بھوک ‘ روٹی اور آزاد ریاست!

غزہ میں بھوک سے بلکتے لوگوں کو اگر طاقتور مغربی ممالک ملکر ایک وقت کی روٹی مہیا نہیں کر سکتے تو وہ انہیں ایک آزاد اور خود مختار ریاست کیسے دے سکتے ہیں۔ گذشتہ بائیس ماہ کی اس طویل اور ہولناک جنگ میںاقوام متحدہ اور درجنوں فلاحی تنظیمیں ملکر غزہ کے بیس لاکھ جنگ زدہ لوگوں کو خوراک اور امدادی سامان مہیا کرتے رہے۔ اکتوبر 2023 میں اس جنگ کے شروع ہونے سے پہلے ہر روز چھ سو ٹرکوں کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت تھی۔ جنگ کے دوران یہ تعداد تین سو کر دی گئی۔ مارچ سے مئی تک کے تین مہینوں میں اسرائیل نے زمینی اور فضائی حملوں میں اضافہ کرنے کے علاوہ خوراک کی ترسیل پر مکمل پابندی عائد کر دی۔ اسکا جواز یہ دیا گیا کہ باقی ماندہ یرغمالیوں کو رہا کرانے کے لیے حماس پر دبائو بڑھانا ضروری ہے۔ جون کے مہینے اسرائیل نے امدادی سامان تقسیم کر نے کے لیے ایک نیا نظام وضع کیا۔ اس مقصد کے لیے غزہ کی شہری آبادیوں سے دور فوج کی نگرانی میں کیمپ بنائے گئے جہاں فاقہ زدہ فلسطینی دو تین میل کا فاصلہ طے کر کے ایک تھیلہ آٹے کا لینے کے لیے جاتے تھے۔ اسے نیو ایڈ ڈیلیوری سسٹم کا نام دیا گیا۔ اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق گذشتہ دو ماہ میں خوراک کی تقسیم کے ان مقامات پراسرائیلی فوج کی فائرنگ سے 859 افراد ہلاک ہوئے ۔ اب موت کے خوف سے لوگ بھوکا رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ غزہ کے چیمبر آف کامرس کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اسوقت 55پائونڈ کے آٹے کے ایک تھیلے کی قیمت 180 ڈالرز ہے‘ دو پائونڈ چینی دس ڈالرز میں ملتی ہے اور اتنے ہی ٹماٹر بیس ڈالرز میں بک رہے ہیں۔ یہ رقم لوگ اپنا گھریلو سامان بیچ کر حاصل کر رہے ہیں یا پھر مغربی ممالک کے لیے کام کرنے والوںکو تنخواہوں کی صورت میں ڈالرز مل رہے ہیں۔ ملبے کے وسیع و عریض ڈھیروں کے درمیان ہونیوالے اشیائے خوردو نوش کا یہ کاروبار اسرائیلی شیکلز میں ہو رہا ہے۔ ڈالرز کو شیکلز میں تبدیل کرنے کے لیے پچاس فیصد کمیشن دیناپڑتی ہے۔
غزہ کے بیس لاکھ لوگوں کو تین ماہ تک خوراک کی عدم دستیابی پر چند مغربی ممالک نے سخت رد عمل ظاہر کیا ہے۔ برطانیہ‘ فرانس اور کینیڈا نے ستمبر میں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ برطانیہ کے وزیر اعظم کئیر سٹارمر نے کہا ہے کہ اگر اس اجلاس کے انعقاد تک جنگ بندی نہ ہوئی تو وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیں گے۔ فرانس اور کینیڈا نے کوئی شرط عائد نہیں کی۔ اس سے پہلے 147ممالک فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنیکا اعلان کر چکے ہیں۔ ان تین ممالک کی پالیسی میں یہ نمایاں تبدیلی اگر چہ کہ اہل فلسطین کی آزاد اور خود مختار حیثیت کو تسلیم کرنے کی سمت میں ایک بڑا اقدام ہے مگر اس سے غزہ میں خوراک کی ترسیل شروع ہو سکتی ہے اور نہ ہی اسرائیل کا محاسبہ ہو سکتا ہے۔ بعض مغربی ماہرین نے ان اعلانات کو ایک سوچی سمجھی پروپیگنڈا مہم اور تھیٹریکل پرفارمنس قرار دیاہے۔ آٹھ اگست کے نیو یارک ٹائمز میں Zinaida Millerجو بین الاقوامی امور اور عالمی قوانین کے ماہر ہیں نے لکھا ہے’’ یہ اعلانات اس لیے ناکافی ہیں کہ ان سے غزہ میں بھوک کا ازالہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی نسل کشی کا خاتمہ ممکن ہے۔‘‘ زینیدہ ملر نے اس رائے کا اظہاربھی کیا ہے کہ’’ کئی ہولو کاسٹ سکالرز کہہ چکے ہیں کہ گزشتہ بائیس ماہ میں اسرائیل نے جو کچھ غزہ میں کیا ہے وہ نسل کشی کے زمرے میں آتا ہے۔ ‘‘
مضمون نگار کی رائے میں کسی نئی خود مختار ریاست کا قیام اتنا آسان نہیںجتنا سمجھا جا رہا ہے۔ فسلطینی عوام جن کے گھروں‘ گلی کوچوں اور بازاروں کو تبا ہ و برباد کر دیا گیا ہے انہیں ایک نئی ریاست بنانے کے لیے چند شرائط پوری کرنا ہوں گی۔ انہیں تشدد ترک کرنا ہو گا‘ ایک غیر فوجی ریاست کے قیام کو تسلیم کرنا ہو گا‘ ایسا دفاعی نظام بنانا ہو گا جو دوسرے ممالک کے لیے قابل قبول ہو‘ انتخابات کرانے ہوں گے‘ گڈ گورننس اور شفافیت کو یقینی بنانا ہو گا‘ اور معاشی استحکام کے لیے مناسب کاروباری ماحول تشکیل کرنا ہو گا۔ نئی فلسطینی ریاست اگر ان شرائط کو پورا کرنے میں ناکام رہتی ہے تو کیا یہ بندوبست ختم کر دیا جائے گا۔ زینیدہ ملر نے لکھا ہے کہ نسل کشی کے اس دور میں نئی فلسطینی ریاست کے قیام کی یہ شرائط اب ناقابل عمل ہو چکی ہیں۔ انکی رائے میںتین مغربی ممالک کے نئے اعلان کی اصل وجہ اسرائیل کے مظالم سے خود کو بری الزمہ قرار دینا ہے۔ یہ پالیسی ان ممالک کے خلفشار‘ گھبراہٹ اور اضطراب کو ظاہر کرتی ہے۔
اہل فلسطین پر ڈھائے جانے والے ان خوفناک مظالم میں اضافے کے لیے اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نتن یاہونے جمعے کو فاکس نیوز چینل کو دئے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ غزہ پر مکمل قبضہ کرنے کے بعد اسکا انتظام عرب ممالک کے حوالے کر دیں گے۔ اسرائیل کے آرمی چیف عیال ضمیر نے غزہ پر اس نئے حملے کے بارے میں کہا ہے کہ اس بڑے آپریشن کے لئے اگر ایک بڑی تعداد میں تربیت یافتہ شہری رضاکار مہیا نہ کئے گئے تو اس پر عملدرآمد ممکن نہ ہو گا۔ خلیجی ممالک نے بھی سخت الفاظ میں اس بیان کی مذمت کی ہے۔ اسرائیل میں حزب اختلاف پوچھ رہی ہے کہ وزیر اعظم کب تک آگے بڑھتے رہیں گے۔ امریکی ماہرین نے اس سوال کے جواب میں کہا ہے کہ وزیر اعظم کو خود معلوم نہیں کہ انکی منزل کہاں ہے۔