم کی پالیسی کو اپنے سرپرستوں کی میراث سمجھ کر پوری طرح سے اپنایا اور اسی بنیاد پر وہ ستر برس سے قوم کے سینوں پر مونگ دلتے آئے ہیں۔
فرنگی راج کے ہاتھ مضبوط کرنے والے وہ تھے جو آج پاکستان کی نام نہاد اشرافیہ کے آبا و اجداد تھے۔ تو فرنگی پالیسیوں کو اپنی بائبل سمجھ کے اس کی تعلیمات پر عمل کرنے والے طالع آزماؤں نے بھی اس نام نہاد اشرافیہ کے ملت فروشوں کو اپنا آلہء کار بنانے میں کسی تساہل سے کام نہیں لیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج زرداری جیسے ڈکیت اور نام کے شریف خاندان کے چور اپنے عسکری سرپرستوں کے دست و بازو بنے ہوئے ہیں، جن کے بل بوتے پر یزیدی عسکری ٹولہ پاکستان پر پنجے گاڑے ہوئے ہے اور اپنی من مانی کر رہا ہے! میں اکثر یہ سوچتا ہوں کہ کل کا مورخ جب پاکستان کی دردناک تاریخ پر اپنا حرفِ آخر لکھے گا تو وہ یقیناً یہ ضرور کہے گا پاکستانی قوم کی بدنصیبی کو صرف اس حقیقت سے یوں بیان کیا جاسکتا ہے، جیسے کوزہ میں سمندر سمیٹ لیا جائے، کہ زرداری جیسی بین الاقوامی رسوائی کی ساکھ کا ایک ڈکیت پاکستان کا دو
بار صدرِ مملکت رہا۔ کسی قوم کے اخلاقی زوال اور گراوٹ کی اس سے بد تر اور کیا مثال ہوسکتی ہے ! اور زرداری نے بطور صدرِ مملکت اس یومِ آزادی پر قوم کے رستے ہوئے زخموں پر اور مرچیں اس طور سے چھڑکیں کہ یومِ آزادی پر دئیے جانے والے اعزازات کو بے توقیر کردیا! اس یومِ آزادی پر اعزازات کے ضمن میں زرداری نے جو بندر بانٹ کی ہے اس کی پاکستان کی سیاہ تاریخ میں بھی اس سے پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی !
نشانِ امتیاز، نشانِ پاکستان کے بعد دوسرا بڑا اعزاز پانے والوں میں سرِ فہرست جو نام ہے وہ صدر زرداری کے سپوت بلاول بھٹو کا ہے! کوئی زرداری سے سوال کرے کہ ان کے بیٹے نے کیا ایسا کارنامہ کیا ہے جو انہیں پاکستان کے دوسرے بڑے اعزاز کا مستحق قرار دیا گیا؟
اس کے جواب میں ڈکیت صرف اپنے دانت باہر نکالے گا اور کہے گا، میری مرضی میں جس کو چاہوں اعزاز و اکرام سے نوازوں اسلئے کہ میں ہی قانون ہوں اور میں ہی اپنے عسکری سرپرستوں کےایما سے اسے نافذ کرنے والا ہوں! اسی طرح کا گھمنڈ و غرور سے لبریز طرزحکومت فرانس کے شہنشاہ لوئی چہاردہم کی تھی تھا، انقلابِ فرانس سے پہلے، جب ان سے پوچھا گیا تھا کہ ریاست کیا ہے؟ اور شہنشاہ معظم کا تمکنت سے لبریز جواب تھا:میں ہی ریاست ہوں!
اسی طرح کا پُرغرور لہجہ طالع آزما ، خود ساختہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کا تھا جب انہوں نے ٹیمپا،فلوریڈا میں محب وطن پاکستانیوں سے اپنے خطاب میں انہیں یقین دلایا کہ وہ کہیں جانے والے نہیں ہیں بلکہ انہوں نے اپنی دانست میںفول پروف انتظام کرلیا ہے کہ وہ اگلے کم از کم دس سال تک پاکستانی قوم کے سینے پر سوار رہیںگے! مزے کی بات یہ ہے کہ ان محب وطن پاکستانیوں پر، جنہیں بہت چھان پٹک کے شہنشاہِ پاکستان کے خطاب کیلئے چنا گیا تھا، یہاں تک پابندی تھی کہ کسی کو سیل فون اندر لانے کی اجازت نہیں تھی۔ یزید کی بزدلی کا یہ عالم ہے کہ اسے سیل فون سے بھی ڈر لگتا ہے۔ کسی نے سچ ہی کہا تھا کہ جھوٹ کے پاؤں کہاں ؟! فیلڈ مارشل صاحب، اور ان کے ساتھ ساتھ تینوں مسلح افواج کے سربراہان کو بھی فوج کے دوسرے بڑے اعزاز، یعنی ہلال ِجرأت سے نوازا گیا۔ اور یہ سوچ کر کہ وہ کٹھ پتلیاں جن کی تمام تر ڈوریاں جی ایچ کیو میں بیٹھے ہوئے عسکری جرنیلوں کے ہاتھ میں ہیں کہیں دل چھوٹا نہ کریں بلاول میاں کے نشانِ امتیاز سے اس بھانڈ خواجہ آصف، وزیر دفاع، اور منشی اسحاق ڈار کو بھی محروم نہیں رکھا گیا۔ ان دونوں کو بھی پاکستان کے دوسرے بڑے سرکاری اعزاز سے نوازنے میں ڈکیت زرداری نے کوئی چوں چراں نہیں کی۔ کرتا بھی کیسے، اس کی عصیاں آلود زندگی کی سب سے بڑی آرزو یہی ہے کہ وہ بلاول کو، جس کی شہرت کسی اور حوالے سے ہے، وہ حوالہ جو ہر مرد کیلئے گالی ہوتا ہے، پاکستان کا وزیر اعظم بنتا دیکھ لے !
اور یہ کوئی بعید از قیاس بات بھی نہیں ہے کہ بلاول جیسی ساکھ کا نوجوان پاکستان کا وزیر اعظم ہوجائے۔ جب نواز کی دختر، جس کی ساکھ کوئی بلاول سے مختلف نہیں ہے، ملک کے سب سےبڑے صوبے کی وزیرِ اعلیٰ ہوسکتی ہے، اور وزیرِ اعلیٰ بھی ایسی کہ اس کی بس تاجپوشی ہونے کی کسر ہے کہ اسے ملکہء پاکستان بنا دیا جائے اور مفلوج قوم سے اس کو منوا بھی لیا جائے، تو بلاول کا وزیرِ اعظم ہونا بھی عین ممکن ہوسکتا ہے!وہ جو کہاوت ہے کہ جو پیا من بھائے وہی سہاگن تو پاکستان کی حد تک ہر وہ شخص پاکستان میںکسی بھی منصب کا اہل ہوسکتا ہے جس کے سر پر عسکری طالع آزماؤں کا دستِ شفقت ہو! فرنگی راج کی طاقت یہی تھی کہ اس نے اپنے وفادار کلب سامراج اور ملت فروشوں کی طاقت اس ملک پر حکومت کی جو برطانیہ جیسے چھوٹے سے جزیرہ سے دس گنا بڑا تھا! فرنگی راج کے پاکستانی بغل بچے بھی کبھی پردہ کے پیچھے سے اور کبھی سامنے اسٹیج پہ براجمان ہوکے پاکستانی قوم پر مسلط رہے ہیں اور اب اسے مکمل طور پر اس آہنی شکنجہ میں جکڑ چکے ہیں جس کے بل پر یزید عاصم منیر بڑی رعونت سے یہ کہہ رہا ہے ہے اس کے وفادار ہراساں نہ ہوں وہ کہیں نہیں جارہا اور پاکستان میں کس کی مجال ہے کہ عسکری طاغوت سے قوم کو چھٹکارا دلواسکے!
الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق خود ساختہ فیلڈ مارشل رعونت سے کہہ رہا ہے کہ عمران خان معافی مانگے تو اس کی رہائی کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے!
اللہ اللہ۔ بقولِ اقبال
آگئی خاک کے ذرے کو بھی پرواز ہے کیا!
لیکن فی الحال تو پاکستان کا حال احوال یہ ہے کہ خاک کے ذرے تختِ سلطنت پہ براجمان ہیں اور چاہتے ہیں کہ پاکستان بنانے والے زعماء کے نام بھی قوم کے حافظہ سے مٹادئیے جائیں! وہ جو محسن بھوپالی نے پہلے طالع آزما فیلڈ مارشل (وہ بھی ایسے ہی خود ساختہ فیلڈ مارشل تھا جیسا عاصم منیر) ایوب کے دورِ آمریت میں کہا تھا
منزل انہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے
وہ آج بھی اتنا ہی سچ ہے جتنا ساٹھ سال پہلے تھا۔
تو آج وہی چھٹ بھئیے اور ملت فروش جنہوں نے فرنگی راج کو استحکام بخشا تھا اپنے مقبوضہ پاکستان میں قوم کے سینے پر مونگ دل رہے ہیں اور قوم ایسی بے حس ہے کہ ان کو بے چون و چراں برداشت کر رہی ہے اور انہیں اعزازات سے نواز کر ان اعزازات کی بے توقیری کی مجرم بھی بن رہی ہے! ایسی بے حس قوم کسی ہمدردی کا حق بھی کھودیتی ہے!
اندھا بانٹے ریوڑی اپنے اپنوں کو دے
ڈاکو جب بانٹے تمغے تو وہ چوروں کو دے
اعزازات کی بے توقیری کا نام ہے پاکستان
چھٹ بھئیے کے ہاتھ میں ساغر کم ظرفوں کو دے !

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button